... loading ...
حکمران جماعت نے ختم نبوت ﷺکے حوالے سے جو ترامیم کرنے کی کوششیں کیں۔ اُس شر کے مقابلے میں عاشقانِ رسولﷺ نے اِس انداز میں اپنا موقف اپنایا کہ پورے ملک میں حکمران جماعت کے وزراء ، ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان عوامی غیض و غضب کا شکار ہونے لگے۔ حکمران جماعت کے رہنمائوں کا گھر سے نکلنا محال ہوگیا۔ اِن حالات میں راجہ ظفر الحق کمیٹی بنائی گی جس نے چوبیس گھنٹے کی بجائے کئی مہینوں کے بعد اپنی رپوٹ جمع کروائی وہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر۔پوری دُنیا نے دیکھ لیا کہ نبی پاک ﷺ کی ناموس اور ختم نبوت ﷺکے لیے ہر مسلمان ہر وقت جان دینے کے لیے تیار ہے۔ قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے ختم نبوت کے قانون پر اُنگلیاں اٹھانے والوں کو بھر پور جواب ملا۔ پاکستانی قوم نبی پاک ﷺ کی حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ غازی علم دین شہیدؒ اور غازی ممتاز قادری شہید ؒ غازی عامر شہیدکی سرزمین ، پاکستان تو قائم ہی نبی پاک ﷺ کے نام سے ہے۔ یوں جب ختم نبوت کے معاملے پر شور اُٹھا تو پھر معاملات کھلتے چلے گئے ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ختم نبوت کے معاملے میں بہت باریک بینی سے جائزہ لیا گیا اور ملک میں موجود مرزائی اقلیت کی جانب سے اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لیے خو د کو مسلمان ظاہر کرنا اور پھر ملازمت سے فراغت کے بعد اپنے شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے میں اسلام کی بجائے قادیانی لکھوانا۔ یوں ملک میں سول سروس ، فوج عدلیہ اور دیگر اہم شعبوں میں نوکری حاصل کرنے کے لیے خود کومسلمان ظاہر کرکے اور بعد ازں نوکری سے فارغ ہونے کے بعد قادیانی ہونے کا شناختی کارڈ بنوائے جانے کا عمل ملک کی سالمیت کے لیے بہت ہی حساس معاملہ ہے۔ آئین پاکستان تمام اقلیتوں کا اُن کے حقوق کے ضمانت دیتا ہے ۔ لیکن اقلیتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ آئین پاکستان کا مذاق نہ اُڑائیں۔ قادیانیوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کا ٹریڈ مارک استعمال نہ کریں وہ نبی پاک ﷺ کی بجائے مرزا قادیانی کو مانتے ہیں تو پھر مسلمان ہونا کیوں ظاہرکرتے ہیں۔ جو وہ ہیں وہی ظہار کریں جو آئین پاکستان اُن کو حق دیتا ہے وہ حاسل کریں جس سے روکتا ہے اُس سے رُک جائیں۔ یوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتہائی اہم اور حساس معاملے پر انتہائی غور و غوض کرنے بعد بہت ہی انقلاب آفرین فیصلہ سنادیا۔ آئیے اِس فیصلے کے مندرجات کو دیکھتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ختم نبوت سے متعلق شقوں کی تبدیلی کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے حکم جاری کیا ہے کہ شناختی کارڈ، پیدائش سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ کے حصول اور انتخابی فہرستوں میں اندراج کے لیے درخواست گزار سے آئین کی شق 260 ذیلی شق 3 (A) اور (B) میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف پر مبنی بیان حلفی لازمی قرار دیا جائے۔ تمام سرکاری و نیم سرکاری محکموں بشمول عدلیہ، مسلح افواج، اعلیٰ سول سروسز میں ملازمت کے حصول یا شمولیت کو بھی متذکرہ بالا بیان حلفی سے مشروط قرار دیا جائے۔ نادرا اپنے قواعد میں کسی بھی شہری کی طرف سے اپنے درج کوائف بالخصوص مذہب کے حوالے سے درستگی کے لیے مدت کا تعین کرے۔ مقننہ آئین کے تقاضوں، عدالت عظمی اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں (1993 SCMR 1748) اور (PLD 1992 Lah 1) میں طے شدہ قانونی بنیادوں کو روبہ عمل لاکر ضروری قانون سازی کرے اور ایسی تمام اصلاحات جو دین اسلام اور مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں انہیں کسی بھی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی پہچان چھپانے یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال سے روکنے کے لیے موجود قانون میں ضروری ترمیم اور اضافہ کرے۔ حکومت تمام شہریوں کے درست کوائف کو یقینی بنائے تا کہ کسی بھی شہری کے لیے اپنی اصل پہچان اور شناخت چھپانا ممکن نہ ہو سکے۔
نادرا میں قادیانیوں مرزائیوں کی درج تعداد اور مردم شماری کے اعداد و شمار میں نمایاں فرق کی تحقیقات کی جائیں۔ ریاست امسلم امہ کے حقوق، جذبات اور مذہبی عقائد کی حفاظت کرے اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دین اسلام اور آئین پاکستان مذہبی آزادی سمیت اقلیتوں (غیر مسلموں) کے تمام بنیادی حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ریاست پر لازم ہے کہ ان کی جان، مال، جائیداد اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے اور بطور شہری ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔ آئین کی شق 5 کے مطابق ہر شہری کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ریاست کا وفدار اور آئین و قانون کا پابند ہو، یہ فریضہ ان افراد پر بھی لازم ہے جو پاکستان کے شہری نہیں لیکن یہاں موجود ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریاست پاکستان کے ہر شہری کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی شناخت درست اور صحیح کوائف کے ساتھ کرائے۔ کسی مسلم کو اس امر کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی شناخت کو غیر مسلم میں چھپائے بعینہ کسی غیر مسلم کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود کو مسلم ظاہر کر کے اپنی پہچان اور شناخت کو چھپائے۔ ایسا کرنے والا ہر شہری ریاست سے دھوکہ دہی کا مرتکب ہوتا ہے جو کہ آئین کو پامال کرنے اور ریاست سے استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔ فیصلے کے مطابق آئین پاکستان کی شق نمبر 260 ذیلی شق 3 (A) اور (B) میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف موجود ہے جسے اجماع قوم کی حیثیت حاصل ہے۔
بدقسمتی سے اس واضح معیار کے مطابق ضروری قانون سازی نہیں کی جا سکی جس کے نتیجے میں غیر مسلم اقلیت اپنی اصل شناخت چھپا کر اور ریاست کو دھوکہ دیتے ہوئے خود کو مسلم اکثریت کا حصہ ظاہر کرتی ہے جس سے نہ صرف مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ انتہائی اہم آئینی تقاضوں سے انحراف کی راہ بھی ہموار ہو جاتی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کا یہ بیانیہ کہ سول سروس کے کسی بھی افسر کی اس حوالے سے شناخت موجود نہیں ایک المیہ ہے جو کہ آئین پاکستان کی روح اور تقاضوں کے منافی ہے۔ پاکستان میں بسنے والی بیشتر اقلیتیں اپنے ناموں اور شناخت کے حوالے سے جداگانہ پہچان رکھتی ہیں لیکن ہمارے آئین کی رو سے قرار دی گئی ایک اقلیت اپنے ناموں اور عمومی پہچان کے حوالے سے بظاہر مختلف تشخص نہیں رکھتی، اسی لیے ایک سنگین آئینی مسئلہ جنم لیتا ہے اور وہ بآسانی
اپنے ناموں کی وجہ سے اپنے عقیدہ کو مخفی رکھ کر مسلم اکثریت میں شامل ہو جاتے ہیں اور اعلیٰ اور حساس مناصب تک رسائی حاصل کر کے ریاست سے فوائد سمیٹتے رہتے ہیں۔ اسلامیات کا مضمون پڑھانے کے لیے اساتذہ کے لیے مسلمان ہونا لازمی شرط قرار دیا جائے۔ اس صورتحال کا تدارک اس لیے ضروری ہے کہ بعض آئینی عہدوں پر کسی غیر مسلم کی تقرری یا انتخاب ہمارے دستور کے خلاف ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی رکنیت سمیت اکثر محکموں کے لیے اقلیتوں کا خصوصی کوٹہ بھی مقرر ہے اس لیے جب کسی بھی اقلیت سے تعلق رکھنے والا شخص اپنا اصل مذہب اور عقیدہ چھپا کر خود کو فریب کاری کے ذریعے مسلم اکثریت کا جزو ظاہر کرتا ہے تو دراصل وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے الفاظ اور روح کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس خلاف ورزی کو روکنے کے لیے ریاست کو ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ختم نبوت کا معاملہ ہمارے دین کی اساس ہے اور اس اساس کی حفاظت اور نگہبانی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ پارلیمنٹ انتہائی معتبر ادارہ ہونے اور ملک پاکستان کے عوام کی ترجمان ہونے کی حیثیت سے اس اساس کی پاسبان ہے۔ اس ضمن میں پارلیمان سے بھرپور بیداری اور حساسیت کی توقع رکھنا مسلم اکثریت کا حق ہے۔
ختم نبوتﷺ کے بنیادی عقیدے کے تحفظ کے ساتھ پارلیمنٹ کو ایسے اقدامات پر بھی غور کرنا چاہئے جن کے ذریعے اس عقیدے پر ضرب لگانے والوں کی سازشوں کا مکمل سدباب ہو سکے۔ ’’نبی مہربان ختم المرسلین ہیں اور ان کے بعد کوئی شخص جو نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، خائین اور دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘ کو آئین کے علامیہ کے طور پر بھی پڑھا جانا چاہئے۔ پارلیمان اس معاملہ پر غور کرنے کی مجاز ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ قانونی سقم سامنے آتے اور غلطی کا احساس ہوتے ہی پارلیمنٹ نے اجتماعی دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے پر بھرپور حساسیت کا مظاہر کیا اور متذکرہ قانون کو بادی النظر میں آئینی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ ایسے معاملات اسی حساسیت اور یکجہتی کا تقاضا کرتے ہیں۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق نے ایک منجھے ہوئے قانون دان اور تجربہ کار پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے اپنی سربراہی میں قائم کمیٹی کی جانب سے انتہائی اعلیٰ رپورٹ مرتب کی جس میں معاملے کے تمام پہلووں کا انتہائی جامعیت، دیانتداری اور دانشمندی کے ساتھ احاطہ کرتے ہوئے منفی تاثرات کو زائل کیا۔ اب یہ پارلیمان پر منحصر ہے کہ وہ اس معاملہ پر مزید غور یا اجتناب کرے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاست کے لیے لازم ہے کہ سواد اعظم کے حقوق، احساسات اور مذہبی عقائد کا خیال رکھے اور ریاست کے آئین کے ذریعے قرار دئیے گئے ریاست کے مذہب اسلام کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا اہتمام کرے۔