وجود

... loading ...

وجود

نیند کو دے گا کون اب ’’ آیہ کُرسی ‘‘ کا انعام

هفته 17 مارچ 2018 نیند کو دے گا کون اب ’’ آیہ کُرسی ‘‘ کا انعام

دبستانِ میانوالی میں تلوک چند محروم اور ان کے بیٹے ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کے بعد موجودہ ادبی منظر نامے کی سرشاریوں پر نظر دوڑائی جائے تو اسکندر آباد کے ڈاکٹر محمد آصف مغل کے خاندان کی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔ آپ کا خانوادہ ادب خصوصاً شاعری کا ورثہ سنبھالنے میں کسی طور پر بھی تلوک چند محروم کے خاندان سے پیچھے نہیں ہے ۔ ڈاکٹر محمد آصف مغل صاحب دیوان شاعر ہیں ۔ ان کی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر لُبنیٰ آصف باوقار لہجے کی شاعرہ اور لکھاری ہیں ۔ بیٹا احمد طلال آصف کمال کا شاعر ہے جبکہ دونوں بیٹیاں مناہل فاطمہ اور مُنتہا فاطمہ بھی بامقصد شاعری کرتی ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب میرے لیے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں ڈیرھ سال قبل میری والدہ محترمہ اللہ کو پیاری ہوئیں تو حالت یہ تھی کہ
کسی نے جو نہیں دیکھی وہ ساعت دیکھ لی میں نے

قیامت سے بہت پہلے قیامت دیکھ لی میں نے ڈاکٹر صاحب اور ڈاکٹر صاحبہ لاہور کی جانب عازم سفر تھے اطلاع ملتے ہی میری غمگساری اور پُرسہ کے لیے واپس پلٹے ۔ 15 مارچ کی سہ پہر کئی دنوں بعد مجھے ڈاکٹر صاحب کی فون کال موصول ہوئی ۔ موبائل اسکرین پر ان کا نام دیکھ کر تشویش کا پہلونمایاں ہوا کیونکہ ان کی والدہ محترمہ کئی دنوں سے علیل تھیں اور کراچی کے آغا خان ہسپتال میں زیر علاج رہیں۔ اُن کے لہجے سے ہی محسوس ہو گیا تھا کہ ’’ ان کی زندگی کی کتاب کا وہ باب بند ہوگیا ہے جس کے ورق ورق پر محبت ، چاہت اور اُلفت لکھا ہوا تھا ‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ انوار بھائی دنیا اندھیر ہو گئی ہے اور میں ایک لُٹے پُٹے قافلے کی طرح سکھر کی جانب رواں دواں ہوں ‘‘۔۔
ایک بیٹے سے ماں کی تعزیت کیسے کی جا سکتی ہے ۔ اُس کا غم کیسے بانٹا جا سکتا ہے۔ یہ سب میری سوچ او ر شعور سے ما وراتھا ۔ میری آنکھیں ان الفاظ پر ٹکی ہوئی تھیں کہ ’’ اللہ کریم نے اس دنیا فانی میں حضور اکر م ﷺ پر اُتاری جانے والے قرآن کریم کے بعد انسان کو کسی چیز سے نوازا ہے تو وہ ماں کی ہستی ہے ۔ ‘‘

سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ کریم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ تُم لوگ کسی کی عبادت نہ کرومگر صرف اللہ کی ، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیںتو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ جھڑک کر جواب دو، بلکہ اِن سے احترام کے ساتھ بات کرواور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے پاس جھُک کر رہو اور دعا کیا کروکہ اے پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت اور شفقت کے ساتھ مُجھے پالا تھا ۔ ‘‘
اللہ کی پاک کتاب میںکم و بیش 29 کے قریب مقامات پر والدین خصوصاً ماں کا ذکر آیاہے ۔ محسنِ انسانیت رحمت ِ دو عالم نے تو والدین اور خاص طور پر ماں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی جس قدر تاکید فرمائی ہے اُسے احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ تاریخ اسلام ہی نہیں

دنیا بھر کی تاریخ میں قدم قدم پر ماں کی عظمت کی گواہیاں موجود ہیں ۔
ڈاکٹر آصف مغل نے بتایا کہ میںکچھ دن پہلے ہی کراچی سے لوٹا تھا والدہ کی طبیعت بہتر ہو گئی تھی۔ لیکن قدرت کو کُچھ اور ہی منظور تھا ۔ یہ الفاظ ان کی زبان سے بمشکل ادا ہوئے ان کی ہچکی بندھی تو ایسا محسوس ہوا کہ وہ اپنی ماں کے آخری سانسوں کے وقت اپنی غیر
حاضری پر دلگیر و افسردہ ہیں ، شاید انہیں تلوک چند محروم کے وہ الفاظ جو ماں کے آخری سفر سے متعلق ہیں یاد آ رہے ہوں گے جب ماں اپنی اولاد کو پُکارتی ہے

کوئی دَم کی مہمان ہوں جانِ مادر آؤ بھی
رہ گیا آنکھوں میں دم میرا ٹک کر آؤ بھی
جاں کُنی کا وقت ہے اور جاں نکل سکتی نہیں
سینہ سوزاں پہ ہے فُرقت کا پتھر آؤ بھی

جس کے قدموں تلے جنت لپٹی ہو، جس کی نصیحتوں سے زندگی کو راستہ ملے ، جس کے ذریعے سے انسان خدا کو پہچانے ، جس کی آغوش عرش تک لے جائے ،جسکی خدمت کا انعام بہشت اور ناراضگی کا صلہ جہنم ہو جو عورت کا بہترین کردار ہو۔شیکسپئر کہتا ہے کہ ’’ بچے کے لیے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہے چاہے بچے کی عمر کتنی ہی ہو چُکی ہو ۔ اکبر اعظم نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ ہر شخص انسانیت کی حقیقی تصویر اپنی ماں کے چہرے پر دیکھ سکتا ہے ۔ شیلے کہتا ہے کہ ’’ دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے زیادہ پیارا نہیں ہے ‘‘۔ ماں کے دل کے بارے میں ہی کہا گیا ہے کہ یہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ اس میں ساری کائنات سما سکتی ہے۔ہر تکلیف اور غم کی مرہم ماں ہے ۔

ماں کے بارے میں جتنا کہا لکھا جائے کم ہے ۔ اس قدر شفیق ہستی جو ہمیں پالنے والی ہوتی ہے اُسے لحد میں اُتارنے کا منظر کس قدربڑا اور دُکھ بھرا امتحان ہوتا ہے ۔۔ یہ ڈاکٹر محمد آصف مغل ، محمد ارشد مُغل ، محمد عابد مُغل ، محمد شاہد مُغل ، محمد کاشف مغل اور ان جیسے وہ تمام بیٹے جانتے ہیں جن کی مائیں اس دنیا میں نہیں رہیں ۔

سید نصیر شاہ نے بہت خوبصورت انداز میں ماں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ جب بھی کسی ماں کے دنیا کے چلے جانے کی خبر ملتی ہے تو مجھے بے اختیار یہ اشعار یاد آجاتے ہیں پھر کیا ہوتا ہے کہ آنسوں کی جھڑی لگ جاتی ہے ۔

کس کو دکھاؤں گا میں ’’ اَ مڑی ‘‘ سینے کے ناسور
کس کے سہارے چھوڑ کے مجھ کو جانے لگی ہے دُور
کس کی دعائیں لے کے اَمڑی جاؤں گا اسکول
کس کا استقبال کرے گا اب مجھ کو مخمور
کون رکھے گا ماتھے پہ روشن صبحوں جیسا ہاتھ
کون جگا کے برسائے گا بسم اللہ کا نور
نیند کو دے گا کون اب ’’ آیہ کُرسی ‘‘ کا انعام
کون کرے گا سانسوں کو تقدیسوں سے معمور
کون کرے گا آنکھ کو میٹھے خوابوں سے لبریز
کون کرے گا عزم کو اُونچے جذبوں سے بھرپور
کون کرے گا لمحوں کو خوشیوں سے سرشار
کون بہاروں کو کردے گا خدمت پر مامور
کِس کی اُڈیکیں بنی رہیں گی شاہ در کی دہلیز
میری چاہت سے کون سماعت اب ہوگی مسرور
کون ہے اب جو آکے سمیٹے بکھرے ہوئے اعصاب
تُوہی بتا اب کس سے مجھ کو ملے گا نور شعور
تُو تو میری ساری اُمنگیں لے گئی اپنے ساتھ
ویسے تو اِک لاش ہوں جینے پر مجبور
ہو گئی سارے نظاروں کی دلداری معدوم
پھیکا چاند ہے جیسے اِک یرقان زدہ مزدور
سارے سورج اندھے سارے موسم ہیں بے رنگ
آج ہوئے ہیں سارے جلوے نظروں سے مستور
سوچوں نے بھی چھوڑ دیا ہے اب تو میرا ساتھ
اندر کوسوں تک تاریکی ذہن دُکھوں سے چُور
جاناہے مجبوری تو پھر ایسی ذات بتا
جِس کے پاؤں میں سُکھ پائے یہ تیرا رنجور
جس کے قدموں کے نیچے ہو میرا بہشت آباد
میری راہ میں پھول بچھانا ہو جس کا دستور
جِس کی ہر مسکان میں لاکھوں سجدوںکا اخلاص
جِس کی لوری میں سورہٗ رحمن کو سوز و سرور
جِس کی پلکیں میرا مقدر کرتی ہوں تحریر
جِس کی پیشانی کی لکیریں ہوں میرا منشور


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر