... loading ...
سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخابات کے نتائج آنے پر مسلم لیگ (ن) کے حامی امیدواروں کی سینیٹ میں تعداد 32 ہوگئی اور قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ گزشتہ روز سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب سے 11‘ اسلام آباد سے 2‘ خیبر پی کے سے 2 نشستیں حاصل کر لیں جبکہ سینیٹ میں ان کے 17 ارکان پہلے سے موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی سینیٹ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے جن کے سینیٹ میں پہلے سے موجود ارکان کی تعداد 8 تھی جبکہ اس الیکشن میں پیپلزپارٹی نے سندھ سے 10 اور خیبر پی کے سے 2 نشستیں جیتی ہیں جس سے ان کے کل ممبران کی تعداد 20 ہوگئی۔ سینیٹ میں آزاد سینیٹرز کی نشستیں تیسرے نمبر پر ہیں۔ پہلے سے 5 آزاد سینیٹر موجود تھے اور بلوچستان سے 6مزید آزاد امیدواروں کی جیت سمیت فاٹا سے 4 آزاد امیدواروں کی جیت سے آزاد سینیٹروں کی تعداد 15 ہوگئی۔ پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹ میں پہلے 6 نشستیں تھیں جبکہ پنجاب سے 1 نشست اور خیبر پی کے سے 5 نشستیں جیتنے کے بعد ان کے سینیٹ میں کل ارکان کی تعداد 12 ہوئی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی پہلے سینیٹ ارکان کی تعداد 4 ہے جبکہ وہ اس الیکشن میں محض 1 نشست حاصل کرکے 5 ارکان کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ سینیٹ میں چھٹے نمبر پر مسلم لیگ(ن) کی حلیف جماعت نیشنل پارٹی کے پہلے سے 4ارکان تھے۔ انہوں نے بلوچستان سے 2 نشستیں مزید جیت کر اپنے کل ارکان کی تعداد 6 تک پہنچا دی ہے۔ جبکہ ساتویں نمبر پر پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹ میں اس وقت 3ارکان ہیں۔ جمعیت علماء اسلام(ف) کے پہلے سے سینیٹ میں 2 ارکان ہیں جبکہ بلوچستان اور خیبر پی کے سے انہوں نے ایک ایک نشست مزید جیت کر اپنے کل ارکان کی تعداد 4تک پہنچا دی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کا سینیٹ میں پہلے ایک رکن ہے ایک اور امیدوار کی کامیابی سے جماعت اسلامی کے سینیٹروں کی تعداد 2 ہوگئی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی دیہی سندھ سے مسلم لیگ فنکشنل کا ایک امیدوار جیتنے سے ان تینوں جماعتوں کا سینیٹ میں ایک ایک رکن ہوگا۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کی کنگزپارٹی مسلم لیگ(ق) کا سینیٹ میں اب کوئی رکن باقی نہیں رہا۔
کچھ لوگوں کی طرف سے سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے سوالیہ نشان لگا دیا گیا تھا۔ دو سال سے یہ افواہیں مسلسل پھیلائی جاتی رہیں کہ سینیٹ کے انتخابات بروقت نہیں ہونگے۔ افواہ ساز فیکٹریوں سے اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری نہ کرنے کی تاویلیں بھی سامنے آتی رہیں۔ کہا جاتا رہا کہ سینیٹ کے انتخابات سے قبل اسمبلیاں ختم ہو جائیگی‘ اب بھی اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری نہ ہونے کا واویلا دیکھنے اور سننے میں آرہا ہے۔ سینیٹ کے بروقت انتخابات کے انعقاد سے ایک جمہوری سنگ میل عبور ہوا ہے۔ عام انتخابات کی راہ میں نہ پہلے کوئی رکاوٹ تھی نہ آئندہ ہونے کا کوئی خدشہ ہے۔ سینیٹ الیکشن کے کم و بیش وہی نتائج سامنے آئے ہیں جن کی توقع کی جارہی تھی۔
سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ توجہ پنجاب پر تھی‘ جہاں ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے تھے‘ دوسرے مسلم لیگ (ن) کے اندر انتشار کی افواہیں بھی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) نے 12 میں سے 11 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے جہاں پارٹی اتحاد اور مضبوطی کا اظہار کیا‘ وہیں 38 ارکان کی طرف سے ڈسپلن کی خلاف ورزی بھی سامنے آئی تاہم پارٹی کو بڑا ڈینٹ نہیں پڑا۔ چودھری سرور کی کامیابی پنجاب میں ایک طرح کا اپ سیٹ ضرور ہے مگر خیبر پی کے میں تحریک انصاف کو اس سے بڑے اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑا جہاں پی ٹی آئی دو سیٹوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ عمران خان اسی پر برہم دکھائی دیتے ہیں۔
سینیٹ میں برتری حاصل کرنے پر مریم نواز اور حمزہ شہباز نے کہا کہ روک سکو تو روک لو‘ جمہوریت کی فتح ہوئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کا کہنا ہے کہ طوطا فال والوں کو مایوسی ہوئی‘ واضح ہوگیا کہ مسلم لیگ سب سے بڑی جماعت ہے‘ عام انتخابات بھی جیتیں گے۔ اب تک ہونیوالے بیشتر ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو کامیابی حاصل ہوئی‘ سینیٹ الیکشن کو آئندہ کے انتخابات کے لیے بیرومیٹر قرار دیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پارٹی صدارت کے لیے ایک دانشمندانہ فیصلہ سامنے آیا۔ لیگی قیادت نے کئی ماہ نفع و نقصان کا حساب لگانے کے بعد شہبازشریف کو پارٹی صدر بنانے کا فیصلہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی مضبوطی اور اتحاد کے لیے بھی مناسب فیصلہ ہے۔ قیادت اسکے علاوہ جو بھی فیصلہ کرتی‘ وہ مہم جوئی ثابت ہو سکتی تھی۔ ایک بڑی پارٹی کو سنبھالنے کے لیے شہبازشریف جیسے منتظم کی ہی ضرورت تھی ورنہ تو متحدہ قومی موومنٹ کی حالت سب کے سامنے ہے۔ وہ بمشکل ایک سینیٹر کو منتخب کراسکی ہے۔ جب تک متحدہ قائد کے آہنی اور بے رحم پنجوں میں تھی‘ کسی کو ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہمت نہیں تھی۔ قائد کا کردار ختم ہوا تو سامنے آنیوالی قیادت اپنی اہلیت ثابت نہ کرسکی۔ کمزور لیڈرشپ سے کوئی بھی پارٹی بکھر سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو عدالتی فیصلوںکے باعث نامساعد حالات کا سامنا ہے مگر پارٹی چونکہ مضبوط ہاتھوں میں ہے‘ اس لیے پہلے سے بھی مضبوط نظر آرہی ہے۔ یکم مئی کو نہال ہاشمی کی خالی ہونیوالی نشست پر سینیٹ الیکشن ہوا جس میں پارٹی ارکان کی کمٹمنٹ سامنے آئی جو بہتر لیڈر شپ کی ایک مثال ہے۔
سینیٹ الیکشن پرامن ماحول میں ہوئے‘ اس کا کریڈٹ الیکشن کمیشن کو جاتا ہے۔ ارکان الیکشن کمیشن پولنگ کی نگرانی کرتے رہے۔ طاہرالقادری اس پر بھی اشتعال میں نظر آئے‘ کہتے ہیں الیکشن کمیشن نے واضح کردیا کہ اس سے شفاف انتخابات کی توقع نہ رکھی جائے۔ طاہرالقادری پورے پاکستانی بن کر اپنے امیدوار انتخابات میں اتاریں الیکشن جیت کر الیکشن کمیشن کی بھی اصلاح کریں۔
سینیٹ انتخابات سے قبل اگر کوئی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں تو وہ الیکشن کمیشن کے علم میں لائی جا سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اوپر عدالتیں بھی موجود ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن بجا طور پر مستعد رہا مگر ہارس ٹریڈنگ جس سطح پر ہوئی وہ اسکی مجموعی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ بادی النظر میں بلوچستان میں ہارس ٹریڈنگ کی انتہاء ہوگئی جہاں مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ سے باہر کردیا گیا۔ آصف زرداری نے بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کو اپنی کامیابی قرار دیا اور مزید کامیابی کی نوید سنائی تھی۔ خیبر پی کے میں پیپلزپارٹی دو سیٹیں لے گئی۔ سندھ میں متحدہ کو کارنر کردیا گیا۔ پنجاب میں پی پی پی کے امیدوار کو 26 ووٹ مل گئے۔ اگر یہی جمہوریت ہے تو پھر قوم و ملک اور جمہوریت کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ہارس ٹریڈنگ پر عمومی شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ا سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے۔ عمران خان تو باقاعدہ اشتعال میں ہیںانھو ں اپنے دورہ کراچی کے دوران واضح الفاظ میں کہہ دیاہے کہ ہمارے اراکین اسمبلی بھی سینیٹ الیکشن کے دوران بکے اس کی تحقیقات کی جائے گی۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب اوران کے دیرینہ ساتھی شیخ رشید اسمبلی اپنا ووٹ تک کاسٹ کرنے نہیں گئے ۔ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹرفاروق ستارنے بھی سینیٹ الیکشن میں بدترین ہارس ٹریڈنگ کاالزام لگایاانھوں نے پریس کانفرنس کے دووران دعوی کیاکہ ان کے 14سے زیادہ اراکین اسمبلی فروخت ہوگئے ۔کم وپیش اسی قسم کے الزامات پنجاب میں بھی ن لیگ کی جانب سے سامنے آرہے ہیں ۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے چیف جسٹس سے سینیٹ الیکشن میں بدترین ہارس ٹریڈنگ کاسوموٹولینے کامطالبہ کیاجارہاہے ۔اس حوالے سے عوام وخواص کوضرور سوچنا ہو گا کہ آیاخصوصاعوام کوضروراپنے منتخب کردہ اراکین اسمبلی سے یہ سوال کرناچاہیے کہ آیاانھوںنے اپنے ضمیرکاسوداکیوں کیا۔
عام انتخابات اب زیادہ دور نہیں‘ اس میں جو نتائج آئینگے سو آئینگے‘ جیتنے والی پارٹی یا پارٹیاں حکومت بنائیں گی مگر اب سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو کامیابی حاصل ہوچکی ہے۔ اگلے مرحلے میں چیئرمین سینیٹ کے الیکشن ہونے ہیں‘ مسلم لیگ (ن) اتحادی جماعتوں سے مل کر آسانی سے اپنا چیئرمین منتخب کراسکتی ہے۔ مگر پاکستان پیپلزپارٹی اپنا چیئرمین بنوانے کے لیے سرگرم ہوگئی ہے۔ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ چیئرمین انکی پارٹی کا ہوگا۔ اسکے ساتھ ہی پی پی پی کا وفد جوڑ توڑ کے لیے کوئٹہ پہنچ گیا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ چیئرمین کے الیکشن میں بھی ہو سکتی ہے۔ پی پی بلوچستان میں جیتنے والے سینیٹرز کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریگی۔ سینیٹ میں آزاد امیدواروں کی تعداد 15 ہے جبکہ پنجاب سے کامیاب ہونیوالے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار بھی بوجوہ آزاد حیثیت میں ایوان میں جائینگے۔ یوں ہارس ٹریڈنگ کا ایک کھلا میدان موجود ہے۔ سینیٹ الیکشن میں کروڑوں روپے کی ادائیگیوں کی باتیں ہورہی ہیں۔ شفاف جمہوری عمل میں ہارس ٹریڈنگ کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن ہارس ٹریڈنگ کی خبروں کا سختی سے نوٹس لے۔ متحدہ کے سربراہ فاروق ستار نے برملا کہا ہے کہ انکے 14 ارکان نے پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ دیئے‘ دیگر پارٹیاں بھی ارکان کی خریدوفروخت کے ثبوت متعلقہ اداروں کے سامنے رکھیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر سیکرٹ کے بجائے اوپن ووٹنگ ہوتی تو کیا پھر بھی اسی طرح ہارس ٹریڈنگ ہوتی؟ سیاسی پارٹیاں اوپن ووٹنگ پر غور کریں۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں بھی ہارس ٹریڈنگ سے بچنے کے لیے سیکرٹ کے بجائے اوپن بیلٹ کا طریقہ کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ میں برتری حاصل ہے‘ پیپلزپارٹی اور دیگر پارٹیاں اس حقیقت کو تسلیم کریں۔ اسکے چیئرمین کے انتخاب کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں۔ جمہوریت میں ارکان اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے میں آزاد ہیں۔ ضمیر خریدنا کوئی جمہوریت نہیں ہے۔ انجینئرڈ طریقے سے کسی کی بھی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش جمہوریت کی خدمت نہیں ہے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی قیادت میں قافلے پنجاب کی حدود میں داخل ہوگئے جس کے بعد تحریک انصاف نے حکمت عملی تبدیل کرلی ہے ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میںپنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے قافلے...
تحریک انصاف ک فیصلہ کن کال کے اعلان پر خیبر پختون خواہ ،بلوچستان اورسندھ کی طرح پنجاب میں بھی کافی ہلچل دکھائی دی۔ بلوچستان اور سندھ سے احتجاج میں شامل ہونے والے قافلوںکی خبروں میں پولیس نے لاہور میں عمرہ کرکے واپس آنے والی خواتین پر دھاوا بول دیا۔ لاہور کی نمائندگی حماد اظہر ، ...
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت جتنے بھی راستے بند کرے ہم کھولیں گے۔وزیراعلیٰ نے پشاور ٹول پلازہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی رہائی کی تحریک کا آغاز ہو گیا ہے ، عوام کا سمندر دیکھ لیں۔علی امین نے کہا کہ ...
پاکستان تحریک انصاف کے ہونے والے احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس، رینجرز اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جبکہ پنجاب اور کے پی سے جڑواں شہروں کو آنے والے راستے بند کر دیے گئے ہیں اور مختلف شہروں میں خندقیں کھود کر شہر سے باہر نکلنے کے راستے بند...
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا گیا ہے ۔ پی ٹی آئی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ ہمیں 26ویں آئینی ترمیم منظور نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہو چکی، ہم ملک میں امن چاہتے ہیں۔ اسد قیصر نے کہا کہ افغانستان ک...
رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...
لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...
پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...