وجود

... loading ...

وجود

جمہوریت کی نجی کمپنیاں

جمعرات 01 مارچ 2018 جمہوریت کی نجی کمپنیاں

یہ رہنما نہیں دیوتا ہیں۔یہ جمہوری جماعتیں نہیں، دراصل نجی کمپنیاں ہیں۔
نیویارک ٹریبون کے بانی مدیر ہوریس گریلے (Horace Greeley) کے الفاظ کردار وصداقت کی بحث میں جگمگاتے رہیں گے:
Fame is a vapor, popularity an accident, and riches take wings. Only one thing endures and that is
character.
(شہرت دھواں ہے، مقبولیت حادثہ ہے ، دولت ہوا ہوجاتی ہے۔دوام صرف کردار کوہے) ۔
پاکستانی سیاست میں کردار ایک اضافی اور غیر متعلق موضوع ہے۔ آدمی اپنے بہترین نہیں بدترین ایاّم میں پہچانا جاتا ہے۔ افسوس پاکستانی سیاست دان کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ شریف برادران تو بالکل بھی نہیں۔
جمہوریت ہمیں اپنی طرف مائل کیوں نہیں کرتی۔ہمارا گردوپیش جمہوریت کی بوباس ہی نہیں رکھتا۔ حکومت اور سیاسی جماعت کی قیادت سے نااہلی کی عدالتی سند پانے والے نوازشریف نے ایک تعزیتی ریفرنس میں مسلم لیگ نو ن کو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہا ہے۔ یہ دراصل پاکستان کے سیاسی نظام کی بھی تعزیت ہے۔گزشتہ روز اُنہیں اپنی جماعت کی صدارت سے دستکش ہونا پڑا،پارٹی صدارت کے پورے انتخابی عمل کو دیکھ لیجیے، جمہوریت کہاں ہے؟نوازشریف اب تاحیات قائد ہیں اور اُن کے چھوٹے بھائی مسلم لیگ نون کے صدر!!!اس میں کہیں کردار وصداقت کا کوئی عمل دخل ہے۔یہ سب کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟تعزیتی ریفرنس میں نعرہ لگا کہ ووٹ کو عزت دو۔ کیا اس ووٹ کو پارٹی کے اندر پہلے عزت نہیں ملنی چاہئے ۔ کیا پارٹی کے لیے صدر کا انتخاب آزادانہ نہیں ہونا چاہئے؟کہیں سے سوال تک پیدا نہیں ہوا کہ پارٹی کی صدارت کے لیے شہبازشریف ہی کیوں موزوں پائے۔ کیا ایک سیاسی جماعت جسے جمہوریت کا مقدمہ لڑنا ہے، جسے پارلیمنٹ کی بالادستی کا منتر بھی جپنا ہے۔ جسے ووٹ کی تقدیس کا رونا بھی رونا ہے۔ جسے عوامی نمائندگی کا ڈھندورا بھی پیٹنا ہے۔وہ ایک روز ایک بھائی کے ہاتھ سے دوسرے بھائی کے ہاتھ اس طرح چلی جاتی ہے جیسے خاندان کے زیر ملکیت کوئی جائیداد تقسیم ہوتی ہے۔ پورے ملک میں کوئی سوال تک نہیں اُٹھتا۔کیا یہ پوری جماعت ان دوقابل بھائیوں کی ہی بدولت کھڑی ہے۔ حیرت ہے کہ پارٹی صدر کے انتخاب کی آبرو بڑھانے کے لیے ہی کوئی دوسرا نام ،برائے نام بھی سامنے نہیں آیا۔ کسی ردیف میں قافیہ کے طور پر ہی سہی، برائے وزن بیت ہی سہی!!

برطانیا میں 1979 میں پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر اُبھرنے والی مارگریٹ تھیچر کو چار سال قبل ایڈورڈ ہیتھ کی جگہ کنزرویٹو پارٹی کی سربراہی سونپی گئی۔اس پر ایک برطانوی مصنف اور سیاست دان نارمین سینٹ جان اسٹیوازنے کہا کہ
’’یہ ایک انتخاب نہیں، بلکہ کسی کے اپنے گھر میں آنے پر کیا جانے والا اُس کا استقبال تھا‘‘۔
تاریخ میں ایسے متعدد کردار ملتے ہیں جنہیں اپنے مناصب پر دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ جیسے اسی کام کے لیے پیدا کیے گئے ہوں۔ مگر ہمارے لیے ان بھائیوں کو دیکھ کر یہ اندازا لگا نا ہمیشہ دشوار رہتا ہے کہ آخر یہ کس کام کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ایک کے بعد اب دوسرے بھائی جماعت کی صدارت سنبھالیں گے۔ اُس جماعت کی جس میں جتنے بھی آپشنز ہیں ، وہ سب کے سب خاندان تک محدود ہیں۔ کیا ان لوگوں کوزیبا ہے کہ وہ جمہوریت کی بات کریں؟ مسلم لیگ نون کے اندر جماعت کی سربراہی سنبھالنے کے لیے شہباز شریف کے علاوہ جتنے بھی نام نوازشریف کے پیشِ نظر تھے، وہ سب کے سب اُن کے اپنے خاندان کے تھے۔ مسلم لیگ نون کی صدارت سنبھالنے کے لیے اُن کی اولّین ترجیح خود اُن کی صاحبزادی مریم نواز تھیں۔ جن پر جماعت کے کچھ رہنما تیار نہ تھے۔ مریم نواز کی صدارت پر تحفظات رکھنے والے رہنمابھی قابلِ تکریم نہیں۔ کیونکہ وہ یہ اعتراض جمہوری اقدار کے احترام میں نہیں بلکہ اس تناظر میں کر رہے ہیں کہ مریم نواز کی صدارت ابھی سیاسی طور پر سود مند نہ رہے گی اور اختلافات کو جنم دے گی۔ پھر ان رہنماؤں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو جماعت کی سربراہی کے لیے شریف خاندان سے باہر نکل کر کسی متبادل پر غور کرتا ہوں۔ان کے پاس بھی متبادل کے طورپر جو نام تھے وہ کلثوم نواز یا پھر شہبازشریف کے تھے۔ نوازشریف اس خطرے کی بھنک رکھتے تھے کہ شہبازشریف کو جماعت کی سربراہی سپرد نہ کرنے پر ایک بڑی اُٹھا پٹخ ہو سکتی ہے۔ پھر مسلم لیگ نون کے اصل قوت کے مرکز یعنی پنجاب پر شہبازشریف کی مضبوط گرفت ہے ۔ جو بیوروکریسی سے لے کر نچلی سطح کی سرکاری انتظامیہ کو ذاتی ملازمین کی فوج بنا چکے ہیں۔ اس پورے غوروفکر میں ملک، جمہوریت ، پارلیمنٹ کی بالادستی، ووٹ کا تقدس ، عوام کے فیصلے کا احترام اور اس نوع کے دیگر مباحث کا کہیں کوئی وجود نہیں۔ مگر جب وہ یہ خاندانی فیصلے جماعتی سطح پر کرلیتے ہیں تو پھر اس کا پورا تناظر جمہوری، عوامی اورقومی بنالیتے ہیں۔ اس کے لیے بھارے کے ٹٹو اور موٹے پیٹو ں کے لشکر ہمیشہ میسر رہتے ہیں جو تاویلوں ، تعبیروں اور حیلہ جوئیوں کے ماہر ہیں۔ وہ ان فیصلوں کے ایسے پسِ منظر، پیشِ منظر اور تہہِ منظر تخلیق کر لیتے ہیں جو کبھی کسی کے حاشیہ خیال میں نہیں آسکتے۔ پھر ان فیصلوں کو نہ ماننے سے ملکی ، قومی اور عوامی مفادات خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ پاکستان میں کیا کبھی کچھ الگ ہوگا۔ شہبازشریف کو جماعت کی سربراہی سپرد کیے جانے سے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ شریف خاندان جمہوری اقدار کی نشوونما میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ وہ خاندانی مفادات کے تحفظ کو ہی اپنی اولین ترجیح بنا کر بروئے کار ہے۔

سیاست دانوں کا کردار ابھی تک جمہوریت کی تقدیس بڑھانے کے لیے قابل اعتبار طور پر سامنے نہیں آیا۔ مگر پھر بھی وہ ایک عرصہ گزار کر احتساب کے چنگل سے خود کو نکال کر اُبھر آتے ہیں۔ ایسا کیوںہوتا ہے ؟ریاستی ادارے اپنا کام درست نہیںکر پاتے۔ اور عوام شعور کی حقیقی منزل سے بہت دور عصبیت کے گرداب میں ہے۔ شاید کبھی کین سارو کا مرتے وقت آخری سوال ہمار ے غورفکر کا پہلا پڑاؤ بن سکے:

’’یہ کس قسم کی قوم ہے؟جو ہر حرکت کی اجازت دیتی ہے، یہ کس قسم کی قوم ہے، جس میں مجھ ایسے فرد کا وجود ممکن ہے‘‘؟

درحقیقت ہم نے خود کو زوال آمادہ رکھ کر اسی نوع کی حکمرانی کے حوالے کررکھا ہے۔ کوئی ایک شخص بھی مسلم لیگ نون میںایسا نہیں جو اس موروثی حکمرانی کے تصور پہ لات مارسکے، کوئی ایک بھی ایسا نہیںجو یہ سوال کرسکے کہ تمہارے سیاسی متبادل بھی تمہارے خاندان تک محدود کیوں ہیں؟ کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو یہ سوال اُٹھا سکے کہ یہ سیاسی جماعت ہے یا کوئی نجی کمپنی؟پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوال کون اُٹھائے، دیوتاؤں سے سوال تو نہیں کیا جاتا!!!


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر