... loading ...
عام
انتخابات کے قدموں کی چاپ اب بہت واضح سنائی دینے لگی ہے ۔ تمام بڑی اور چھوٹی جماعتیں الیکشن کی تیاری میں مصروف ہیں۔ جہاں بینی کا دعویٰ کرنے والی مذہبی سیاسی جماعتوں نے’’ جہاں بانی ‘‘ کی خاطر اپنے سابقہ اتحاد کو پرانے پیراہن میں بحال کر دیا ہے ۔یہ بحث الگ ہے کہ ایم ایم اے کی بعض جماعتوں نے جلیل القدر قاضی حُسین احمد ؒ کو کس قدر اذیت پہنچائی تھی اور اس اتحاد کے بارے میںسراج الحق قاضی مرحوم کی رنجیدگی کا ادراک کیوں نہیں کر پائے ۔ ماضی میں جب ایم ایم اے آخری ہچکیاں لے رہا تھا تو اس اتحاد کے کئی دردمند رہنماؤں سے ملاقاتوں کا ایک ہی نتیجہ قتیل شفائی کے اس شعر کی صورت میں میرے سامنے آیا تھا ۔
جن کو پینے کا سلیقہ تھا وہ تو پیاسے ہیں شکیل
جو بھی کم ظرف تھے اس دور میں مے خار ہوئے
ماضی کے بر عکس سیاسی اتحادوں اور پارٹیوں کے ادغام کے معاملات میں مسلم لیگ کو ایک کرنے کی کوئی کاوش سامنے نہیں آئی ۔ مسلم لیگ کے دھڑوں کا آخری اتحاد جنرل پرویز مشرف کی چھتری کی تلے ہوا تھا جس کی صدارت میر ظفر اللہ جمالی کو سونپی گئی تھی ۔اس اتحاد کی’’ رحلت ‘‘کے بعد سے دوبارہ احیا ء کی ابھی تک دور دور تک کوئی اُمید نظر نہیں آتی اس کٹھن ماحول میں وہ لوگ شدید پریشانی کا شکار ہیں جنہیں خود کو پیدائشی مسلم لیگی کہلانے کا چسکا پڑا ہوا ہے۔
سیاسی لیل و نہار کی سوچیں مجھے ماضی میں لے جاتی ہیں تومولانا عبد الستار خان نیازی ؒ سے نیازمندانہ ملاقاتوں کا احوال سامنے آجاتا ہے۔ میرا تخیل مولانا نیازی ؒ کی ایک مجلس میں جا پہنچتا ہے جس میں وہ بڑی دردمندی اور دلسوزی کے ساتھ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ’’ قائد اعظم ؒ جنہیں کھوٹے سکوں سے تعبیر کیا کرتے تھے ان کی اکثریت پاکستان کی بانی جماعت میں شامل رہی ہے۔1948 ء کے بعد جب مسلم لیگ کو عملاً ایک لمیٹڈ کمپنی بنادیا گیا تو ہم نے مسلم لیگ کے اندر ’’ خلافت پاکستان ‘‘ گروپ قائم کردیا ۔اس کی بڑی اور بنیادی وجہ یہ تھی کہ پنجاب کے جاگیردار اور رئیس لوگ قیام پاکستان سے پہلے تو اسلام اسلام کے نعرے لگاتے تھے۔لیکن قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اس نعرے سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ’’ خلافت پاکستان ‘‘ گروپ نے اپنا دس نکاتی پروگرم تشکیل بھی دیا تھا۔اس گروپ کی جانب سے ایک پمفلٹ بھی شائع کیا گیا تھاجس کا عنوان تھا کہ ’’ پاکستان کی لاج رکھنی ہے تو مسلم لیگ کے اینگلو محمڈن نوابوں کا راج ختم کرو ‘‘ ۔مولانا ؒ بتاتے تھے کہ ’’ کہ پمفلٹ بڑی خوفناک چیز تھا جس نے مسلم لیگ کے نوابوں ، اُمراء اور رؤساء کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔بعد میں یہ پمفلٹ ضبط کر لیا گیا تھا۔‘‘
مولانا نیازی ؒ خلافت پاکستان گروپ کے کنوینئر تھے ۔انہوں نے مولانا ابراہیم علی چشتی ، حکیم انور بابری ، شیخ نسیم حسن ایڈوکیٹ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اس گروپ کو مختلف اضلاع میں مستحکم و منظم کیا ۔اس گروپ کو منظم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مسلم لیگ کو شکست دی جا سکے ۔یہ قیام پاکستان کے ابتدائی سال تھے کہ مسلم لیگ میں پھوٹ پڑ گئی تھی۔یہ وہی دور ہے جب جناح مسلم لیگ کے نام سے ایک علیحدہ دھڑا بھی وجود میں آیا تھا۔
ان دنوں مولانانیازی ؒ کی تقاریر با الکل ایسی ہی ہوتی تھیں جس قسم کی تقریریں عمران خان کرتے ہیں۔وہ اسمبلی کے اندر اور باہر اکثر تقریر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ’’ اسلامی عوام کو ضرورت تھی محمد بن قاسم کی اور پالا پڑ گیا ہے محمد شاہ رنگیلوں سے ، ہم منتظر تھے احمد شاہ ابدالی کے اور مل گئے ہمیں واجد علی شاہ یاقوتیاں کھانے والے( اس بات سے ان کاا شارہ ممدوٹ کی طرف ہوا کرتا تھا) ۔ ضرورت تھی ہمیں اورنگزیب عالمگیر یا بابر کی سیاست کی اور پلے پڑ گئے ہم مہابلی اکبر اعظم کے پجاریوں کے ، دوغلی سیاست کے پرستاروں کے ‘‘۔
مولانا نیازی ؒ نے ’’ خلافت پاکستان ‘‘ کے نام سے ایک پرچہ بھی نکالا جس کے وہ خود ایڈیٹر تھے ۔وہ اس پرچے کے ذریعے مسلم لیگ کو ایکسپوز کرنے کا دعویٰ کیا کرتے تھے۔انہوں نے ’’مسلم لیگ یا مجرم لیگ ‘‘ کے نام سے ایک پمفلٹ بھی شائع کیا اس میں دولتانہ اور ممدوٹ وغیرہ پر سخت تنقید کی گئی تھی ۔اس کے جواب میں حمید نظامی مرحوم نے ’’ ففتھ کالمسٹ کے عنوان سے ایک پمفلٹ شائع کردیا تھا۔جس میں مولانا ابراہیم علی چشتی کو ففتھ کالمسٹ کہا گیا تھا ۔
جس کے بعد ایک اور جوابی پمفلٹ سامنے آیا جس میں بتایا گیا تھا کہ اصل ففتھ کالمسٹ کون ہے۔اس میں مولانا چشتی نے وہ رسیدیں بھی شائع کر دی تھی جوبقول ان کے حمید نظامی اُن سے چالیس چالیس روپئے کی صورت میںتحریک رفاقت کے لیے کام کرنے کے عوض 1949 ء لیتے رہے تھے۔مولانا بتاتے تھے کہ اس کے جواب میں انہیں ممدوٹ حکومت کی جانب سے سخت ترین انتقامی کارروائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا ۔1951 ء میں جب الیکشن قریب آیا ۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے انتخابات تھے لیکن نواب ممدوٹ اور میاں عبد الباری نے ’’ جناح مسلم لیگ ‘‘ کی بنیاد رکھ دی ۔مولانا نیازی ؒ اور ان کے رقفاء کے شدید نوعیت کے تحفظات کے باوجود جب ’’ آل پاکستان جناح عوامی مسلم لیگ ‘‘ کے نام سے مسلم لیگوں کا ادغام کیا گیا تو مولانا نیازی ؒ نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔
1951 ء کے عام انتخابات میں انہوں نے میانوالی کے مسلم لیگی اُمیدوار کے مقابلے میں الیکشن لڑا ۔ مولانا نیازی کے بقول لیاقت علی خان ؒ نے انہیں ابو سعید انور کے ذریعے مفاہمت کا پیغام بھجوایا اور اس کے عوض میانوالی کی نشست اور حکومت میںشمولیت کی پیش کش بھی کی تھی جسے انہوںنے قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی ۔ جس کے بعد نوابزادہ لیاقت علی خان ؒ میانوالی میں مسلم لیگی اُمیدوار کے حق میں جلسہ کرنے آئے اس موقع پر انہوں نے مولانا نیازی ؒ کا نام لیے بغیر کہاتھا کہ’’ ہمارے ایک دوست رہنماء ہم سے ناراض ہو کر آ گئے ہیں ۔ہم نے بڑی کوشش کی کہ ہمارے ساتھ مل جائیں مگر یہ ضدی آدمی ہے کسی کے ساتھ مل کر کام نہیں کر سکتا۔آپ لوگوں نے اسے منتخب کرکے اسمبلی میں بھیجا تو آپ کے بھلا کے لیے کیا کام کرے گا ۔اس لیے آپ مسلم لیگ کے آدمی کو کامیاب کریں ‘‘۔
اُسی شام مولانا عبد الستار خان نیازی ؒ نے بھی میانوالی میں جلسہ کیا اور وہ تمام خطوط پڑھ کر سُنائے جو لیاقت علی خان نے انہیں لکھے تھے۔اُن میں سے ایک خط کا متن یوں سُنایا گیا تھا کہ ’’ نیازی تُمہاری رائے ہمارے لیے نشان راہ ہے ۔جو مشورے تُم نے ہمیں دیئے وہ بہت عمدہ ہیں ۔ ‘‘
ا س کے بعد انہوں نے جلسے کے شرکاء سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’ یہ شخص ( وزیر اعظم لیاقت علی خان ) پہلے میرے بارے میں یہ لکھتا رہا ہے۔اور آج ان کی خود غرضی ہے کہ میرے بارے میں یہ باتیں کہی جا رہی ہیں۔‘‘ اس پر لوگوں نے لیاقت علی خان کے خلاف نعرے لگائے تھے۔مولانا کے حُسین شہیدسہروردی سے بہت زیادہ اختلافات تھے ۔لیکن انہوں نے میانوالی پہنچ کر مولانا نیازی ؒ کو پیغام بھجوایا کہ میں میانوالی پہنچ گیا ہوں اگر کوئی جلسہ وغیرہ کرنا ہے تو میں حاضر ہوں ۔ میں تمہارے حق میں تقریر کروں گا ۔ مولانا نے شکریہ کے ساتھ یہ پیشکش بھی واپس کردی تھی ۔ مولانا نے مسلم لیگ کے اُمیدوار کو شکست دی تھی ،جس پر حسین شہید سہروردی نے کہا تھا کہ ’’ میں میانوالی کے ان لوگوں کو دیکھنے کے لیے وہاں گیا تھا جو مولانا نیازی کو ووٹ دیتے ہیں ‘‘۔
آج پھر مولانا عبد الستار خان نیازی ؒ کے حلقے میں اُن کے اُس جانشین عمران خان کو اسی قسم کی صورتحال کا سامناہے جس کا سارا خاندان ہمیشہ سے مسلم لیگی رہا اور اکرام اللہ خان نیازی مرحوم آخری دم تک مولانا نیازی ؒ کے پشتیبانوں میں شامل رہے تھے۔