... loading ...
مسلم لیگی قیادت سینیٹ کی شکست کا دکھ سہار نہیںپارہی!ہر گزرتے دن سابق وزیراعظم نوازشریف اپنے انجام کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ اس عالم میں ایک’’ جعلی‘‘ سیاسی بیانئے کی تشکیل کی کوشش بھی جاری ہے۔ قیادت کا پہلا نقش اس کی دیانت کا ہوتا ہے۔ نوازشریف صاحب الحمد للہ اس کھاتے کے مکمل دیوالیے ہیں۔ نواشریف کا مسئلہ ہے کہ وہ بے اقتدار ایّام میں اچانک جمہوری اور اُصولی سیاست کی انگڑائی لیتے ہیں اور پھر مقتدرہ دنوں میں لسی پی کر غنودہ رہتے ہیں۔اب اچانک اُنہیں ووٹ کو عزت دینے کا خیال جاگا ہے۔ اُنہیں سینیٹ انتخابات میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے کردار کا بھی درد اُٹھا ہے۔ اُنہیں یک بیک بلوچستان کے آزاد ارکان کے آگے ان جماعتوں کے سجدہ ریز ہونے پر غصہ آیا ہے۔ وہ ان کے سیاسی قدکاٹھ پر سوال اُٹھا رہے ہیں۔
کاش یہ سوال اُٹھانے کی روایت پہلے سے ہوتی ۔پھرپنجاب کے وزیرخزانہ کے طور پر اچانک نوازشریف کے انتخاب پر سوال اُٹھتا۔ اُن کے کسی قد کاٹھ کے بغیر وزیراعلیٰ پنجاب بنائے جانے پر کسی کو غصہ تو آتا۔ کبھی جنرل ضیاء سے اپنی عمر کی دعا پانے والے کے جمہوری کردار پر اُنگلی تو اُٹھتی۔محمد خان جونیجو کی رخصتی کو کندھا دینے پر جمہوریت کا وایلا مچتا۔ پنڈی کی سازشی بُو سے سیاست کی سانسیں لے کر اسلامی جمہوری اتحاد پر قبضے کے خلاف بغاوت کا جذبہ بیدار ہوتا۔ تب کے انتخابی عمل میں آج کے سینیٹ انتخاب کی طرح کوئی شور توکرتا۔ کون درگاہِ شریفیہ پر کس کے کہنے پر حاضر ہوا؟کس کی دولت کے منتر پر کس نے اُن کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کی ؟کس نے کس کو دغادی؟ کس نے کس سے وفا توڑی؟ غلام مصطفی جتوئی کے پاؤں میں اڑنگا کس نے ڈالا؟آج تو صرف بلوچستان میں ’’آزادوں‘‘ کی ہوا چلی تب تو چاروں صوبوں میں سموم کج ادا کے بے وفا جھکڑوں نے خاندانِ شریفیہ کارخ کر لیا تھا۔ چٹکنے والے غنچے اُن سے نمو کی اجازت مانگتے۔ پھوٹنے والے شگوفے اُن سے حیات کی حرارت لیتے۔ کھٹکنے والے رُلتے لڑھکتے رہتے۔یہ سب سوال اپنے وقت پر اُٹھتے۔ کاش سوال اُٹھانے کی روایت پہلے سے ہوتی۔
کاش سوال اُٹھانے کی روایت پہلے سے ہوتی۔پھر سوال اُٹھتا کہ 1988 میں پیپلزپارٹی کو شکست دینے کے لیے ’’خفیہ فنڈ‘‘ کس نے قائم کیا تھا؟ جنرل جیلانی کون تھے؟پاکستان مسلم لیگ پگاڑا گروپ جنرل ضیاء کے ساتھ کیسے ’’شہید‘‘ ہوا؟ پھر اس کے دو گروپوں میں جونیجو مخالف دوسرا دھڑا فداگروپ جنرل ضیاء کے وفاداروں پر مشتمل کیسے تشکیل پایا اور اس کی قیادت جمہوریت اور ووٹ کی دُکان چمکانے والے حضرت میاں نوازشریف نے کیسے ہتھیائی؟اسلامی جمہوری اتحاد کیسے تشکیل پایا؟ آپ جناب دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب پر کس طرح براجمان ہوئے؟ پنجاب کی قیادت سے مرکز کی سیاست تک زقند لگانے میں کس کس کو کہاں کہاں سیاسی طور پرقتل کیا گیا؟وہ یکم نومبر 1990 کو پاکستان کے بارہویں وزیراعظم کیسے بنے ؟مختلف جماعتوں کے مینڈیٹ کی انجینئرنگ نوازشریف کے حق میں کیسے ہوئی؟اور آئی جے آئی کے اہداف کیا تھے؟ سوال اُٹھانے کی روایت پہلے ہوتی اور نوازشریف اس روایت کی تاب لاسکتے تو سیاست میں آنے والے اُس پندرہ ملین روپوں کو چاروں ہاتھوں سے استعمال کرتے ہوئے نوازشریف کوئی جواب تو دیتے۔ تب ووٹ کی عزت کا ڈھنڈوارتو پیٹتے۔
کاش سوال اُٹھانے کی روایت زندہ ہوتی۔ کوئی 1993 کے آئینی بحران پر لب کشا ہوتا۔ سوال اُٹھتے کہ برطرف وزیراعظم نوازشریف عدلیہ سے کیسے بحال ہوئے؟ جسٹس نسیم حسن شاہ کے دور سے عدلیہ پر کیسے نقب لگائی جاتی رہی؟ عدلیہ کیسے دونیم ہوئی؟ عدالت عظمیٰ کے تیرہویں منصف ِاعلیٰ سجاد علی شاہ مرحوم کے ساتھ کیا ہوتا رہا؟ اسی بلوچستان میں ایک جہاز پر بریف کیس لاد کر نوازشریف جسٹس رفیق تارڑ کو کیوں اپنے ساتھ لے گئے تھے؟ کاش سوال کرنے کی روایت ہوتی تو کوئی پوچھتا کہ چھانگا مانگا تو سیاست دانوں کا لگا کرتا تھا،یہ عدلیہ میں منڈی کس نے لگائی تھی؟
درحقیقت نوازشریف کی پوری سیاسی زندگی جن مشکوک کھاتوں سے بھُنائی جاتی رہی ۔ آج اُن تمام مشکوک کھاتوں پر وہ اُنگلیاں اُٹھارہے ہیں۔ وہ زیادہ جانتے ہیں کہ سیاست میں سجدہ ریزی کیا ہوتی ہے؟ وہ زیادہ جانتے ہیں کہ کون کون سیاست میں اپنی وفاداریاں کیسے بدلتے ہیں۔اُنہیں زیادہ پتہ ہے کہ خفیہ ہاتھ کیسے حرکت کرتا ہے؟ نوازشریف کو تکلیف صرف اتنی ہے کہ یہ سب اگر اُن کے اقتدار کی راہ آسان کرتے ہو تو کوئی بات نہیں مگر تاریخ کے بہاؤ میں یہ سب اُن کے خلاف نتائج لاتا ہو تو پھر نعرہ لگے گا کہ ووٹ کو عزت دو۔ اگر ووٹ کو 1988 میں عزت مل جاتی تو نوازشریف 1981 میں پنجاب کے صوبائی وزیرخزانہ ہی نہ بنتے۔ اگر کوئی تب یہ سوال کر لیتا کہ اُن کی خدمات کیاہیں؟ تو اُن کو وہی جواب ملتا جو آج نوازشریف سینیٹ کے آزاد امیدواروں کے حوالے سے چاہتے ہیں۔لین دین، خرید وفروخت ، منڈی ، مول تول اور توڑ جوڑ کی تاریخ جتنی نوازشریف سے وابستہ ہے اُتنی کسی ایک سیاست دان سے وابستہ نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ زرداری بھی اس دشت کی سیاحی میں اُن سے آگے نہیں۔ اب تاریخ کا بہاؤ اُن کے خلاف ہے تو وہ سیاست میں اپنا تعارف ٹراؤٹ مچھلی کی طرح مختلف سمت میں بہنے کی جرأت کے ساتھ چاہتے ہیں۔ مگر اس کے لیے اُن کی اسناد اور ماضی پورا مشکوک ہے۔ پاکستان میں جاری جس کھیل سے وہ شاکی ہے اور جس کھیل کی تبدیلی کا وہ جھنڈا اُٹھانا چاہتے ہیں ۔ اُسے سب سے زیادہ تقویت خود اُنہوں نے دی ہے۔ جس تلوار کو وہ اپنے مخالفین کے خلاف چلاتے رہے، وہی تلوار اب اُن کی گردن پر آپڑی ہے۔ جس تیر سے وہ دوسروں کا سینہ چھلنی کرتے رہے اب اُن ہی تیروں کا رخ اُن کی جانب ہے۔ نواز شریف اگر اپنے آج کو ٹھیک کرنے نکلے ہیں تو اُنہیں اپنے کل کے غلط کا حساب بھی دینا چاہئے۔جعلی مینڈیٹ سے پارلیمنٹ پر قبضے، ذرائع ابلاغ کو خرید کرمقبولیت کے جعلی دعوے، مشکوک دولت کے حوالے سے خاندانی محنت کے جعلی ہندسے اور سیاست میں جمہوریت کے جعلی حوالے دے کر وہ جو نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی جعلی ہی نکلیں گے۔کیونکہ دھوکا پلٹ کر آتا ہے ۔