... loading ...
یہ رہنما نہیں دیوتا ہیں۔یہ جمہوری جماعتیں نہیں، دراصل نجی کمپنیاں ہیں۔
نیویارک ٹریبون کے بانی مدیر ہوریس گریلے (Horace Greeley) کے الفاظ کردار وصداقت کی بحث میں جگمگاتے رہیں گے:
Fame is a vapor, popularity an accident, and riches take wings. Only one thing endures and that is
character.
(شہرت دھواں ہے، مقبولیت حادثہ ہے ، دولت ہوا ہوجاتی ہے۔دوام صرف کردار کوہے) ۔
پاکستانی سیاست میں کردار ایک اضافی اور غیر متعلق موضوع ہے۔ آدمی اپنے بہترین نہیں بدترین ایاّم میں پہچانا جاتا ہے۔ افسوس پاکستانی سیاست دان کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ شریف برادران تو بالکل بھی نہیں۔
جمہوریت ہمیں اپنی طرف مائل کیوں نہیں کرتی۔ہمارا گردوپیش جمہوریت کی بوباس ہی نہیں رکھتا۔ حکومت اور سیاسی جماعت کی قیادت سے نااہلی کی عدالتی سند پانے والے نوازشریف نے ایک تعزیتی ریفرنس میں مسلم لیگ نو ن کو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہا ہے۔ یہ دراصل پاکستان کے سیاسی نظام کی بھی تعزیت ہے۔گزشتہ روز اُنہیں اپنی جماعت کی صدارت سے دستکش ہونا پڑا،پارٹی صدارت کے پورے انتخابی عمل کو دیکھ لیجیے، جمہوریت کہاں ہے؟نوازشریف اب تاحیات قائد ہیں اور اُن کے چھوٹے بھائی مسلم لیگ نون کے صدر!!!اس میں کہیں کردار وصداقت کا کوئی عمل دخل ہے۔یہ سب کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟تعزیتی ریفرنس میں نعرہ لگا کہ ووٹ کو عزت دو۔ کیا اس ووٹ کو پارٹی کے اندر پہلے عزت نہیں ملنی چاہئے ۔ کیا پارٹی کے لیے صدر کا انتخاب آزادانہ نہیں ہونا چاہئے؟کہیں سے سوال تک پیدا نہیں ہوا کہ پارٹی کی صدارت کے لیے شہبازشریف ہی کیوں موزوں پائے۔ کیا ایک سیاسی جماعت جسے جمہوریت کا مقدمہ لڑنا ہے، جسے پارلیمنٹ کی بالادستی کا منتر بھی جپنا ہے۔ جسے ووٹ کی تقدیس کا رونا بھی رونا ہے۔ جسے عوامی نمائندگی کا ڈھندورا بھی پیٹنا ہے۔وہ ایک روز ایک بھائی کے ہاتھ سے دوسرے بھائی کے ہاتھ اس طرح چلی جاتی ہے جیسے خاندان کے زیر ملکیت کوئی جائیداد تقسیم ہوتی ہے۔ پورے ملک میں کوئی سوال تک نہیں اُٹھتا۔کیا یہ پوری جماعت ان دوقابل بھائیوں کی ہی بدولت کھڑی ہے۔ حیرت ہے کہ پارٹی صدر کے انتخاب کی آبرو بڑھانے کے لیے ہی کوئی دوسرا نام ،برائے نام بھی سامنے نہیں آیا۔ کسی ردیف میں قافیہ کے طور پر ہی سہی، برائے وزن بیت ہی سہی!!
برطانیا میں 1979 میں پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر اُبھرنے والی مارگریٹ تھیچر کو چار سال قبل ایڈورڈ ہیتھ کی جگہ کنزرویٹو پارٹی کی سربراہی سونپی گئی۔اس پر ایک برطانوی مصنف اور سیاست دان نارمین سینٹ جان اسٹیوازنے کہا کہ
’’یہ ایک انتخاب نہیں، بلکہ کسی کے اپنے گھر میں آنے پر کیا جانے والا اُس کا استقبال تھا‘‘۔
تاریخ میں ایسے متعدد کردار ملتے ہیں جنہیں اپنے مناصب پر دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ جیسے اسی کام کے لیے پیدا کیے گئے ہوں۔ مگر ہمارے لیے ان بھائیوں کو دیکھ کر یہ اندازا لگا نا ہمیشہ دشوار رہتا ہے کہ آخر یہ کس کام کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ایک کے بعد اب دوسرے بھائی جماعت کی صدارت سنبھالیں گے۔ اُس جماعت کی جس میں جتنے بھی آپشنز ہیں ، وہ سب کے سب خاندان تک محدود ہیں۔ کیا ان لوگوں کوزیبا ہے کہ وہ جمہوریت کی بات کریں؟ مسلم لیگ نون کے اندر جماعت کی سربراہی سنبھالنے کے لیے شہباز شریف کے علاوہ جتنے بھی نام نوازشریف کے پیشِ نظر تھے، وہ سب کے سب اُن کے اپنے خاندان کے تھے۔ مسلم لیگ نون کی صدارت سنبھالنے کے لیے اُن کی اولّین ترجیح خود اُن کی صاحبزادی مریم نواز تھیں۔ جن پر جماعت کے کچھ رہنما تیار نہ تھے۔ مریم نواز کی صدارت پر تحفظات رکھنے والے رہنمابھی قابلِ تکریم نہیں۔ کیونکہ وہ یہ اعتراض جمہوری اقدار کے احترام میں نہیں بلکہ اس تناظر میں کر رہے ہیں کہ مریم نواز کی صدارت ابھی سیاسی طور پر سود مند نہ رہے گی اور اختلافات کو جنم دے گی۔ پھر ان رہنماؤں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو جماعت کی سربراہی کے لیے شریف خاندان سے باہر نکل کر کسی متبادل پر غور کرتا ہوں۔ان کے پاس بھی متبادل کے طورپر جو نام تھے وہ کلثوم نواز یا پھر شہبازشریف کے تھے۔ نوازشریف اس خطرے کی بھنک رکھتے تھے کہ شہبازشریف کو جماعت کی سربراہی سپرد نہ کرنے پر ایک بڑی اُٹھا پٹخ ہو سکتی ہے۔ پھر مسلم لیگ نون کے اصل قوت کے مرکز یعنی پنجاب پر شہبازشریف کی مضبوط گرفت ہے ۔ جو بیوروکریسی سے لے کر نچلی سطح کی سرکاری انتظامیہ کو ذاتی ملازمین کی فوج بنا چکے ہیں۔ اس پورے غوروفکر میں ملک، جمہوریت ، پارلیمنٹ کی بالادستی، ووٹ کا تقدس ، عوام کے فیصلے کا احترام اور اس نوع کے دیگر مباحث کا کہیں کوئی وجود نہیں۔ مگر جب وہ یہ خاندانی فیصلے جماعتی سطح پر کرلیتے ہیں تو پھر اس کا پورا تناظر جمہوری، عوامی اورقومی بنالیتے ہیں۔ اس کے لیے بھارے کے ٹٹو اور موٹے پیٹو ں کے لشکر ہمیشہ میسر رہتے ہیں جو تاویلوں ، تعبیروں اور حیلہ جوئیوں کے ماہر ہیں۔ وہ ان فیصلوں کے ایسے پسِ منظر، پیشِ منظر اور تہہِ منظر تخلیق کر لیتے ہیں جو کبھی کسی کے حاشیہ خیال میں نہیں آسکتے۔ پھر ان فیصلوں کو نہ ماننے سے ملکی ، قومی اور عوامی مفادات خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ پاکستان میں کیا کبھی کچھ الگ ہوگا۔ شہبازشریف کو جماعت کی سربراہی سپرد کیے جانے سے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ شریف خاندان جمہوری اقدار کی نشوونما میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ وہ خاندانی مفادات کے تحفظ کو ہی اپنی اولین ترجیح بنا کر بروئے کار ہے۔
سیاست دانوں کا کردار ابھی تک جمہوریت کی تقدیس بڑھانے کے لیے قابل اعتبار طور پر سامنے نہیں آیا۔ مگر پھر بھی وہ ایک عرصہ گزار کر احتساب کے چنگل سے خود کو نکال کر اُبھر آتے ہیں۔ ایسا کیوںہوتا ہے ؟ریاستی ادارے اپنا کام درست نہیںکر پاتے۔ اور عوام شعور کی حقیقی منزل سے بہت دور عصبیت کے گرداب میں ہے۔ شاید کبھی کین سارو کا مرتے وقت آخری سوال ہمار ے غورفکر کا پہلا پڑاؤ بن سکے:
’’یہ کس قسم کی قوم ہے؟جو ہر حرکت کی اجازت دیتی ہے، یہ کس قسم کی قوم ہے، جس میں مجھ ایسے فرد کا وجود ممکن ہے‘‘؟
درحقیقت ہم نے خود کو زوال آمادہ رکھ کر اسی نوع کی حکمرانی کے حوالے کررکھا ہے۔ کوئی ایک شخص بھی مسلم لیگ نون میںایسا نہیں جو اس موروثی حکمرانی کے تصور پہ لات مارسکے، کوئی ایک بھی ایسا نہیںجو یہ سوال کرسکے کہ تمہارے سیاسی متبادل بھی تمہارے خاندان تک محدود کیوں ہیں؟ کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو یہ سوال اُٹھا سکے کہ یہ سیاسی جماعت ہے یا کوئی نجی کمپنی؟پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوال کون اُٹھائے، دیوتاؤں سے سوال تو نہیں کیا جاتا!!!