... loading ...
نواز شریف کی دس سالہ جلاوطنی ن لیگ کا بال بیکا نہیں کرسکی ۔ یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل آشیر باد حاصل تھی اور جنرل جیلانی نے نواز شریف کو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ نتھی کر دیا یوں ن لیگ کو دائیں بازو کی جماعت کے طور پر اُبھارا گیا۔ اب وہی ن لیگ اَِس وقت مشکلات کا شکار ہوچکی ہے۔ عدلیہ نے نواز شریف کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ یوں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ پارٹی قیادت سے بھی نا اہل قرار دے دیا گیا ہے۔عدلیہ کی اپنی ایک تاریخ ہے عدلیہ کبھی بھی مقبول فیصلے نہیں کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ آج تک عوام ہضم نہیں کر پائے۔ یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دلانے والے نواز شریف کو جب اُسی عدالتِ عظمیٰ نے نکال باہر کیا تو پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
بھٹو کی پھانسی پر جیالوں نے خود سوزیاں کر لی تھیں۔ نواز شریف نا اہلی کے بعد بہت زیادہ ردعمل آیا۔ عدلیہ اور فوج کے حوالے سے بطور سابق وزیراعظم وہ الفاظ بیان کر رہے ہیں جو کہ مہذب دُنیا کا خاصہ نہیں ہے۔ اب جبکہ شہباز شریف کو ن لیگ کی صدارت سونپ دی گئی ہے اور نواز شریف تا حیات قائد بن گئے ہیں ۔ پارٹی کی پالیسی میں شاید کو ئی خاص تبدیلی نہ آئے کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک تو یہی دیکھا جا رہا تھا کہ شہباز شریف اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے تھے لیکن جب سے نیب نے شہباز شریف کو اپنے دفتر بلوایا ہے اور نوکر شاہی میں اُن کے چہیتے افسروں پر ہاتھ ڈالا ہے اب شہاز شریف کے بیانات میں کا فی تلخی آتی جارہی ہے۔ یوں وہ شہبازشریف جو چوہدری نثار کے ساتھ ملک کر یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ اداروں کے ساتھ تصادم نہیں کرنا وہ بھی اپنے بھائی کی راہ پر چل پڑے ہیں ۔ اب ایسا دکھائی د یتا ہے کہ نواز شریف نے اہم میٹنگ میں چوہدری نثار کو نہ بلا کر یہ پیغام دیا کہ وہ اب اُن سے راہیں جُدا کر چکے ہیں۔ اُس میٹنگ میں جس میں شہباز کو پارٹی صدار ت سونپی گئی ہے اُس میں چوہدری نثار کا نہ بلایا جانا۔ مطلب یہی ہے کہ نواز اور نثار کی تیس سال کی رفاقت ختم۔ اب شہباز کی پرواز دیکھیں کیا کرتی ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے اداروں کیساتھ محاذ آرائی سے روکنے والے تین دہائیوں کے ساتھی چوہدری نثار سے راستہ جدا کر لیا اور خصوصی ہدایت پر چوہدری نثار کو مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا، جبکہ شہباز شریف، ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق نے نواز شریف کو منانے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ نہیں مانے یہ تینوں رہنما رات گئے تک نواز شریف کو منانے کی کوشش کرتے رہے، تاہم نواز شریف نے کہا جس موقف کی عوام نے حمایت کی اس سے اختلاف کرنیوالے کے لیے پارٹی میں کوئی جگہ نہیں، عوام نے میرے بیانیہ کی بھرپور حمایت کی جبکہ چوہدری نثار نے سرعام مخالفت کی اس لیے ایسا نہیں ہو سکتا مخالفت بھی کی جائے اور اس کو اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی جائے۔
ایوب خان ، بھٹو، ضیا الحق، بے نظیر مشرف ، زرداری اور نواز شریف ہما ری ملکی سیاست میں فعال کردار کے حامل ہیں۔ باقی چھوٹے موٹے سیاستدان یا مذہبی رہنماء صرف بطور پریشر گروپ ہی فعال رہے ہیں اور موجود دو رمیں بھی ایسا ہی ہے۔ ریاستی اداروں کی عزت و تکریم سے ہی ملک میں امن و سکون او ر خوشحالی کی فضاء قائم ہو پاتی ہے۔قانون معاشرے کی بہبود کے لیے ہوتے ہیں۔ مقننہ قانون بناتی ہے عدلیہ اُسکی تشریح کرتی ہے اور حکومت اِس پر عمل در آمد کرواتی ہے۔ گویا کہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار عدلیہ کا ہے لیکن اُس فیصلے پر اُس کی روح کے مطابق نفاذ کیے جانے کا اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے عدلیہ کے فیصلوںپر من و عن عمل درآمد کرواتے ہیں۔ گویا مققنہ نے قانون بنا کر اپنا فرض ادا کردیا۔ عدلیہ نے قانون کے مطابق فیصلہ کردیا اور اُس فیصلے کو منوانا کے لیے طاقت/ نافذ کے کرنے کی قوت صرف حکومت کے پاس ہوتی ہے۔
آزاد عدلیہ کے نظریے کے مطابق انتظامیہ کے زیر تحت عدلیہ نے کام نہیں کرنا ہوتا ۔ بلکہ انتطامیہ اِس حوالے سے عدلیہ کے احکام پر عمل درآمد کروانے کی سو فی صد ذمہ دار ہوتی ہے۔ جن ملکوں میں شرح خواندگی سو فی صد ہے وہاں پر جمہوری نظام کے ثمرات نظر آتے ہیں لیکن جہاں وڈیرہ شاہی، سرمایہ دارنہ اور جاگیر دارانہ نظام ہو وہاں انسان کی عزت و توقیر نہیں بلکہ طاقت کو فوقیت حاصل ہے ایسا ہی تیسری اور چوتھی دُنیا کے ممالک کا پرابلم ہے وہ یوں کہ انسانوں کو نام نہاد جموریت جانوروں کی طرح ہانک رہی ہوتی ہے۔ یہاں نام نہاد جموریت کے طریقہ کار میں صرف وڈیرے سرمایہ دار، با اثر، لوگ ہی انتخابات جیت کر عوام پر باد شاہت کرتے ہیں۔ حالیہ اقدمات کے نتیجے میں چوہدری نثار کو جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے اِس کے بعد شاید اتنی لمبی رفاقت کو چوہدری نثار قائم نہ رکھ سکیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف جو ہمیشہ چوہدری نثار اور نواز شریف کے درمیان پُل کام کرتے ہیں اب اُن کی پرواز کا دائر کار کیا ہوگا اور وہ ن لیگ کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اُس سے کیسے عہدا براء ہو سکیں گے۔ پاکستان کو اللہ پاک قائم و دائم رکھے (آمین)