... loading ...
حصیب
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے
میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں
جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے
رکوں تو منزلیں ہی منزلیں ہیں
چلوں تو راستہ کوئی نہیں ہے
کھلی ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی لیکن
گلی میں جھانکتا کوئی نہیں ہے
کسی سے آشنا ایسا ہوا ہوں
مجھے پہچانتا کوئی نہیں ہے
ِ٭ ٭
دن کو مسمار ہوئے رات کو تعمیر ہوئے
خواب ہی خواب فقط روح کی جاگیر ہوئے
عمر بھر لکھتے رہے پھر بھی ورق سادہ رہا
جانے کیا لفظ تھے جو ہم سے نہ تحریر ہوئے
یہ الگ دکھ ہے کہ ہیں تیرے دکھوں سے آزاد
یہ الگ قید ہے ہم کیوں نہیں زنجیر ہوئے
دیدہ و دل میں ترے عکس کی تشکیل سے ہم
دھول سے پھول ہوئے رنگ سے تصویر ہوئے
کچھ نہیں یاد کہ شب رقص کی محفل میں ظفرؔ
ہم جدا کس سے ہوئے کس سے بغل گیر ہوئے
٭ ٭
ہماری جان ہے جانی تو جائے
مگر یہ دل کی ویرانی تو جائے
نہیں ممکن اگرچہ پیاس بجھنا
مگر پیاسوں تلک پانی تو جائے
یقیناً ہم اسی کے ساتھ ہو لیں
مگر پرچھائیں پہچانی تو جائے
نہ آنے کی طرح آئے وہ چاہے
مگر آئے کہ حیرانی تو جائے
خداوندا کوئی دکھ مستقل دے
کہ اَن جانی پریشانی تو جائے
برس لو کُھل کے اے اشکو! برس لو
کہ آئے دن کی طغیانی تو جائے
لباسِ خاک ہی پہنائو ہم کو
کسی صورت یہ عریانی تو جائے
بہت ذرّاتِ زر شامل ہیں اِس میں
یہ خاکِ عاشقاں چھانی تو جائے
مَیں اُس کے پائوں کی زنجیر کب ہُوں
نہیں رُکنے میں آسانی تو جائے
لگا لو پھر گلے صابرظفر کو
تمھاری کچھ پشیمانی تو جائے
٭ ٭
تم اپنے گرد حصاروں کا سلسلہ رکھنا
مگر ہمارے لیے کوئی راستہ رکھنا
ہزار سانحے پردیس میں گزرتے ہیں
جو ہو سکے تو ذرا ہم سے رابطہ رکھنا
خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک
گزر ہی جائے گی یہ رُت بھی ، حوصلہ رکھنا
تمھارے ساتھ سدا رہ سکیں ، ضروری نہیں
اکیلے پن میں کوئی دوست دوسرا رکھنا
زیادہ دیر ظفرؔ ظلم رہ نہیں سکتا
اگر اب آئیں کڑے دن تو جی کڑا رکھنا
٭ ٭
کلام کرتا ہوا ، راستہ بناتا ہوا
گزر رہا ہوں مَیں اپنی فضا بناتا ہوا
مجھے نہ ڈھانپ سکی عمر بھر کی بخیہ گری
برہنہ رہ گیا مَیں تو قبا بناتا ہوا
یہی بہار ہے میری کہ مَیں گزرتا ہوں
ہر ایک خُشک شجر کو ہرا بناتا ہوا
کسی بھی شاخ نے دیکھا نہیں پلٹ کے اُسے
پرندہ سوکھ گیا گھونسلا بناتا ہوا
اب اور کیا ہو ظفرؔ انتہا مشقت کی
شکستہ ہو گیا مَیں آئنہ بناتا ہوا
٭ ٭
برہنگی کا یہ درماں ہے تیرگی میں جئیں
چراغ ہو تو جلائیں ، لباس ہو تو سیٔں
دلوں پہ حسن کی شبنم اُتارنے والے
پیالہ ہو تو اُچھالیں ، شراب ہو تو پئیں
یہ سادہ دل جو تمھیں دیکھ دیکھ مرتے ہیں
ستم کرو تو دعا دیں ، کرم کرو تو جئیں
رفو سے اور دریدہ ہو پیرہن دل کا
تری جھکی ہوئی پلکیں ہی اب اُٹھیں تو سیٔں
تمھارے حق میں چلو ہم ہی بولتے ہیں ظفرؔ
یہ زہر تم نہیں پیتے تو لائو ہم ہی پئیں
٭ ٭