... loading ...
انسانی جذبوں میں محبت کاعمل دخل ہی انسان کو جینے کی اُمنگ دئیے رکھتا ہے۔دنیا سے محبت نہ کرنے سے مراد مادییت سے ماورا ہونا ہے۔اِسی لیے خالق کا ابدی ہونا اور بندئے کا اِس جہاں میں فانی ہونا اور عالمِ برزخ میں پھر ہمیشہ کے لیے غیر فانی ہوجانا۔اِس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بندئے کا اس جہاں میں فانی ہونا اور پھر اگلے جہاں میں غیر فانی ہوجانا یقینی طور پر اِس دنیا کی حقیقت کے حوالے سے جس کسوٹی کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہی ہے کہ یہاں عارضی قیام اور وہاں ہمیش۔ بندہ مومن کا جب اپنے رب سے ملاقات ہونے کا سبب بننے والی موت سے سامنا ہوتا ہے تو بندہ مومن کے لیے اُس کے رب کی جانب سے وہ موت تحفہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ جتنی مرضی تدبیریں کر لیں آخر رخصت ہونا ہی ہے ۔ اِس لیے اِس دنیا کی محبت کو مردار سے تشبہ دی گئی ہے۔امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کا اپنا سر کٹوانا قبول کر لینا۔اپنے خاندان کو اپنے سامنے شہید ہوتا دیکھنا منطور کر لینا۔حالانکہ جان بچانا تو لازمی امر ہے ۔لیکن جان کے بدلے میں سچائی کا ساتھ چھوڑنا حق نہیں ہے حق وہی ہے جو خالق کی رضا ہے۔ تو گویا اصل حقیقت گوشت پوست کی نہیں بلکہ روح کی ہے۔موت انسانی زندگی کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ یہ تو انسانی زندگی کے اگلے دور کا نام ہے۔موت کے دروازے سے گزر کر انسان اگلے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔موت کا ذائقہ ہر کسی نے چھکنا ہے۔
ذائقہ ایک کیفیت کا نام ہوتا ہے اِس کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔جیسے اگر کوئی مشروب پیا جائے تو اُس کا ذائقہ کچھ دیر تک رہتا ہے لیکن اُس کے بعد اُس مشروب کے ذائقے والی کیفیت ختم ہوجاتی ہے ۔ یہی حال موت کا ہے کہ انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، مرنا نہیں ہے۔چونکہ ذائقہ ایک بے حقیقت شے ہے ۔ ایک دن میں کئی مرتبہ ذائقہ آتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔اِس لیے تو موت ذائقہ بن کر آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ اِس ذائقہ موت کی کیا مجال کہ وہ انسان کی حقیقت کو ختم کر سکے۔حضرت عمرؓ کا فرمان َ عالیشان ہے کہ لوگو: تم جب ایک مرتبہ پیدا ہوگئے تو پھر مستقل پیدا ہو گئے اب منتقل ہوتے رہو گے۔پیدائش زندگی کا آغا ز ہے۔بچہ ماں کے پیٹ میں بھی زندہ ہوتا ہے۔ کھاتا پیتا ہے ۔پیدائش کا مطلب ہی یہ ہے کہ پیدائش سے پہلے بھی زندگی میں تھا۔ماں کے پیٹ سے دنیا میں آتا ہے۔پیدائش سے پہلے زندگی کا مقام اور تھا اور پیدائش کے بعد اور۔ماں کے پیٹ سے پہلے بھی تھا عالم ارواح میں۔جب بچہ ماں کے پیٹ سے آتا ہے تو روتا ہو ا آتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ شاید اُس کی موت ہوگئی ہے۔ کیونکہ اُس کے لیے تو جہاں اُس کی ماں کا پیٹ ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ اُسی کو سمجھتا ہے اور وہاں سے نکالے جانے پر روتا ہے۔ لیکن جب وہ اس جہاں میں آتا ہے تو اُسے اِس جہاں کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اُسے روشنی نظر آتی ہے ۔ وہ پھر ماں کے پیٹ میں جانے کی بجائے اِس دنیا کو اُس دنیا سے زیادہ بہتر خیال کرتا ہے۔
اِسی طرح جب انسان اِس دنیا کو چھوڑ کر عالم بررزخ میں جاتا ہے تو اُسے یہ دنیا بھی ماں کے پیٹ کی طرح چھوٹی لگتی ہے اور واپس اِس دنیا میں نہیں آنا چاہتا۔جب وہ جنت کے نظارے کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ دنیا تو ایک قید خانہ تھی۔وہ اپنے وطن کو جارہا ہوتا ہے پھر پردیس میں آنے کو اُس کا جی نہیں چاہتا۔ ساری راحتیں موت پر قربان ہوجاتی ہیں کیونکہ رب پاک سے جو ملنا ہوتا ہے۔نبی پاکﷺ کا فرمان ِ عالیشان ہے کہ مردِ مومن کی موت کا جب وقت آتا ہے تو مومن کی روح ملائکہ کے جلوس کے ساتھ جاتی ہے۔ملک الموت کی قیادت میں پانچ سو فرشتوں کا وفد جلوس لے کر مومن کے پاس آتا ہے ۔ ملک الموت مردِ مومن کو سلام کرتا ہے۔ اور کہتا کہ کہ االلہ پانک نے آپ پر سلام بھیجا ہے۔روح قبض کرکے قبر میں نہیں لائی جاتی۔ ایک ایک آسمان کا دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے اور ملائکہ اللہ پاک کے حضور روح کو پیش کرتے ہیں۔تمام ملائکہ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔اور پھر تمام ملائکہ اللہ کے نیک بندے کو اپنے جھرمٹ میں اللہ کے حضور سجدہ ریز کرواتے ہیں۔حدیث پاک کے الفاظ ہیں کہ اللہ پاک حضرت میکائیل ؑ کو کہتے ہیں کہ روح کو واپس اُس جسم میں رکھ دو جہاں سے نکال کر لائے ہو۔روح جسم سے جدا ہونے کے بعد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے بعد اُس کے جسم کو قبر میں رکھا جاتا ہے۔حدیث کے مطابق لوگ بندے کے جسم کو دفن کر رہے ہوتے ہیں اور فرشتے روح کو اُس بندے کے جسم میں داخل کردیتے ہیں۔
حضرت حسنؓ بن صالح کا بیان ہے کہ میرے بھائی علی بن صالح کی وفات جس رات کو ہوئی اسی رات انہوں نے مجھ سے کہا ’’بھائی مجھے پانی پلاؤ‘‘میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا نماز سے فارغ ہو کر میں نے پانی پیش کیا مگر انہوں نے کہا‘‘ میں پانی پی چکا ہوں‘‘ میں نے دوبارہ پانی پینے کو کہا تو انہوں نے پھر وہی جواب دیا کہ ’’میں پانی پی چکا ہوں‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’میرے اور آپ کے علاوہ کوئی تیسرا آدمی نہیں ہے پھر آپ کو پانی کس نے پلایا ہے‘‘؟بھائی نے جواب دیا ’’ابھی ابھی ایک نورانی فرشتہ آیا اور مجھے پانی پلانے کے بعد خوشخبری دی کہ تم تمہاارا بھائی اور تمہاری والدہ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جن پر اللہ تعالی نے اپنا انعام کیا‘‘ابن سندہ وغیرہ‘حضرت عبدالرحمن بن غنم اشعری ؓکی روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ کا لڑکا طاعون عمو کے مقام پر فوت ہو گیا، اس کی وفات پر حضرت معاذؓ نے صبر و شکر سے کام لیا پھر جب حضرت معاذؓ کو ایک لڑائی میں کافروں کا نیزہ لگا اور وفات کا وقت قریب آیا تو آ پ کے منہ سے یہ جملہ نکلا کہ’’دوست اپنی ضرورت سے آ یا ہے وہ شخص کبھی کامیاب نہ ہو گا جو دوست کی حاجت ُپوری کرنے میں ندامت اور معذرت کرے‘‘حضرت عبدالرحمنؓ ؓکا بیا ن ہے کہ میں نے یہ عجیب جملہ سن کر حضرت معاذ ؓسے دریافت کیا کہ’’کیا آپ کو کچھ نظر آ رہا ہے‘‘؟ آ پ نے جواب دیا ’’جی ہاں۔۔میں نے اپنے بیٹے کی وفات پر جس صبر سے کام لیا تھا اس کی اللہ تعالی کی طرف سے عزت افزائی ہوئی ہے، میرے پاس اس وقت میرا بیٹا آ یا اس نے خوشخبری دی ہے کہ رسول اکرمﷺاپنے ساتھ مقرب فرشتوں، شہدا اور صالحین کے ساتھ حضرت معاذ ؓکی روح پر نماز پڑھیں گے اور پھر جنت میں لے جائیں گے حضرت معاذؓ یہاں تک گفتگو کر کے بے ہوش ہو گئے، ہم نے دیکھا کہ و ہ بے ہوشی کے عالم میں کسی سے مصافحہ کر کے کہہ رہے ہیں ’’مرحبا مرحبا‘‘ اتنا کہہ کر وہ دنیا سے رخصت ہو گئے (ابن عساکر )۔
آنحضرتﷺ سے روح کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ روح اللہ کا حکم ہے ۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ میت پہچانتی ہے کہ کون اسے غسل دیتا ہے اور کون اٹھاتا ہے کون اسے کفن پہناتا ہے اور کون قبر میں اتارتا ہے(مسنداحمد،معجم اوسط،طبرانی)روح کو دنیا میں گھومنے کی آزادی ہوتی ہے یا نہیں؟اس سلسلے میں یہ بیان کیا ہے کہ کفارو فجار کی روحیں سجین کے جیل میں مقید ہوتی ہیں ان کے کہیں آنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اصل بات یہ ہے کہ روح اپنے تصرفات کے لیے جسم کی محتاج ہے چنانچہ احاد یث میں انبیا ء کرام، صدیقین،شہدا اور بعض صالحین کو مثالی جسم دینے کا ثبوت ملتا ہے۔خلاصہ یہ کہ جن ارواح کو مرنے کے بعد مثالی جسم عطا کیا جاتا ہے وہ اگر باذن اللہ کہیں آجاتی ہوں تو اس کی نفی نہیں کی جاسکتی ،مثلا شبِ معراج میں انبیاء کرام کا آنحضرتﷺ کی اقتدا ء میں نماز ادا کرنے کے لیے بیت المقدس میں جمع ہونا،شہیدوں کا جنت میں کھانا پینا،سیر کرنا وغیرہ عراق کا تاریخی واقعہ بھی ایمان کو تازہ کرنے اور نہایت حیرت انگیز ہے جب بیسویں صدی عیسوی میں سینکڑوں لوگوں نے دو صحابہ کرام کی قبریں کھولیں تو ان کے مبارک جسم صحیح حالت میں موجود تھے اور ان کے چہروں پر نظر ڈالنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انھیں دفنائے ہوئے چند گھنٹے ہوے ہیں حالانکہ وہ تقریبا چودہ سو سال پہلے دفن کیے گئے تھے ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان میں ایک غیر معمولی چمک تھی وہاں موجود اشخاص میں سے کوئی بھی ان سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں کرتا تھا- جرمن ماہر چشم یہ منظر دیکھ کر فورا مسلمان ہوگئے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں کا ایما ن تازہ ہو گیا ۔