وجود

... loading ...

وجود

قائد اعظم کی تصویر کی مسلسل توہین کیوں ؟

جمعرات 15 مارچ 2018 قائد اعظم کی تصویر کی مسلسل توہین کیوں ؟

قائد اعظم ؒ کے ساتھ مل کر عوام نے لاکھوں بہنوں بھائیوں بزرگوں کی قربانیاں دے کر یہ پاک وطن حاصل کیا تھا اور قائد پاکستان کا احترام بھی پوری قوم دل و جان سے کرتی ہے اسلامی مملکت کے وجود پاتے ہی ان کی تصویر ہمارے کرنسی نوٹوں پر احتراماً چھاپی جاتی ہے تاکہ عظیم راہنما کی یاد ہمارے دلوں سے کسی صورت محو نہ ہو سکے سیکولر مغربی لادینی بیورو کریسی اور انگریزوں کے پروردہ ٹوڈی جاگیرداروں اور وڈیروں نے حکمرانی پر مسلسل قبضہ کیے رکھا آج بھی انہی پالتو ناسوروں کی اولادیں کسی نہ کسی صورت برسر اقتدار ہیں چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہوئے ہر بڑی سیاسی جماعت کے اہم عہدوں پر قابض ہیں ذرا سی کان میں بھنک پڑی تو فوراً ہی اُڑن پرندوں کی طرح مقتدر آجانے والی طاقتوں کی منڈیر پر آن بیٹھتے ہیں پھر تو ان میں پاکستانیت اور اسلامیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔

پچھلے ماہ ہی راقم نے دو کالم “جائیداد قرق کروا ور کوڑے مارو “اور “بابا رحمتے آپ کہاں ہیں ؟”لکھے تھے جن میں شادی بیاہ پر انتہائی کریہہ حرکت کہ چھت کے ا وپر چڑھ کر پانچ ہزار اور ہزار روپے والے نوٹ خوشی میں پھینکے جائیں جس سے شادی میں آئے ہوئے مہمان تک گھتم گھتا ہو کر رہ گئے کسی کو چوٹ لگی کسی کی ناک کی ہڈی ٹوٹی اور کسی دوسرے کی آنکھ پھوٹی اور دیگر کے کپڑے پھٹ کر رہ گئے کہ کون ایسا ہو گاجو پانچ ہزار کے نوٹوں کو یوں ہوا میں اڑتے دیکھے اورا نہیں حاصل نہ کرنا چاہے گا؟ مہمانوں کی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے بھائی سگے بھائی سے الجھ رہا تھا اور شادی کا گھر دیکھتے ہی دیکھتے ہنگامے میں بدل گیا پھر شادی کی ہی تقریب میں منچلے نوجوان فائرنگ کی انتہا کر ڈالتے ہیں اور کئی دفعہ دولہا اور اس کے قریبی رشتہ دار باپ بھائی تک بھی زخمی تو کیا جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

نکاح کرنا سنت رسول ﷺ ہے تو پھر کیا خوشی منانے کا یہی طریقہ ہے ؟ یا پھراس خدائے عز و جل کے آگے جھک جانا نوافل ادا کرنا ہے ؟فائرنگ کا ایسا ہی غلیظ عمل ملتان سے نو منتخب ہو جانے والے سینٹر رانا محمود الحسن کے ڈیرہ پر ہوا، ڈی پی او نے مقدمہ اندراج کرکے گرفتاریوں کا حکم دیا مگر اس پر عمل درآمد کیونکر ممکن ہے ؟ کہ حکومتی پارٹی کے نمائندہ جو ٹھہرے! شادی پر فائرنگ کرنے اور کرنسی نوٹوں کو اڑانے جن پر بانی پاکستان قائد اعظم کی تصویر چھپی ہوئی ہے کی اس طرح بے حرمتی کا کیا جواز ہے؟ جب کرنسی نوٹ ہوا میں اڑائے جاتے ہیں تو متعلقہ نو دولتیا سود خور سرمایہ دار یا ڈھیروں ناجائز منافع کمانے والا صنعتکار نیچے کھڑے لوگوں کی چھینا جھپٹیوں سے محظوظ ہو رہا ہوتا ہے اور بیعنیہ اس بادشاہ کی مانند جو پورا سال نوجوانوں کو اعلیٰ ترین خوراک کھلا کر پالتا تھااور پھر انہیں خونخوار بھوکے شیروں کی کچھار میں چھوڑ دیا جاتا تھا کہ اب وہ شیر کو زیر کریں وہ سبھی خود کو لہو لہان کروا بیٹھتے اور کئی زندگی کی بازی ہار جاتے کئی گھنٹے یہ تماشا جاری رہتا اور پھر اگلی کشتیوں کے لیے نئے نوجوان تیار کیے جاتے اور بادشاہ اور اس کے بیوی بچے اس خونی دنگل کو دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجاتے تھے۔

اسی طرح اس جانور کی طرح جو بوٹیوں اور ہڈیوں کو نوچتے ہیں عوام نیچے کھڑے نوٹوں کی چھینا جھپٹی کر رہے ہو تے ہیں آخر یہ کریحہ عمل کس کام کا؟ ہوائوں میں اڑتے اڑتے بالآخر پھٹے ہوئے نوٹ اور قائد کی تصویرلوگوں کے پائوں تلے روندے چلے جاتے ہیں جو بالآخر کسی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کی” زینت” بنتے ہیں ،کرنسی نوٹوں پر چھپی اپنی تصویر کی بے حرمتی دیکھ کر لازماً قائد کی روح تڑپتی ہو گی مگر ایسا ہونا بدمعاش و رذیل نو دولتیے سودخوروں کے لیے خوشی کا باعث ہو تا ہے ،چیف جسٹس آف پاکستان جو عوامی مسائل نا خالص دو دھ‘ زہریلے پانی اور جعلی و مہنگی ادویات جیسے اہم مسائل پرازخود نوٹس لے کر احکامات جاری کرتے رہتے ہیں تو قائد اعظم کی بے حرمتی کرنے والے اس عمل کو بھی بزور حکم روک دیں کہ اگر ایسی کوئی غلیظ حرکت دوبارہ ہوئی تو متعلقہ ڈی پی او ایس ڈی پی او اور ایس ایچ او و سویلین عہدوں پر تعینات اسسٹنٹ کمشنر وغیرہ ذمہ دار ٹھہریں گے جس پر انہیں ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں مگرکیا کریں “چوری ڈکیتی سینہ زوری ہو ہی نہیں سکتی جب تک اس میں تھانیدار کا حصہ نہ ہو” کی طرح ایسے لعنتی افراد پہلے تھانوں اور متعلقہ انتظامی افسروں کو” دے دلا “کر ان کا منہ بند کر ڈالتے ہیں۔

میڈیا پر زیادہ شور مچ گیا تو کسی غریب نوکر پر مقدمہ درج کروا ڈالیں گے مگر رحیم یار خان سیالکوٹ نارووال کی شادیوں پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا کہ ڈھیروں مال لگ چکا ہو گا اور ” اس بازار “کی طرح وہ خاتو ن اسی پیا کو سدھار جاتی ہے جو زیادہ مال اس کے قدموں میں ڈھیر کرے گا یہ عمل ان غریب بے کس اور مفلس نوجوان بچیوں کے دلوں میں خنجر گھونپ ڈالنے کے مترادف ہے جو چار پیسے نہ ہونے اور غریب والدین کی طرف سے جہیز مہیا نہ ہو سکنے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی بال سفید سنہری کر چکی ہیں اور جو افراد غربت مہنگائی بیروزگاری کے عفریتوں کے ڈسے ہوئے بمعہ بیوی بچوں کے دریا یا بڑی نہروںمیں چھلانگیں لگا کر یا پھر خود سوزیاں کرکے خود کشیاں کر رہے ہیں ان کے لیے بھی عبرت کا سامان ہیں ! کہ سرمایہ پرست نہوستی افراد تو پانچ ہزار کے نوٹوں کو ہوا میں اڑا رہے ہیں جب کہ ان کے بچے دو وقت کی
نان جویں کو بھی ترس رہے ہیں
؎ کیا ملیں اسی لیے ریشم کے تار بنتی ہیں
کہ مزدور کے بچے اس کی تار تار کو ترسیں

اور یہی ہیں وہ لوگ جو خون مزدور شرابوں میں ملا دیتے ہیں مگر ان کے کسی کام نہیں آسکتے ایسے سرمایہ پر ست افراد کو مقدمات چلا کر چوکوں پر نہ لٹکایا گیا تو یہ نوٹ پھینک کر قائد کی تصویر کی بے حرمتی کی “وبا” ختم نہ ہو گی اور یوں ہی قائد کی روح تڑپتی رہے گی کہ میرے بنائے گئے ملک پر ایسے جغادری نام نہاد سیاستدانوں نے قبضہ کر رکھا ہے ویسے تو مرحوم سید نے کہا تھا “سرمایہ داری ایک ناسور ہے اور اسلام اس کا نشتر ہے ” مگر کب اسلامی قوانین نافذ ہوں گے اور سرمایہ داری کا سفینہ ڈوبے گا ؟


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر