... loading ...
(آخری قسط)
جب قوم اس طرح کی فتویٰ بازی سے جنون میں مبتلا ہو کر اس پر عمل کرنے کا آغاز کرتی ہے تو’’سیاسی مولوی صاحبان‘‘ رنگ بدلتے ہو ئے ’’اتحاد واتفاق‘‘کی دہائی دیکرجلسوں اور جلوسوں میں اپیلیں کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔نوجوان اس لٹریچر پرعمل کرتے ہو ئے جب ملکوں کو تاراج کرنے لگتے ہیں تو مجھ جیسے کمزور دل قلمکار اس میں ’’یہودو ہنودکا ہاتھ‘‘تلاش کرنے میں جٹ جاتے ہیں اور تواور بعض تنگ نظر کوٹ کچہریوںاور محکمہ ریکارڈ کی گلیوں میںگھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سنا ہے ’’ابوبکر بغدادی اور ایمن الظواہری‘‘یہودی ایجنٹ ہیں ممکن ہے ’’ابن صباح‘‘کے رشتہ دار ہوں !لہذا ایک زیرک محقق کی طرح میں پہلی فرصت میں شجرہ دیکھنے آیا ہوں ۔جس قوم کی حالت اتنی پتلی ہوکہ انہیں ہر گمراہ بچے اور بوڑھے کے پیچھے یہودی ہاتھ نظر آجائے اور پھر تمام حدود عبور کرتے ہو ئے وہ کبھی ایرانی اور سعودی عربیہ کی غلط پالیسیوں کو بھی یہودی بالادستی کا حصہ قراردیکر ایک کو مجوسی النسل اور دوسرے کو یہودی النسل قرار دینے کے لیے دور کی کوڑی لانے میں بھی تردد ناکرتا ہو تو اس قوم کو بھلا کشمیر کے دوردراز خطے میں بھی اگر چند جذباتی مولویوں کے پیچھے یہودی ہاتھ نظر آجائے تو آ پ منع نہیں کر سکتے ہیں اس لیے کہ یہ بھی ایک فوبیا جس کے اکثر مسلمان شکار ہیں ۔
بعض مسائل مکمل طور پر مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں انہیں بین الاقوامی ایجنڈے سے جوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔جیسے دیوبندی ،بریلوی اور جماعت اسلامی کے اختلافات !نالائقی یہ کہ بعض مبلغین نے نہ صرف چین اس اختلاف کو منتقل کیا ہے بلکہ اب ملیشیا اور انڈونیشیا میں بھی لوگ انہی ناموں سے اپنے آپ کو یاد کرتے ہو ئے سنے گئے ہیں ۔امت مسلمہ میں اختلافات نہ کوئی پہلا معاملہ ہے نا ہی دیوبند یا ندوہ کے وجود میں آنے کے بعد ان کا انکشاف ہوا ہے بلکہ یہ سلسلہ سالہاسال سے جاری ہے ۔اختلافات کی حقیقت جو بھی ہے اس پس منظر سے بچتے ہو ئے جب آپ ان کے ابھارنے والوں سے پوچھیں گے کہ آپ انہیں ’’غیر شائستہ‘‘انداز میں کیوںباربار اٹھاتے ہیں تو ان کا جواب ہوگا کہ ہم حق پر ہیں اور فریق مخالف برباطل ۔جب آپ دوسرے فریق سے پوچھیں گے تو من و عن اس کا بھی جواب یہی ہوگا ۔اب کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ دونوںمیں حق پر کون ہے اوربہ یک وقت دونوں حق پرنہیں ہوسکتے ہیں ؟ توآپ مخمصے میں پھنس جائیں گے اور پھر جب فتویٰ کی زبان میں مناظرباز آپ کے راستے تنگ کرتے ہو ئے ’’کرو یا مرو‘‘والی پوزیشن پیدا کرتے ہو ئے یہ کہے گا کہ ’’جو فلاں کو کافر نہ مانے وہ بھی کافر‘‘اور جو ’’اس کے کافر ہونے میں شک کرے ‘‘وہ بھی کافر تو ڈرتے کانپتے آپ فوراََ توبہ کرتے ہو ئے مناظر کے قدموں میں پناہ لینے پر مجبور ہوں گے ۔ہر معاشرے میں اعتراض کرنے والے ایک فیصد سے کم ہوتے ہیں اور پھر جب معاملہ دین کا ہو تو لاعلمی کی وجہ سے ہزار میں بھی ایک نہیں ہوتا ہے ۔مناظر کو وسیع علم کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ مخالف کو توڑنے کے لیے اس فن کے داؤپیچ جاننا کافی ہوتا ہے مگر وہ تاثر یہ دے گا کہ دنیا جہاں کے علوم اس کے سینے میں ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ سو سال میں مناظروں کی خدمات کیارہی ہیں اور داعیانِ اسلام کی کیا خدمات ہیں ؟ہم دور کیوں جائیں ہمارے جموں و کشمیر ،لداخ ،آزاد کشمیراور گلگت بلتستان میں اسلام کی اشاعت کا وسیع پھیلاؤکسی ’’مناظر‘‘کی نہیں داعی اسلام حضرت العلام سیدی حضرت میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔جنہوں نے اپنی ایمانی قوت ،قرآنی علوم پر کامل دست رس اورروحانی کمالات کے نتیجے میں برصغیر کی ذہین ترین پختہ مذہبی ہندو اور برہمن قوم کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے بے مثال کامیابی حاصل کی ۔ہمارے اسلاف کی یہی تاریخ رہی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ غیروںسے بحث و مباحثے اور مناظروں میں حق کی طرف لوگوں کو آمادہ کیا ،رہا اپنوں کی غلطیوں پر متوجہ کرناتو یہ نہ صرف محمود ہے بلکہ مقصود بھی مگر اس کے لیے مناظرانہ زبان کارگر نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے لیے ہماری نئی نسل کو ’’مصلحین‘‘کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہوگا کہ کس طرح انھوں نے بڑے بڑے جباروں اور متکبروں کو راہ راست پر لایا ۔اس کے لیے بھی ہمیں کسی افریقہ یا عرب جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آج بھی وہ اللہ والا ’’سرہندکی مٹی میں دفن‘‘ہے جس نے مغلیہ سلطنت کو ارتداد کے آخری کنارے سے واپس لاکر اسلام کی دہلیز پر پہنچا کر ہی دم لیا ۔بین المسلمین اختلافات کے پھیل جانے کے بعد اور عوام کے دوتین فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہونے کے بعد یہ تصور کرنا کس قدر نالائقی ہے کہ میری تقریر یا فتویٰ بازی سے کوئی اپنا مسلک یا مکتبہ فکر چھوڑ دے گا ۔یہ صرف عوام ہوتی ہے جو مقررین یا واعظین سے متاثر ہو کر دینی جماعتوں یا افراد سے جاکر شامل ہوتی ہے وہ لکھے پڑھے نہیں جن سے کسی مسلک کا پھیلاؤ ہوتا ہے یا کسی مکتبہ فکر کا ؟
کشمیر کو جان بوجھ کر شیعہ سنی ،دیوبندی بریلوی اور سلفی جماعت اسلامی یااخوانی اختلافات کی جانب دھکیلنے کی کوششیں کی جاتی ہیں بلکہ یہ کوششیں اب کچھ عرصے سے عروج پر ہیں اور سوشل میڈیا جب سے عوام الناس کی دسترس میں آچکا ہے تب سے صورتحال بہت ہی مایوس کن ہے ۔اختلافات سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یہ تھے یہ رہیں گے یہاں تک کہ بڑے مفکرین آکر نئے مسائل کو قبول کرتے ہو ئے نئی تخم ریزی نہ کریں ۔تب تک موجودہ لٹریچر اور کتابوں کا دبدبہ رہے گا ۔نئے مسائل پر نئے لٹریچر آنے کے بعد یہ لٹریچر اور اس کی اہمیت آپ سے آپ ختم ہوجائے گی ۔یہ اختلافات کم یا زیادہ پہلے بھی مختلف ناموں پر موجود رہے ہیں اور نام اور مکاتب فکر بدلنے سے شاید ان کا نام بدل جائے گا نہ کہ اصلیت ۔البتہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ ہم پہلے سے ایک جنگ میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے ہماری ہر شئی داؤ پر لگی ہوئی ہے اگر ہم نے اسے توجہ ہٹا کر اس آگ کو بھڑکا دیا تو یقیناََ اس کے نتائج بالکل ویسے ہی ہوں گے جیسے ’’سقوطِ بغداد‘‘کے وقت پوراگلشن اس حال میں چنگیزیوں کے ہاتھوں اجڑاکہ مظلومین کی دلدوز چیخوں کے بیچ یہ آواز بھی سنی گئی ’’اے کافرو !ان فاسقوں کو قتل کردو‘‘جو اپنے اصل دشمن سے بے خبر ہو کرایک دوسرے سے علمی اور کلامی مباحث کا دروازہ کھول کر دراصل حقیقی دشمن کو اندر آنے کی راہ ہموار کر چکے تھے اور وہ سمجھ رہے
تھے کہ چنگیزی اصل دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو بعض مسائل میں ان سے اختلاف کرتے تھے ۔ یہ ذمہ داری ہمارے بزرگ علماء ،حریت لیڈران اور دینی جماعتوں اور دانشوروں کی ہے جو اس سب سے آنکھیں تب تک پھیر لیتے ہیں جب تک وہی فتنہ ان کی گھر کی دہلیز تک نہیں پہنچتا ہے۔فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ بزرگ حضرات نوجوانوں کے بیانات اور تقاریر کو نظرانداز نا کریں بلکہ ان پر اپنے اپنے دائرے اور حلقہ اثر میں پابندی لگا کر انہیں مستقبل میں جوابدہ بنائیں اور مستقبل میں جو بھی کہنا یاکرنا ہو وہ بڑے لوگ چھوٹوں کو بیچ میں لانے کے بجائے خود انجام دیدیں تاکہ غلط زبان اور ناشائستگی کا دروازہ بند ہونے کے ساتھ ساتھ یہ قوم بے لگام اور غیر شائستہ نظر نا آئے ۔ (ختم شد)