... loading ...
سینیٹ ‘قومی اسمبلی اور مختلف ضمنی انتخابات میں پارٹی رہنماؤں کے طرز عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں کپتان جیسا بے ریا دوسرا کوئی نہیں ہے لیکن شاید انہوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ کھیل اور سیاست دو علیحدہ علیحدہ شُعبے ہیں ۔ کرکٹ میں اپنے کزن ماجد خان کی خراب کارکردگی پر ایکشن لینے والے کپتان نے ضمنی انتخابات میں پے درپے شکستوں کے بعد بھی ’’ چھوٹے چھوٹے کپتان ‘‘ تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔
مختلف زونز اور صوبائی قیادتیں عمران خان سے اپنے جن فیصلوں کی توثیق کرواتی چلی آ رہی ہیں ان کے نتائج آج تک کارگر ثابت نہیں ہوئے۔ پنجاب میں 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد سے ہونے والے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹوں کا فیصلہ کرنے والے کبھی کپتان کے سامنے سُرخرو نہیں ٹھہر پائے۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میںہارس ٹریڈنگ کا واویلا شروع دن سے ہی تھا۔ایسا ہر مرتبہ ہوتا ہے۔قیادت کا اصل امتحان یہ ہوتا ہے کہ اپنے ارکان اور پارٹی کو کنٹرول میں رکھیں ۔ ایسا کرنے والے کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اور اپنے ارکان کو کنٹرول نہ کر سکنے والے اپنی ’’ قائدانہ غلطیوں ‘‘ کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے اور جواز تلاش کرتے نظر آتے ہیں ۔
سینیٹ کے انتخابات میں خیبر پختونخواہ کے معاملات میں تمام تر اختیارات پرویز خٹک کے پاس تھے۔ یہاں پارٹی کی صوبائی تنظیم نہیں ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ صوبے میں پارٹی کی صوبائی باڈی کو پرویز خٹک اپنے لیے سود مند نہیں سمجھتے وہ ایک با اختیار وزیر اعلیٰ اور پارٹی لیڈر رہنا چاہتے ہیں ایوانِ بالا کے موجودہ انتخابی نتائج سے پرویز خٹک کو ایک بڑا جھٹکا لگا ہے ۔ 2015 ء کے سینیٹ انتخابات میں خیبر پختونخواہ سے پاکستان تحریک انصاف نے سینیٹ کی سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی چھ سیٹوں پر پی ٹی آئی کے سینیٹر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ایک نشست ان کی اتحادی جماعت اسلامی نے حاصل کی تھی ۔ اُس وقت ایک خاص بات یہ تھی کہ عوامی نیشنل پارٹی کی ستارہ ایاز بھی سینیٹر منتخب ہوگئیںتھیں حالانکہ ’’کے پی کے‘‘ اسمبلی میں اے این پی کے ممبران کی تعداد صرف چار ہے ۔
اس مرتبہ پی ٹی آئی کے اٹھارہ ارکان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہیں ،عمران خان نے اس بارے میں تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کا کہا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے نتائج کے فوری بعد پرویز خٹک کی قیادت میںسرکردہ ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی ایک کمرے میں بند ہو گئے تھے۔ ارکان کو دیئے گئے کوڈز اور ترجیحات کا جائزہ لے کرہارس ٹریڈنگ میں ملوث ارکان کا سرُاغ لگانے کی کوشش کی گئی ۔ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے راستہ مل گیا تھا۔ ان اٹھارہ ارکان میں کئی خواتین ارکان ایسی تھیں جن کی سر پرستی موجو د تھی اس لیے ذمہ داروں کے ناموں کو پردے میں رکھا گیا ۔ ایک روز بعد ہی مسلم لیگ ن کے ایم پی اے جمشید خان مہمند کے لیٹرپیڈ پر مختلف جماعتوں کے ارکان خیبر پختونخواہ اسمبلی کے نام لکھے ہوئے منظر عام پر آ گئے ۔ جمشید خان مہمند سابق ایم پی اے عمران خان مہمند کے بھائی ہیں ۔ مردان سے عمران خان مہمند نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ ان کے قتل کے بعد ان کے بھائی جمشید خان مہمند ایم پی اے بنے پہلے وہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ تھے بعد میں انہوں نے امیر مقام کی وساطت سے پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس لیٹر پیڈ پر مختلف جماعتوں کے ارکان کے ناموں کے ساتھ ووٹوں کا حساب کرکے ٹوٹل 43 درج کیا گیا تھا اور ایک جگہ ووٹوں کا میزان ) = 42 29+10+3 ( لکھا ہوا تھا دلچسپ امر یہ ہے کہ جمشید خان مہمند کے علاقے مردان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے نو منتخب سینیٹر دلاور خان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد بھی 42 ہے ۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے کل ممبران کی تعداد 17 ہے ۔ان ہی کی جماعت سے تعلق رکھنے والے کامیاب سینیٹر پیر صابر شاہ کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد صرف پندرہ تھی۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کی اُمیدوار روبینہ خالد نے 35 ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ اسمبلی میں ان کی جماعت کے ممبران کی کل تعداد صرف سات ہے ۔ جمشید خان مہمند کے لیٹر پیڈ پر لکھی کہانی کی صداقت کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ بعض ذرائع کے مطابق عمران خان کو بجھوائی جانے والی ایک رپورٹ میں مبینہ طور پراٹھارہ ہ ایم پی ایز کی غدار ی کا ذکر کیا گیا ہے لیکن رپورٹ میں صرف سولہ نام شامل کیے گئے ہیں بقیہ دوخواتین کے ناموں کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے مختلف کہانیاں بیان کی جاری ہیں اور مبینہ طور پرا سپیکر اسد قیصر اور صوبائی وزیر شاہ فرمان کے اثر و رسوخ کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ان انتخابات سے قبل کا ایک واقعہ تحقیقات کرنے والوں نے بالکل بھُلا دیا ہے ۔ جس میں ایم پی اے زرین ضیاء کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی رُکن صوبائی اسمبلی زرین ضیاء کی گاڑی مسلح نقاب پوشوں نے پشاور ٹول پلازہ کے قریب روک کر خاتون ایم پی اے کو زبردستی باہر نکالا اور گاڑی کی تلاشی لیتے رہے ۔ مسلح نقاب پوش گاڑی سے ملنے والی بھاری رقم اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ ‘‘ خبر میں مزید بتایا گیا تھا کہ موقع کے قریب کھڑے پولیس اہلکار بھی تماشہ دیکھتے رہے تھے۔ چمکنی پولیس ا سٹیشن کی حدود میں پیش آنے والے اس واقعے کی ایف آئی آر درج نہ کرنے کی شکایت بھی خاتون ایم پی اے کی جانب سے سامنے آئی تھی۔
سینیٹ انتخابات کے دوران کے پی کے میں ہارس ٹریڈنگ کے لیے مجموعی طور پر ایک بلین بیس کروڑ روپے میں سے ساٹھ کروڑ روپے کی رقم پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے ۔ جس کی تفصیل میں کہا گیا ہے کہ 27 فروری کو اسلام آباد میں گیارہ کروڑ چالیس لاکھ رروپے کی رقم تین کروڑ 80 لاکھ روپے فی کس کے حساب سے تین افراد کو فراہم کی گئی ۔ 28 فروری کو پشاور میں چھ افراد کو 4 کروڑ فی کس کے حساب سے 24 کروڑ روپئے کی ادائیگی کی گئی ۔ یکم مارچ کو پشاور میں ہی 3 کروڑ روپے فی کس کے حساب سے 9 کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی ۔ ایک خاتون ایم پی اے کو 3 کروڑ روپے کی آفر کی گئی لیکن اُس کی ڈیمانڈ پانچ کروڑ روپے تھی اُس نے پیش کش مسترد کرکے میڈیا کو آگاہ بھی کیا تھا۔ بعض مبینہ رپورٹوں میں 30 لوگوںکو ادائیگیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جس میں پی ٹی آئی سمیت مختلف جماعتوں کے ارکان شامل بتائے جا رہے ہیں ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جن لوگوں نے خرید و فروخت کی ہے انہی کی جانب سے اب معاملات افشاء کیے جا رہے ہیں۔
سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات اب افواہوں سے حقیقت کا روپ دھارنے کے مراحل کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان سارے معاملات پر اگر کپتان نے ’’ازخود نوٹس ‘‘ نہ لیا تو معاملات خراب ہو سکتے ہیں جس کا اثر آئندہ عام انتخابات پر پڑ سکتا ہے۔ غدااروں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی قیادت کی غلطیوں کا احتساب بھی ضروری ہے۔ یہ عمران خان کے بیس سالہ ان تھک جدوجہد کو ثمر بار کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔