... loading ...
نواز شریف بھی جوتے کا نشانا بن گئے !!! پھر! پھر مذمت کی منافقت شروع ہوگئی۔
افسوس کوئی زمینی حقیقتوں کا سامناکرنے کو تیار نہیں۔ نوازشریف کیا سب کو ہی جوتے پڑ رہے ہیں۔
کون ذی شعور اس قسم کی حرکتوں پر خوش ہوگا۔ مگر یہ بھی کیا بات ہے کہ ہم سماج میں جاری ردِ عمل کی کسی لہر کا درست اندازا ہی نہ لگا سکیں۔ نوازشریف اور اس قبیل کے رہنماؤں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ سماج اور اس کے جذبات سے ایک بلند مخلوق ہے۔بس وہ فیصلے کرتے ہیں اور پھر رعایا آداب بجالانے اور عمل درآمد کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ یہ رہنمامختلف اوقات میں اپنے مختلف فیصلوں کے تضادات پر دھیان دینے کو تیار نہیں۔ بس اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ مگر باقی دنیا اُن کی طرح تو نہیں ۔ جامعہ نعیمیہ ایک معتدل مدرسہ ہے اور یہاں کے شیوخ وعلماء ہی نہیں طلباء بھی دہائیوں سے شریف خاندان سے جڑے ہیں۔ جامعہ نعیمیہ کے مہتمم کا دعویٰ تو یہ ہے کہ نوازشریف اُن کے مدرسے کے طالب علم رہے۔ جامعہ نعیمیہ کی تقریب کو ئی عوامی تقریب نہیں جہاںکوئی شخص باہر سے آکر جوتا چلاجائے۔ اس میں شامل ہونے والے تمام طلباء کسی نہ کسی شکل میں پہلے یا بعد میں اس سے منسلک رہے ہوتے ہیں۔ عبدالغفور اور اس کا ساتھی ساجد بھی ایسا ہی پس منظر رکھتے ہیں۔ نوازشریف پر اس تقریب میں ایک نہیں زیادہ جوتے اُچھالے گئے ہیں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ وہاں مذمتی نعرے بھی خوب لگائے گئے۔ سوال یہ پید اہوتا ہے کہ سالہا سال سے جامعہ نعیمیہ کی سالانہ اور مختلف تقاریب میں مہمان رہنے والے نوازشریف کے خلاف یہ پل بھر میں کیا ماجراہوگیا؟
جامعہ نعیمیہ سے شریف خاندان کا سالہا سال کا تعلق کچھ عرصے سے امتحان میں ہے۔کم لوگ آگاہ ہیںکہ حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کے موقع پر نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے جامعہ کی تقریب میں شرکت کی خود خواہش ظاہر کی تھی مگر جامعہ کی انتظامیہ کو چاہتے ہوئے بھی انکار کرنا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا جب مریم نواز پادریوں سے چرچ جاجا کر مل رہی تھی۔ دراصل ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد جامعہ نعیمیہ کے اندر بھی اس کا ایک شدید ردِعمل تھا اور وہاں کارگزار علماء اور اساتذہ کی متفقہ رائے تھی کہ یہ موقع نہیں کہ اس خاندان کو یہاں خوش آمدید کہا جائے۔ چنانچہ مدرسے کی انتظامیہ کو خواہش کے باوجود طوعاً وکرھاًمعذرت کرنی پڑی۔ مریم نواز ضمنی انتخاب کی مہم میں جامعہ کا دورہ نہ کرسکیں۔ اس دوران شریف خاندان یہ سمجھ ہی نہیں سکا کہ وہ جس متوسط اور زیریں متوسط طبقے کے مذہبی جذبات کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھاتے رہے ہیں،اُس کاردِ عمل کتنا شدید ہو چکا ہے۔ اور مذہبی طبقہ اُن کی سیکولر اور لبرل فکر کے ساتھ نئے سیاسی تناظر کو اپنے ساتھ ایک دھوکے سے تعبیر کررہا ہے۔ شریف خاندان اس دھوکے میں رہا کہ وہ اپنے حامی متحارب طبقات کو ایک ساتھ دھوکا دے سکتے ہیں۔سیفما اورجامعہ نعیمیہ کو ایک ساتھ ہانک سکتے ہیں۔انہوںنے اپنے اسی جھوٹے اعتماد کے ساتھ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ختم نبوت کے قانون سے بھی چھیڑ چھاڑ کی۔اس مذموم حرکت نے ملک بھر میں مذہبی طبقات کے اندر جو ہلچل مچائی اس کا شریف خاندان کو تاحال اندازا نہیں۔جامعہ نعیمیہ میںنوازشریف پر جوتا باری اسی ردِ عمل کی جھلک ہے۔ نوازشریف پر ایک سے زیادہ جوتے اُچھالے گئے ۔ اور اُن کے خلاف وہاں نعرے بازی بھی ہوئی ۔ یہ ایک خاص فضاء میں سامنے آنے والا ردِ عمل ہے جس کے کچھ پہلو انتہائی خطرناک ہیں۔ شریف خاندان کو اس کا ادراک کرلیناچاہئے کہ ممتاز قادری کی پھانسی اور ختم نبوت کے ساتھ کی گئی چھیڑ چھاڑ کوئی ایسے واقعات نہیںتھے جو وقت گزرنے کے ساتھ نسیان کی نذر ہوجائے وہ ردِ عمل ادنیٰ جذبات کا حامل نہیں ہوسکتا جو صبر بھی کرسکتا ہو۔ جامعہ نعیمیہ میں سامنے آنے والے واقعے سے ثابت ہوا کہ وقت نے زخم کو مرہم لگانے کے بجائے مزید تازہ رکھا ہے۔ پھر یہ ایک ایسا طبقہ ہے جو لامحدود صبر کے ساتھ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ’’موقع‘‘ کا منتظر رہ سکتا ہے۔
جامعہ نعیمیہ میں نوازشریف پر ہونے والی جوتا باری کا یہ محض ایک پہلو ہے۔اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ شریف خاندان تا
ریخی طور پر اپنے اعمال کا حساب دے رہا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں نوازشریف اور اُن کی صاحبزادی نے ملک میں ایک ردِ عمل کو تحریک دینے کی کوشش کی۔ گالیوں کو پروان چڑھایا ۔اور اداروںکو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی۔ عوام میں ایسے ایسے فقرے اُچھالے گئے جو جامعہ نعیمیہ کی جوتا باری سے زیادہ خطرناک نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔ نہال ہاشمی، طلال چودھری اور دانیال عزیز ایسے لوگوں کو تھپکی دی گئی جوگالیوں کو سیاسی ثقافت سمجھتے ہیں۔ نہال ہاشمی کو دوسری دفعہ توہین ِ عدالت پر طلب کیا گیا تو اُسی روز نوازشریف، دانیال عزیز کو اور مریم نواز طلال چودھری کو لے کر کیمروں کے سامنے آئے۔ ایسے تماشے ردِ عمل کی نہ ختم ہونے والی لہریں پیدا کرتے ہیں جو سماج کے تمام پشتوں اور قانون کی تمام باڑھوں کو بہا لے جاتا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا نعیم بخاری اور احمدرضا قصوری کے ساتھ ہونے والے اسی نوع کے سلوک پر اسی جماعت کے رہنما خوش ہوتے تھے اور اُسے عوامی ردِ عمل کی توجیہہ دیتے تھے۔جب آپ اپنے سیاسی اہداف کے لیے مخالفین کے خلاف ایسے جذبات پیدا کریں گے تو یہ مخالف رو میں بہہ کر اسی نوع کے اثرات خود آپ کے لیے بھی پیدا کریں گے۔اب نوازشریف اور اُن کی جماعت کے رہنما اسی ردِ عمل سے دوچار ہیں۔ احسن اقبال پر ایک بار جوتا اُچھالا جاچکا ۔ گزشتہ روز خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی۔ اور اب خود نوازشریف کو جوتا مارا گیا۔ ذرا ان واقعات کو نااہلیت کے بعد نوازشریف اور مریم نواز کی تقاریر کی روشنی میں دیکھیں۔ وہ تقاریر جس ’’انصاف‘‘ پر زور دیتی ہیں اور جس عوام کی عدالت پر اِ صرار کرتی ہیں اُس کا ’’انصاف‘‘ اور اُس کے ’’عوام‘‘ اسی طرح کے ہوتے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ دوسروں کو اس ماحول سے خوف زدہ رکھ کر خود بادشاہوں کی طرح رہنے کے دن اب گئے۔ سیاست دانوں نے سیاسیات سے جس اخلاقیات کا جنازہ مل کر نکالا تھا، اب اُس مدفون اخلاقیات کی دہائی نہ دیں۔ نوازشریف پر پھینکے گئے جوتے پر تمام کے تمام سیاست دانوں نے مذمت کی ۔ اس کاسبب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ کل یہ سب بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں اور اسفندیار ولی نے تو صاف لفظوں میں یہ بات کہہ بھی دی۔ انہیں اخلاقیات کی کوئی پروا نہیں، بلکہ جوتے کھانے کا ڈر ہے اس لیے ذکر اخلاقیات کا کرتے ہیں۔ ذرا اِن سیاست دانوں کو اپنی ہی تقاریر دو چار مرتبہ سنائیے ایک وقت آئے گا کہ یہ اپنی ہی تقاریر سن کر خود پر ہی جوتے اُٹھالیں گے۔ رہنما اب بھی جوتا باری کے حقیقی نفسیاتی ، سیاسی اور معاشرتی اسباب پر غور کرنے کو تیار نہیں بس اجتماعی طور پر مذمت کیے جارہے ہیں۔ یہ مذمت کی منافقت سیاسی ثقافت میں جوتا باری کو مزید پروان چڑھائے گی۔ سیاست دان اس حرکت پر غور کرنے کے بجائے اپنی اُن حرکتوں پر غور فرمائیں جس سے اس طرح کے ردِ عمل جنم لے رہے ہیں۔پنجابی محاورہ پوری وضاحت کرتا ہے:
ککڑ کیھہ اُدائی تے اپنے سِر وچ پائی
( مرغی نے مٹی اڑائی تو واپس اپنے سر پہ ہی گرائی)