وجود

... loading ...

وجود

کراچی اور عمران خان

منگل 06 مارچ 2018 کراچی  اور عمران خان

سینیٹ کے انتخابی نتائج کی بازگشت کے دوران عمران خان کراچی جا پہنچے شہر قائد کے مختلف علاقوں میں انہوں نے اپنی جماعت کی رکنیت سازی مہم کا جائزہ لیا اور اس موقع پر کراچی سے الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کردیا۔کراچی کے بلدیاتی نظام کی بدحالی اور بے اختیاری کی بات کی تو میئر کراچی وسیم اختر کا ذکر بھی کئی بار کیا ۔یہ سب کچھ جب میری سماعتوں سے ٹکرارہا تھا تو تاریخ کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میرے شعور کے پردوں پر 2007 ء کے سیاسی منظر نامے کی تصویر اُبھر رہی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے طمطراق کے سائے تلے ایم کیو ایم کے حوصلے بہت بڑھے ہوئے تھے۔بارہ ستمبر کی تاریخ تھی ۔ عمران خان کراچی ایئر پورٹ پر بیٹھے ہوئے تھے ان سے فون کے ذریعے رابطہ ہوا تو وہ اُس وقت کے مشیر داخلہ سندھ وسیم اختر کی جانب سے اپنی سندھ بدری کے احکامات پر سیخ پا تھے۔ کہ رہے تھے کہ ’’ یہ لوگ کب تک کراچی کو یرغمال بنائے رکھیں گے ۔ ایک روز ان کا یوم حساب ضرور آئے گا ۔‘‘

انہوں نے کراچی میں ریلی نکالنے کا پروگرام بنایا تو گیارہ ستمبر کو عمران خان کے سندھ کے داخلے پر پابندی عائد کرتے ہوئے مُشیر داخلہ سندھ وسیم اختر نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’’ عمران خان کے کراچی میں داخلے پر پابندی اُن کی ریلی کی وجہ سے عائد کی گئی ہے کیونکہ ریلی کہ وجہ سے ٹریفک جام ہوتی ہے ۔ ‘‘بات بات پر کراچی کو جام کرنے والوں کی منطق نرالی تھی۔ وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ عمران خان نے لندن میں الطاف حُسین کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔

عمران خان اپنے اعلان کے مطابق کراچی پہنچے توایئر پورٹ پر ان کو پابندی کے احکامات دکھا کر شاہین ایئر لائنز کی پرواز کے ذریعے صوبہ بدر کرکے اسلام آباد بھیج دیا گیا اوران کے استقبال کے لیے آنے والوں کو گرفتار کرلیاگیا تھا۔

سُقراط کا کہنا ہے کہ طاقت لوگوں کو حکومت کا حق عطاء نہیں کرتی ۔بلکہ اہلیت اور قابلیت حکومت میں شمولیت کا حق رکھتی ہے، میکاولی نے کہا کہ صرف اور صرف دولت مند اور جاگیردار ہی لوگوں پر حکومت کا حق رکھتے ہیں ۔ان ا قوال کا لبادہ اوڑھ کر کراچی میں مہاجر قومیت کا نعرہ لگانے والوں نے اپنا کنٹرول تین دہائیوں سے قائم رکھا ہوا تھا ۔اس عہد خرابی میں برتھ اور ڈیتھ سرٹیفیکیٹ سے لے کر تھانوں اور محکموں سمیت سب کنٹرولڈ تھے ۔مہاجر وں کی قیادت کے نام پر ان لوگوں نے حقِ حکومت طاقت کی وجہ سے حاصل کیا ہواتھا، سیکٹر انچارجوں کے ہاتھوں یرغمال کراچی کے شہری اہلیت کی قدر کھوجانے کے مسئلے سے دوچار تھے ۔ لیکن کراچی بدر ہوتے وقت اپنی جدوجہد کی قدیم اور بسیط تاریخ رکھنے والے کپتان نے کراچی کے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرنے کے لیے آنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

اُن دنوںایم کیو ایم کی قیادت کے پورے ٹبر کاطرز عمل یہ ہوتا تھاکہ کوئی بھی الطاف حُسین کے خلاف بات کرتا تو یہ پورا کنبہ خُم ٹھونک کر میدان میں اُتر آتا تھا ۔ اور پھر وہ پورا زور بانی ایم کیو ایم کی مبینہ توہین کے ’’ مرتکب ‘‘ کے خلاف صرف کیا کرتے اور ہفتوں رعونت کے ساتھ مخالفین کو صلواتیں سنایا کرتے تھے۔ماضی میں الطاف حسین کے خلاف چودھری نثار علی اور شہباز شریف کی جانب سے بیان دیئے جانے پر وسیم اختر جس انداز میں آپے سے باہر ہوئے تھے اُس کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔اور اُس ویڈیو کا دیکھنے والا ہر سنجیدہ ناظر ایک تاثر ضرور قائم کرتا ہے۔

تُم نے سونپے ہیں جنہیں رہبری کے منصب
اِن کو چلنے کا سلیقہ تو سکھاؤ پہلے
گذشتہ کئی ہفتوں سے میڈیا پر ایم کیو ایم کی قیادت کا جوطرز عمل سامنے آرہا تھا اُس سے ان کے مخالفین کا کام خودبخود آسان ہوگیا ۔میں ماضی کے دھندلکوں میں گُم تھا کہ مجھے ایک ٹی وی چینل پر ایم کیو ایم کی رہنماء نسرین جلیل کی جانب سے ایک آہ سرد کے ساتھ ادا کیا گیا یہ جملہ سنائی دیا کہ ’’ کسی کو کیا دوش دیا جائے ‘‘۔۔

کراچی میں حالات انگڑائی اورنئی کروٹ لے چُکے ہیں۔ جن لوگوں کی تقریں سُننے کے لیے لوگوں کو زبر دستی بٹھائے رکھا جاتا تھا ۔ بے ہنگم اور دھاڑ کی مثل خطابات براہ راست نشر کرنے کے لیے میڈیا ہاؤسسز کو دھمکی نما فون کیے جاتے ۔ اُن لیڈروں کی چاہت، تعصب ، دلائل، منطقیں ، فلسفے ، اور تشریحیں اب کراچی کے عوام کے لیے بے معنی ہو گئی ہیں۔

ایم کیو ایم کی بے چارگی کے اس ماحول میں کپتان نے اس شہر کی روشنیاں لوٹانے کا وعدہ کرتے ہوئے اپنی پارٹی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ خود اس شہر سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرکے یہاں کی سیاست سے اپنا حصہ وصول کرنے کی حکمت عملی واضح کر دی ہے۔ ایم کیو ایم کی دسترس میں آنے سے پہلے کراچی جن قومی سیاسی جماعتوں کا میدان عمل تھا ۔ وہ اس شہر سے ووٹ اور پارلیمنٹ کی نشستیں حاصل کرنے کے بعد پورے ملک میں سیاست کیا کرتی تھیں ۔ ان سیاسی جماعتوں نے کراچی کے مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ جس کی وجہ سے شہری علاقوں کے مسائل اذیت بننے لگے جس کا فائدہ اُٹھا کر ایم کیو ایم قائم ہوئی اوراُس نے آج تک سندھ کے شہری علاقوں کو اپنے زیر نگین رکھا ہوا تھا۔ لیکن ان کے تمام تر وسائل اور طاقت کی ملکیت کے باوجود کراچی کے مسائل آج ماضی کی طرح گھمبیر نظر آتے ہیں ۔

سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار اس پر متفق ہیں کہ کراچی کے عوام میں عمران خان کی خاطر خواہ پذیرائی کے امکانات موجود ہیں ۔ماضی میں ایم کیو ایم اپنے مقاصد کے لیے دلدار رنگوں کے تعاقب میں مصروف رہتی تھی۔ اب ان کے مطلوب رنگ کسی اور کے محبوب نظر آنے لگے ہیں ۔ حالات کا جبر دیکھیے کہ بارہ ستمبر 2007 ء کو کراچی کو عمران خان کے لیے شجر ممنوعہ بنانے اور اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہائی کورٹ جانے سے روکنے والے اپنی شکست کے فسوں کی کھوج لگانے میں بھی ناکام ہو چُکے ہیں۔ سینیٹ کے عام انتخابات میں ان کے نمائندوں پر بکنے کے الزامات ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ خریدار کے دام پر کسی جھگڑے کا سُراغ تک نہ ملا ۔

کراچی عمران خان کو جس وقت سے جاننے لگا ہے وہ اُس وقت بھی کپتان ہوا کرتا تھا آج کی ادھیڑ عمر نسل پر عمران خان کے ساتھ لیجنڈ معین اختر اور انور مقصود کے پروگراموں کا سحر طاری ہے ۔ عمران خان کی ذاتی مقبولیت کے ساتھ ساتھ کراچی میں ایک پورا میانوالی آباد ہے جو اپنے میانوالین کی پُشتیبانی کے لیے تیار نظر آتا ہے۔

کرکٹ کے کپتان نے سیاست میں اپنے دماغ سے سوچ کر اپنی بیس سالہ جدوجہد سے ایک راستہ بنایا ہے اور اپنی شبانہ روز محنت سے کراچی کی سیاست کی گرہوں کو کھولنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔اُن کے حالیہ دورہ کراچی کے دوران کی جانے والی تقاریر کی بازگشت کے ساتھ روشنیوں کے اس شہر کے باسیوں کی اُمیدوں کا نم بھی محسوس ہونے لگا ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر