وجود

... loading ...

وجود

عالم اسلام کا اتحاد کیوں اور کیسے ممکن ہے؟

منگل 13 مارچ 2018 عالم اسلام کا اتحاد کیوں اور کیسے ممکن ہے؟

فلسطین افغانستان شام و کشمیر میں کفریہ سامراجی غیر مسلم طاقتوں کی وجہ سے لاکھوں کلمہ گو مسلمان شہید کیے جاچکے ہیںاور شام میں تو مسلکی و فرقہ وارانہ جنگ نے اسے جلا کر خاکستر کر ڈالا ہے اب تو عالمی سامراجی و یہود ونصرانی قوتوں نے وہاں مزید جنگ تیز کرڈالی ہے عالم اسلام بدستور بیہوشی کے عالم میں ہے شام میں بے گناہ انسانی خون کے بہنے پر عالم اسلام کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے 57ممالک اسلامیہ کے زیادہ سربراہان بھی کفریہ طاقتوں اور یہودیوں کی پروردہ سامراجی قوتوں سے خوف کے مارے دبکے بیٹھے ہیں او آئی سی نامی مسلمانوں کی تنظیم تو موجود ہے مگر وہ انتہائی بے حس اور غیر موثر ہے کاش واحد ایٹمی اسلامی قوت پاکستان کا ضمیر جاگ اٹھے اور وہ آگے بڑھ کر ان پسے ہوئے طبقات کے مظلوم مسلمانوں کا پشتیبان بن جائے کہ اس کی تو افوا ج کا ماٹو ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے اور اس کی افواج عالم اسلام کی محافظ بن سکتی ہیں۔

پاکستان تمام اسلامی سربراہان کو اکٹھے کرکے ان میں اتحاد و یگانگت پید اکرسکتا ہے امام کعبہ نے بھی یہ کہا ہے کہ امت محمدیہ ﷺ فرقہ پرستی اور اختلافات کو ترک کرکے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین پر اکٹھی ہو جائے ویسے بھی کسی دوسرے مذہب میں کئی مختلف قسم کے فرقوں اور اختلافات کے باوجود ان بنیادوں پر کبھی کسی تفرقے نے سر نہیں اٹھایا اور نہ ہی وہ آپس میں کشتم کشتہ ہوئے ہیں کسی کافر کی کبھی آنکھ تک نہیں پھوٹی سر پٹھول تو کیا ہو گا ؟ہمیں اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کے دین کو پیمانہ اور ترازو بنانا ہو گا اور پوری ملت اسلامیہ کو انتہائی پاک اور غیر متنازعہ لفظ اللہ اکبر کے جھنڈے تلے جمع کرکے ایک تحریک کا رخ دینا ہو گا تاکہ پورے عالم اسلام اور سبھی فقہی مسلکی فرقہ وارانہ گروہوں کے مشترکہ لفظ اللہ اکبر پر اتحاد قائم ہو جائے قرآن و سنت کی تعلیمات پر ہی ہم مکمل عمل در آمد کرنا شروع کردیں تو ہم دنیا کی عظیم قوم بن کر کفر کی طاقتوں کو شکست فاش سے دو چار کرسکتے ہیں۔

الکفر ملتاً واحدۃ ًکی طرح تمام دشمنان دین قوتیں اکٹھی ہو کر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنا چاہتی ہیں مگر اللہ نے خود مسلمانوں اور دین اسلام کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہو ا ہے ہمیں خود اندرونی اختلافات ختم کرکے آپس میں یک جان ہو جانا چاہیے جس کے لیے دینی و دنیوی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کے لیے ہمیں اسلامی ممالک میں ایک نصاب اور اسلامی نظام تعلیم کواوڑھنا بچھونا بنانا ہو گا توہی ہم دوبارہ عالمی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں ہمارا برادر ملک سعودی عرب ٹرمپ جیسے یہود نواز اور ہندوئوں کے یار شخص کو اربوں روپوں کے تحائف دے کر سمجھتا ہے کہ وہ ان کا ہمدرد بن جائے گا تو یہ اس کی بھول ہے عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان ہی حرمین شریفین کی حفاظت کی ذمہ داری احسن طریق سے پوری کرسکتا ہے گو کہ سعودیہ انتہائی مالدار ملک ہے مگر اس کی دفاعی افواج مکمل تربیت یافتہ نہ ہیں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان نے وہاں اپنی افواج بھیجنا شروع کردی ہیں گو امریکی ودیگر کفریہ طاقتوں کی افواج کوسعودیوں نے اپنی حفاظت کے لیے بلا رکھا ہے مگر اسلامی اصولوں کا تقاضاہے کہ ایسی افواج کو واپس ان کے ملکوں میں بھجوا دیا جائے شمالی کوریا اور امریکہ عرصہ دراز سے سخت آپس کے ا ختلافات رکھتے ہوئے مذاکرات کے لیے رضا مند ہو گئے ہیں تو ہمارے اسلامی ممالک کے سبھی ایک خدا ایک رسول ایک کتاب ایک قبلہ رکھنے والے سربراہان آپس کے معمولی اختلافات کو ختم کرکے یکجان دو قالب کیوں نہیںبن جاتے ؟عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان سے جعلی قادیانی مذہب کا روپے دھار کر اسرائیل کا ویزا لگوا کر وہاں جمع ہورہے ہیںتاکہ یہودیوں و قادیانیوں کی اس “مخصوص آماجگاہ”کو مظبوط کیا جاسکے ۔

بین الاقوامی یہودی سامراج کے ایجنڈے کا یہ حصہ ہے کہ وہ دنیا بھر سے اپنے صیہونیت کے پیروکاروں کو یہاں جمع کریں اور زیادہ تعداد ہوجانے پر اپنے وجود کو تسلیم کروانے کا کلیم کر ڈالیں کہ “خوئے بد را بہانہ ہائے بسیار”کی طرح عالمی یہودی سامراج( صیہونیت )کا ایجنڈا پورا ہو سکے پاکستان پر فرض عائد ہوتا ہے کہ جلد ازجلد بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے عالم اسلام کے اتحاد کے لیے کوشاں ہو جائے سبھی اسلامی ممالک کے سربراہان سے مل کر ان سب کو ایک غیر فرقہ وارانہ ، غیر فقہی اور کسی بھی مسلک کے علمبردار نہ ہو نے والے مشترکہ پلیٹ فارم اللہ اکبر تحریک پر جمع کرے تاکہ اللہ کی کبریائی کی سچائی کی یہ تحریک منظم ہو کر سبھی ممالک میں ایک کرنسی ،ایک مشترکہ فوج ایک نظام تجارت اور مشترکہ بنکنگ کا نظام اپنالے تاکہ تمام کفریہ سامراجی قوتوں یہود و نصاریٰ کو یہ پیغام پہنچے کہ مسلمان تو سبھی متحد و متفق ہو چکے اور ان کی طرف سے اب تفرقہ ڈالنے اور مسلکی جھگڑوں کو اجا گر کرنے کی کوششیں ناکام رہیں گی۔ایران بھارت کی قربت کے ضمن میں و دیگر کئی اسلامی ممالک میں صرف سعودی حکومت سے ذاتی اختلافات کی وجہ سے بخوبی احسن طریقوں سے غور وغوض کرنا ہو گااور ایران سے بھی محبت ویگانگت کی پینگیں بڑھانا ہوں گی تاکہ57اسلامی ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی مسلک یا فرقہ واریت کی بنیادوں پر علیحدہ نہ رہ سکے اور مشترکہ اسلامی عقائد رکھتے ہوئے وہ بھی اتحاد و اتفاق کا حصہ بن جائے ایسا کیا جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ دیگر کفریہ طاقتیں اور پاکستان کے ہمسایہ ہندو بنیے اپنی مذموم خواہشات کی تکمیل نہ کرسکیں۔

پاکستان کو خود آگے بڑھ کر اپنے وفود ایران اور سعودی عرب روانہ کرنے چاہئیں تاکہ کسی برادر ملک کے دماغوں میں اغیارنے کوئی غبار جمع کر رکھا ہو تو وہ فیوز ہو جائے اور ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو سکیںوگرنہ بابا پھر یہ سب کہانیاں ہیں!رسول اکرم ختم المرسلین ﷺ کی ختم نبوت کے تحت قائم ہونے والی ایسی تحریک تمام ممالک کے مادی وسائل و حفاظتی قوتوں کو اکٹھی کرکے ہم دنیا کی عظیم ترین قوت بن سکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر