وجود

... loading ...

وجود

کشمیرمناظرہ بازوں کے نشانے پر

اتوار 25 مارچ 2018 کشمیرمناظرہ بازوں کے نشانے پر

(آخری قسط)

جب قوم اس طرح کی فتویٰ بازی سے جنون میں مبتلا ہو کر اس پر عمل کرنے کا آغاز کرتی ہے تو’’سیاسی مولوی صاحبان‘‘ رنگ بدلتے ہو ئے ’’اتحاد واتفاق‘‘کی دہائی دیکرجلسوں اور جلوسوں میں اپیلیں کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔نوجوان اس لٹریچر پرعمل کرتے ہو ئے جب ملکوں کو تاراج کرنے لگتے ہیں تو مجھ جیسے کمزور دل قلمکار اس میں ’’یہودو ہنودکا ہاتھ‘‘تلاش کرنے میں جٹ جاتے ہیں اور تواور بعض تنگ نظر کوٹ کچہریوںاور محکمہ ریکارڈ کی گلیوں میںگھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سنا ہے ’’ابوبکر بغدادی اور ایمن الظواہری‘‘یہودی ایجنٹ ہیں ممکن ہے ’’ابن صباح‘‘کے رشتہ دار ہوں !لہذا ایک زیرک محقق کی طرح میں پہلی فرصت میں شجرہ دیکھنے آیا ہوں ۔جس قوم کی حالت اتنی پتلی ہوکہ انہیں ہر گمراہ بچے اور بوڑھے کے پیچھے یہودی ہاتھ نظر آجائے اور پھر تمام حدود عبور کرتے ہو ئے وہ کبھی ایرانی اور سعودی عربیہ کی غلط پالیسیوں کو بھی یہودی بالادستی کا حصہ قراردیکر ایک کو مجوسی النسل اور دوسرے کو یہودی النسل قرار دینے کے لیے دور کی کوڑی لانے میں بھی تردد ناکرتا ہو تو اس قوم کو بھلا کشمیر کے دوردراز خطے میں بھی اگر چند جذباتی مولویوں کے پیچھے یہودی ہاتھ نظر آجائے تو آ پ منع نہیں کر سکتے ہیں اس لیے کہ یہ بھی ایک فوبیا جس کے اکثر مسلمان شکار ہیں ۔

بعض مسائل مکمل طور پر مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں انہیں بین الاقوامی ایجنڈے سے جوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔جیسے دیوبندی ،بریلوی اور جماعت اسلامی کے اختلافات !نالائقی یہ کہ بعض مبلغین نے نہ صرف چین اس اختلاف کو منتقل کیا ہے بلکہ اب ملیشیا اور انڈونیشیا میں بھی لوگ انہی ناموں سے اپنے آپ کو یاد کرتے ہو ئے سنے گئے ہیں ۔امت مسلمہ میں اختلافات نہ کوئی پہلا معاملہ ہے نا ہی دیوبند یا ندوہ کے وجود میں آنے کے بعد ان کا انکشاف ہوا ہے بلکہ یہ سلسلہ سالہاسال سے جاری ہے ۔اختلافات کی حقیقت جو بھی ہے اس پس منظر سے بچتے ہو ئے جب آپ ان کے ابھارنے والوں سے پوچھیں گے کہ آپ انہیں ’’غیر شائستہ‘‘انداز میں کیوںباربار اٹھاتے ہیں تو ان کا جواب ہوگا کہ ہم حق پر ہیں اور فریق مخالف برباطل ۔جب آپ دوسرے فریق سے پوچھیں گے تو من و عن اس کا بھی جواب یہی ہوگا ۔اب کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ دونوںمیں حق پر کون ہے اوربہ یک وقت دونوں حق پرنہیں ہوسکتے ہیں ؟ توآپ مخمصے میں پھنس جائیں گے اور پھر جب فتویٰ کی زبان میں مناظرباز آپ کے راستے تنگ کرتے ہو ئے ’’کرو یا مرو‘‘والی پوزیشن پیدا کرتے ہو ئے یہ کہے گا کہ ’’جو فلاں کو کافر نہ مانے وہ بھی کافر‘‘اور جو ’’اس کے کافر ہونے میں شک کرے ‘‘وہ بھی کافر تو ڈرتے کانپتے آپ فوراََ توبہ کرتے ہو ئے مناظر کے قدموں میں پناہ لینے پر مجبور ہوں گے ۔ہر معاشرے میں اعتراض کرنے والے ایک فیصد سے کم ہوتے ہیں اور پھر جب معاملہ دین کا ہو تو لاعلمی کی وجہ سے ہزار میں بھی ایک نہیں ہوتا ہے ۔مناظر کو وسیع علم کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ مخالف کو توڑنے کے لیے اس فن کے داؤپیچ جاننا کافی ہوتا ہے مگر وہ تاثر یہ دے گا کہ دنیا جہاں کے علوم اس کے سینے میں ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ سو سال میں مناظروں کی خدمات کیارہی ہیں اور داعیانِ اسلام کی کیا خدمات ہیں ؟ہم دور کیوں جائیں ہمارے جموں و کشمیر ،لداخ ،آزاد کشمیراور گلگت بلتستان میں اسلام کی اشاعت کا وسیع پھیلاؤکسی ’’مناظر‘‘کی نہیں داعی اسلام حضرت العلام سیدی حضرت میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔جنہوں نے اپنی ایمانی قوت ،قرآنی علوم پر کامل دست رس اورروحانی کمالات کے نتیجے میں برصغیر کی ذہین ترین پختہ مذہبی ہندو اور برہمن قوم کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے بے مثال کامیابی حاصل کی ۔ہمارے اسلاف کی یہی تاریخ رہی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ غیروںسے بحث و مباحثے اور مناظروں میں حق کی طرف لوگوں کو آمادہ کیا ،رہا اپنوں کی غلطیوں پر متوجہ کرناتو یہ نہ صرف محمود ہے بلکہ مقصود بھی مگر اس کے لیے مناظرانہ زبان کارگر نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے لیے ہماری نئی نسل کو ’’مصلحین‘‘کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہوگا کہ کس طرح انھوں نے بڑے بڑے جباروں اور متکبروں کو راہ راست پر لایا ۔اس کے لیے بھی ہمیں کسی افریقہ یا عرب جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آج بھی وہ اللہ والا ’’سرہندکی مٹی میں دفن‘‘ہے جس نے مغلیہ سلطنت کو ارتداد کے آخری کنارے سے واپس لاکر اسلام کی دہلیز پر پہنچا کر ہی دم لیا ۔بین المسلمین اختلافات کے پھیل جانے کے بعد اور عوام کے دوتین فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہونے کے بعد یہ تصور کرنا کس قدر نالائقی ہے کہ میری تقریر یا فتویٰ بازی سے کوئی اپنا مسلک یا مکتبہ فکر چھوڑ دے گا ۔یہ صرف عوام ہوتی ہے جو مقررین یا واعظین سے متاثر ہو کر دینی جماعتوں یا افراد سے جاکر شامل ہوتی ہے وہ لکھے پڑھے نہیں جن سے کسی مسلک کا پھیلاؤ ہوتا ہے یا کسی مکتبہ فکر کا ؟

کشمیر کو جان بوجھ کر شیعہ سنی ،دیوبندی بریلوی اور سلفی جماعت اسلامی یااخوانی اختلافات کی جانب دھکیلنے کی کوششیں کی جاتی ہیں بلکہ یہ کوششیں اب کچھ عرصے سے عروج پر ہیں اور سوشل میڈیا جب سے عوام الناس کی دسترس میں آچکا ہے تب سے صورتحال بہت ہی مایوس کن ہے ۔اختلافات سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یہ تھے یہ رہیں گے یہاں تک کہ بڑے مفکرین آکر نئے مسائل کو قبول کرتے ہو ئے نئی تخم ریزی نہ کریں ۔تب تک موجودہ لٹریچر اور کتابوں کا دبدبہ رہے گا ۔نئے مسائل پر نئے لٹریچر آنے کے بعد یہ لٹریچر اور اس کی اہمیت آپ سے آپ ختم ہوجائے گی ۔یہ اختلافات کم یا زیادہ پہلے بھی مختلف ناموں پر موجود رہے ہیں اور نام اور مکاتب فکر بدلنے سے شاید ان کا نام بدل جائے گا نہ کہ اصلیت ۔البتہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ ہم پہلے سے ایک جنگ میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے ہماری ہر شئی داؤ پر لگی ہوئی ہے اگر ہم نے اسے توجہ ہٹا کر اس آگ کو بھڑکا دیا تو یقیناََ اس کے نتائج بالکل ویسے ہی ہوں گے جیسے ’’سقوطِ بغداد‘‘کے وقت پوراگلشن اس حال میں چنگیزیوں کے ہاتھوں اجڑاکہ مظلومین کی دلدوز چیخوں کے بیچ یہ آواز بھی سنی گئی ’’اے کافرو !ان فاسقوں کو قتل کردو‘‘جو اپنے اصل دشمن سے بے خبر ہو کرایک دوسرے سے علمی اور کلامی مباحث کا دروازہ کھول کر دراصل حقیقی دشمن کو اندر آنے کی راہ ہموار کر چکے تھے اور وہ سمجھ رہے

تھے کہ چنگیزی اصل دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو بعض مسائل میں ان سے اختلاف کرتے تھے ۔ یہ ذمہ داری ہمارے بزرگ علماء ،حریت لیڈران اور دینی جماعتوں اور دانشوروں کی ہے جو اس سب سے آنکھیں تب تک پھیر لیتے ہیں جب تک وہی فتنہ ان کی گھر کی دہلیز تک نہیں پہنچتا ہے۔فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ بزرگ حضرات نوجوانوں کے بیانات اور تقاریر کو نظرانداز نا کریں بلکہ ان پر اپنے اپنے دائرے اور حلقہ اثر میں پابندی لگا کر انہیں مستقبل میں جوابدہ بنائیں اور مستقبل میں جو بھی کہنا یاکرنا ہو وہ بڑے لوگ چھوٹوں کو بیچ میں لانے کے بجائے خود انجام دیدیں تاکہ غلط زبان اور ناشائستگی کا دروازہ بند ہونے کے ساتھ ساتھ یہ قوم بے لگام اور غیر شائستہ نظر نا آئے ۔ (ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر