وجود

... loading ...

وجود

سینیٹ انتخابات کی گھڑ دوڑ

هفته 03 مارچ 2018 سینیٹ انتخابات کی گھڑ دوڑ

ایوان بالا سینیٹ کی 45سالہ تاریخ میں 178سینیٹرز ایسے تھے جنہوں نے سینیٹ کی کاروائی میں کبھی حصہ ہی نہیںلیا بس وہ چپ کا روزہ رکھے بیٹھے رہے صرف مراعات وصول کیں۔پچھلے انتخابات تک قومی و صوبائی اسمبلیوںکی نشست جیتنے کے لیے بالترتیب 20و15کروڑ روپے خرچہ آتا تھا اس طرح سینیٹ کی سیٹ بھی 30/35کروڑ روپے میں جیتی جا سکتی تھی مگر اب بولی کروڑوں سے بڑھ کر اربوں تک لگی ہوئی ہے سینیٹ کے انتخابات میں فاٹا کی ایک سیٹ کی بولی اڑھائی سے تین ارب تک پہنچ چکی ہے اور اس میں لازماً مزید اضافہ ہو کر رہے گا

؎ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

تمام صوبوں کے اراکین ذاتی طور پر اور جتھے بنا بنا کر بھی سودے بازیوں کے ذریعے امیدواروں سے مال بٹور رہے ہیں۔

بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن اسمبلی کا ووٹ ایک ارب تک بکنے لگا ہے، خیبر پختونخواہ میں ممبران اپنے آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا خرچہ ضرور بنائیں گے اور اس میں کسی لیگ، پی ٹی آئی، اے این پی وغیرہ کی بھی شاید تمیز نہ رہ جائے ایک ایک ووٹ کے حصول کے لیے45/50کروڑ معمولی بات ہے ،عمران خان سر پیٹتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ زرداری اور ن لیگیے میرے ممبران کو خرید رہے ہیں ہمارے ممبران اسمبلی جنہیں آجکل ا س سیاست کے بازار میں” گھڑ دوڑ” سے تشبیح دی جارہی ہے ہر ہر” گھوڑے “پر زیادہ سے زیادرقم لگا کر جوا جیتنے کی طرح سینیٹ میںکامیابی کی راہ ہموار ہورہی ہے ابھی تک تو بڑے بڑے دلال اور بروکر ز کراچی میں موجود کھربوں پتی صنعتکار میدان میں نکلنے کے لیے ’’ لنگوٹ” کس رہے ہیں پنجاب اور سندھ چونکہ بڑے صوبے ہیں اس لیے وہاں زیادہ تعداد میں ووٹ حاصل کرکے ممبر سینیٹ بنا جا سکے گا۔

اس لیے خرید و فروخت کی بولی کا ریٹ بھی کم ہو گااس میں چونکہ سیاسی پارٹیوں کے ممبران اسمبلی بہت تعداد میں موجود ہیں اور سیاسی پارٹیاں عمومی طور پر پلاننگ میں یہ قرار دے دیتی ہیں کہ فلاں فلاں علاقہ کے ممبران فلاں امیدوار کو ووٹ دیں گے اس طرح سے کامیابی یقینی ہو جاتی ہے اور اس طرح سے یہاں بکائو کا خریدو فروخت کے دھندے کے علاوہ شاید دوسرے چھوٹے صوبوں میں گھڑ دوڑ کی طرح کا میلہ نہ لگ سکے زرداری چونکہ زیادہ سے زیادہ ممبر منتخب کروانا چاہتے ہیں اس لیے سندھ میں ایم کیو ایم کے انتشار کی وجہ سے ان کے لیے خرید وفروخت آسانی ہوگی آزاد ممبران بھی خریدے جاسکتے ہیں۔ویسے بھی جب بکنا ہی ٹھہر ا تو ہر بکائو ممبر زیادہ سے زیادہ قیمت چاہے گا کیونکہ انتخابات میں ابھی دو ہفتے سے زائد وقت رہتا ہے اس لیے اس “مخصوص بازار”کی طرح یہاں بھی وہ دھما چوکڑی مچے گی کہ الآمان والحفیظ ابھی تک تو بڑے ساہو کار اورووٹوں کی جنس کے خریدار کے طور پر مسٹر زرداری کا نام ٹاپ لسٹ پر ہے۔

فاٹا کے تو 12ارکان ہیں یہاں 4ارکان نے ایک سنیٹر کا انتخاب کرنا ہے اس لیے یہاں” اس بازار “کی “داشتہ لونڈیا ” کی طرح جو زیادہ مال دے گا ،لونڈیا اسی پیا کو سدھار جائے گی، بلوچستان کی صورتحال کے مطابق وہاں 9ممبران مل جائیں تو ایک سنیٹر منتخب ہو سکتا ہے ،اس لیے وہاں بھی سخت ترین مقابلہ متوقع ہے ،80/90کروڑ سے ایک ووٹ کی خریداری معمولی بات ہو گی در اصل یہ ساری خرابی اس لادینی کرپٹ ڈیمو کریسی کی ہے اور ہمارے قوانین کے مطابق صرف بڑے سرمایہ دار /صنعتکار ہی سنیٹر منتخب ہو سکتے ہیں۔عمران خان نے بھی کے پی کے میں ایسے ہی لوگوں کو سینیٹ کے انتخابی ٹکٹ جاری کیے ہیںکسی کارکن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ویسے بھی اب چند سالوں سے ممبران اسمبلی بھی بننے کے لیے کروڑوں اربوں کا خرچہ ہو رہا ہے اور تقریباً سبھی ووٹرز بھی کوئی نہ کوئی مفاد یا نقد مال لیے بغیر ووٹ دینے کو تیار نہ ہیں۔اور درمیانی دلالوں /ایجنٹوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے وہ بھی سالوں کا خرچہ بنا ہی لیتے ہیں کہ ممبران نے منتخب ہو کر بھی سرکاری خزانوں کو لوٹنا ہوتا ہے اور سبھی ترقیاتی کاموں میں طے کردہ Percentageکے مطابق حرام سے جیبیں بھرنی ہوتی ہیں اس لیے ووٹرز اور ان کی خریدوفروخت کرنے والے دلال کیوں اپنا اپنا حصہ بقدر جسہ ایڈوانس وصول نہ کریں ؟کہ ہر ممبر اسمبلی وسینیٹ نے انتخاب جیتنے کے بعد کسی کو پہچاننا تک نہیں ہوتا کام کرنے کی تو اور بات ہے اگر اب بھی جناب بابا رحمتے صاحب ازخود نوٹس لیکر سینیٹ کے انتخابات کو کھلے عام ہاتھ کھڑے کرکے انتخاب کا طریقہ اپنانے کا حکم جاری کردیں تو یہ سارا” کرپشن کا محل” زمین بوس ہو جائے گااور ” اس بازار “جیسی منڈی بھی اجڑ جائے گی پھر تو اربوں لگا کر منتخب ہونے والے سنیٹر بھی اپنی ممبر شپ کے دوران حرام مال کمانے سے گریز کریں گے۔

راقم آمدہ عام انتخاب کے بارے میں بھی جلد احسن تجاویز پیش کرے گا اب نیب کہاں ہے؟ دن دیہاڑے گھوڑے بک بھی رہے ہیں اور کھلم کھلاسر عام ہنہنا بھی رہے ہیں کھلم کھلا اسطرح کی ڈکیتیوں کی وارداتوں کو نہ روکا گیا تو پھر بابا یہ سب کہانیاں ہیں! ساہو کارانہ حربوں سے ممبران کی شکل میں گھوڑوں کی خرید وفروخت کرنے بندوں کے ضمیروں پر بوجھ ہے مگر اس منڈی کے سارے لوگ خوشیوں سے آپے سے باہر ہوئے جاتے ہیںایک وہ لوگ ہیں کہ

؎خدا کی پھٹکار ہو اس دن مجھ پر
جب میں کسی اقتدار سے ہاتھ ملانا چاہوں

آغاشورش نے کہا تھا کہ جب قلم بکتا ہے تو یوں سمجھیں کہ صحافی کی ماں بکتی ہے مگر سیاسی ممبران بکیں تو انہیں کیا لقب دیا جائے شورش ہی نے کہا تھا

؎ ہمارے ملک کی سیاست کا حال مت پوچھ
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

در اصل تو اللہ اکبر کے نعروں کے تحت غیر متنازعہ اور تمام مسالک کے لیے قابل قبول تحریک ہی نئی قیادت لاکر قوم کو موجودہ سیاسی جوہڑ سے نکال کرخلاء پر کرسکتی ہے کہ وہ انتخاب میں کسی بھی ایسے شخص کو ٹکٹ جاری ہی نہ کریں جس نے کبھی بھی سرکاری جھنڈی لگائی ہو۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر