وجود

... loading ...

وجود

خیبر پختونخواہ میں ہارس ٹریڈنگ

بدھ 07 مارچ 2018 خیبر پختونخواہ میں ہارس ٹریڈنگ

سینیٹ ‘قومی اسمبلی اور مختلف ضمنی انتخابات میں پارٹی رہنماؤں کے طرز عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں کپتان جیسا بے ریا دوسرا کوئی نہیں ہے لیکن شاید انہوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ کھیل اور سیاست دو علیحدہ علیحدہ شُعبے ہیں ۔ کرکٹ میں اپنے کزن ماجد خان کی خراب کارکردگی پر ایکشن لینے والے کپتان نے ضمنی انتخابات میں پے درپے شکستوں کے بعد بھی ’’ چھوٹے چھوٹے کپتان ‘‘ تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔

مختلف زونز اور صوبائی قیادتیں عمران خان سے اپنے جن فیصلوں کی توثیق کرواتی چلی آ رہی ہیں ان کے نتائج آج تک کارگر ثابت نہیں ہوئے۔ پنجاب میں 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد سے ہونے والے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹوں کا فیصلہ کرنے والے کبھی کپتان کے سامنے سُرخرو نہیں ٹھہر پائے۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میںہارس ٹریڈنگ کا واویلا شروع دن سے ہی تھا۔ایسا ہر مرتبہ ہوتا ہے۔قیادت کا اصل امتحان یہ ہوتا ہے کہ اپنے ارکان اور پارٹی کو کنٹرول میں رکھیں ۔ ایسا کرنے والے کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اور اپنے ارکان کو کنٹرول نہ کر سکنے والے اپنی ’’ قائدانہ غلطیوں ‘‘ کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے اور جواز تلاش کرتے نظر آتے ہیں ۔

سینیٹ کے انتخابات میں خیبر پختونخواہ کے معاملات میں تمام تر اختیارات پرویز خٹک کے پاس تھے۔ یہاں پارٹی کی صوبائی تنظیم نہیں ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ صوبے میں پارٹی کی صوبائی باڈی کو پرویز خٹک اپنے لیے سود مند نہیں سمجھتے وہ ایک با اختیار وزیر اعلیٰ اور پارٹی لیڈر رہنا چاہتے ہیں ایوانِ بالا کے موجودہ انتخابی نتائج سے پرویز خٹک کو ایک بڑا جھٹکا لگا ہے ۔ 2015 ء کے سینیٹ انتخابات میں خیبر پختونخواہ سے پاکستان تحریک انصاف نے سینیٹ کی سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی چھ سیٹوں پر پی ٹی آئی کے سینیٹر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ایک نشست ان کی اتحادی جماعت اسلامی نے حاصل کی تھی ۔ اُس وقت ایک خاص بات یہ تھی کہ عوامی نیشنل پارٹی کی ستارہ ایاز بھی سینیٹر منتخب ہوگئیںتھیں حالانکہ ’’کے پی کے‘‘ اسمبلی میں اے این پی کے ممبران کی تعداد صرف چار ہے ۔

اس مرتبہ پی ٹی آئی کے اٹھارہ ارکان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہیں ،عمران خان نے اس بارے میں تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کا کہا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے نتائج کے فوری بعد پرویز خٹک کی قیادت میںسرکردہ ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی ایک کمرے میں بند ہو گئے تھے۔ ارکان کو دیئے گئے کوڈز اور ترجیحات کا جائزہ لے کرہارس ٹریڈنگ میں ملوث ارکان کا سرُاغ لگانے کی کوشش کی گئی ۔ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے راستہ مل گیا تھا۔ ان اٹھارہ ارکان میں کئی خواتین ارکان ایسی تھیں جن کی سر پرستی موجو د تھی اس لیے ذمہ داروں کے ناموں کو پردے میں رکھا گیا ۔ ایک روز بعد ہی مسلم لیگ ن کے ایم پی اے جمشید خان مہمند کے لیٹرپیڈ پر مختلف جماعتوں کے ارکان خیبر پختونخواہ اسمبلی کے نام لکھے ہوئے منظر عام پر آ گئے ۔ جمشید خان مہمند سابق ایم پی اے عمران خان مہمند کے بھائی ہیں ۔ مردان سے عمران خان مہمند نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ ان کے قتل کے بعد ان کے بھائی جمشید خان مہمند ایم پی اے بنے پہلے وہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ تھے بعد میں انہوں نے امیر مقام کی وساطت سے پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس لیٹر پیڈ پر مختلف جماعتوں کے ارکان کے ناموں کے ساتھ ووٹوں کا حساب کرکے ٹوٹل 43 درج کیا گیا تھا اور ایک جگہ ووٹوں کا میزان ) = 42 29+10+3 ( لکھا ہوا تھا دلچسپ امر یہ ہے کہ جمشید خان مہمند کے علاقے مردان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے نو منتخب سینیٹر دلاور خان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد بھی 42 ہے ۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے کل ممبران کی تعداد 17 ہے ۔ان ہی کی جماعت سے تعلق رکھنے والے کامیاب سینیٹر پیر صابر شاہ کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد صرف پندرہ تھی۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کی اُمیدوار روبینہ خالد نے 35 ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ اسمبلی میں ان کی جماعت کے ممبران کی کل تعداد صرف سات ہے ۔ جمشید خان مہمند کے لیٹر پیڈ پر لکھی کہانی کی صداقت کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ بعض ذرائع کے مطابق عمران خان کو بجھوائی جانے والی ایک رپورٹ میں مبینہ طور پراٹھارہ ہ ایم پی ایز کی غدار ی کا ذکر کیا گیا ہے لیکن رپورٹ میں صرف سولہ نام شامل کیے گئے ہیں بقیہ دوخواتین کے ناموں کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے مختلف کہانیاں بیان کی جاری ہیں اور مبینہ طور پرا سپیکر اسد قیصر اور صوبائی وزیر شاہ فرمان کے اثر و رسوخ کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ان انتخابات سے قبل کا ایک واقعہ تحقیقات کرنے والوں نے بالکل بھُلا دیا ہے ۔ جس میں ایم پی اے زرین ضیاء کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی رُکن صوبائی اسمبلی زرین ضیاء کی گاڑی مسلح نقاب پوشوں نے پشاور ٹول پلازہ کے قریب روک کر خاتون ایم پی اے کو زبردستی باہر نکالا اور گاڑی کی تلاشی لیتے رہے ۔ مسلح نقاب پوش گاڑی سے ملنے والی بھاری رقم اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ ‘‘ خبر میں مزید بتایا گیا تھا کہ موقع کے قریب کھڑے پولیس اہلکار بھی تماشہ دیکھتے رہے تھے۔ چمکنی پولیس ا سٹیشن کی حدود میں پیش آنے والے اس واقعے کی ایف آئی آر درج نہ کرنے کی شکایت بھی خاتون ایم پی اے کی جانب سے سامنے آئی تھی۔

سینیٹ انتخابات کے دوران کے پی کے میں ہارس ٹریڈنگ کے لیے مجموعی طور پر ایک بلین بیس کروڑ روپے میں سے ساٹھ کروڑ روپے کی رقم پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے ۔ جس کی تفصیل میں کہا گیا ہے کہ 27 فروری کو اسلام آباد میں گیارہ کروڑ چالیس لاکھ رروپے کی رقم تین کروڑ 80 لاکھ روپے فی کس کے حساب سے تین افراد کو فراہم کی گئی ۔ 28 فروری کو پشاور میں چھ افراد کو 4 کروڑ فی کس کے حساب سے 24 کروڑ روپئے کی ادائیگی کی گئی ۔ یکم مارچ کو پشاور میں ہی 3 کروڑ روپے فی کس کے حساب سے 9 کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی ۔ ایک خاتون ایم پی اے کو 3 کروڑ روپے کی آفر کی گئی لیکن اُس کی ڈیمانڈ پانچ کروڑ روپے تھی اُس نے پیش کش مسترد کرکے میڈیا کو آگاہ بھی کیا تھا۔ بعض مبینہ رپورٹوں میں 30 لوگوںکو ادائیگیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جس میں پی ٹی آئی سمیت مختلف جماعتوں کے ارکان شامل بتائے جا رہے ہیں ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جن لوگوں نے خرید و فروخت کی ہے انہی کی جانب سے اب معاملات افشاء کیے جا رہے ہیں۔

سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات اب افواہوں سے حقیقت کا روپ دھارنے کے مراحل کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان سارے معاملات پر اگر کپتان نے ’’ازخود نوٹس ‘‘ نہ لیا تو معاملات خراب ہو سکتے ہیں جس کا اثر آئندہ عام انتخابات پر پڑ سکتا ہے۔ غدااروں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی قیادت کی غلطیوں کا احتساب بھی ضروری ہے۔ یہ عمران خان کے بیس سالہ ان تھک جدوجہد کو ثمر بار کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر