... loading ...
امریکا، بھارت اور اْن کے بہت سے پْرجوش اتحادیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں پاکستان کا نام ادارے کی گرے لسٹ میں فوری طورپر شامل نہیں کیا گیا اور پاکستان کو اس ادارے کے اطمینان کے مطابق اقدامات کے لیے تین ماہ کی مہلت مل گئی ہے، اِس ضمن میں بھارتی پروپیگنڈہ بھی جھوٹ ثابت ہوگیا جو اس نے فیصلے سے پہلے ہی شروع کردیا تھا کہ پاکستان کو فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے، تین روزہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا نام دہشت گردوں کی معاونت کی واچ لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا اسلام آباد کو دہشت گردی کے لیے منی لانڈرنگ روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے مطلوبہ اقدامات اْٹھانے میں ناکامی پر اس کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
امریکا اور برطانیا نے انسداد منی لانڈرنگ کے ادارے کے اجلاس میں پاکستان کا نام دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کئے جانے کی تجویز پیش کی تھی کسی قسم کے فیصلے سے پہلے ہی برطانوی اور بھارتی میڈیا نے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کرنے کی خبریں دینا شروع کر دی تھیں تاہم ادارے کے ترجمان نے کہا کہ وہ فہرست میں شامل کی جانے والی خبروں کے ذمے دار نہیں۔ جمعہ کے روز سارا دن جب ادارے کا اجلاس ابھی جاری تھا اور اعلامیہ بھی سامنے نہیں آیا تھا بھارتی میڈیا اور کئی عالمی خبر رساں ادارے ایسی خبریں دیتے رہے کہ پاکستان کو فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے اس بنیاد پر تجزیوں کی بودی عمارتیں بھی کھڑی کی جاتی رہیں، اب حتمی فیصلہ سامنے آیا ہے تو صورتِ حال واضح ہوگئی ہے کہ جون میں اس ادارے کے اگلے اجلاس تک پاکستان کو بعض اقدامات کے لیے کہا گیا ہے، جو اطمینان بخش ہونے کی صورت میں نام واچ لسٹ میں ڈالنے کی نوبت ہی نہیں آئیگی تاہم امریکا اس دوران اْن دوست ملکوں پر دباؤ ڈالتا رہے گا جن کی مخالفت کی وجہ سے فہرست میں پاکستان کا نام نہیں ڈالا گیا اِس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اپنے ان دوستوں کو اپنے ساتھ کھڑا رہنے کے لیے تیار رکھیں بلکہ سفارتی کوششوں کو تیز تر کرتے ہوئے اْن اقدامات سے آگاہ کریں جو اب تک دہشت گردی کے خلاف کئے گئے ہیں، بھارت کو وقتی طور پر تو ناکامی ہوگئی ہے لیکن اس کی سرگرمیوں سے مستقل طور پر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ وہ کہیں جون تک امریکا پر دباؤ ڈال کر اس کے ذریعے پاکستانی دوستوں کے یقین و اعتماد کو ڈگمگانے میں کامیاب نہ ہوجائے۔
پاکستان اس سال جون تک دہشت گردوں کی مالی امداد کی نگرانی اور خاتمے کے لیے مربوط لائحہ عمل تیار کرناہے اگرایسا نہیں کیا گیا تو پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کے فہرست کی بلیک کیٹیگری میں شامل کیے جانیکا امکان ہے۔ کیوں کہ پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے حوالے سے جون میں پاکستان پر گرے کی بجائے بلیک کیٹیگری کی تلوار لٹکنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔37 ممالک پر مشتمل فنانشل ایکشن ٹاسک فورسز (ایف اے ٹی ایف) کی گزشتہ ہفتے پیرس میں اجلاس ہوا جس میں ملک کو گرے لسٹ میں ڈالے جانے کا امکان تھا تاہم اجلاس کے آخر میں جاری اعلامیے میں پاکستان کا نام لسٹ میں شامل نہیں تھا۔ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جاری اعلامیے کے بعد اسلام آباد میں اعلیٰ حکام نے مذکورہ فیصلے کو ’آکسیجن ‘ قرار دیا تھا۔
یادرہے کہ رواں ماہ کی وسط میں امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے عندیہ دیا تھا کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ قوانین میں سختی اور انسداد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ‘غیر موثر حکمت عملی’ ہونے کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف میں امریکا، پاکستان کو عالمی دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے میں ناکام ہونے والی ریاست کی فہرست میں شامل کرنے کی قرارداد پیش کرے گا۔پاکستان کے خلاف امریکی قرارداد کو برطانیا، فرانس اور جرمنی کی حمایت بھی حاصل ہے۔
نجی چینل کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی جانب سے مذکورہ فیصلے کی روشنی میں اسلام آباد کو ہدایت کی گی ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عمل پیرا ہونے کے لیے اقدامات اٹھائے۔پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کی فہرست میں شامل کرنے سے متعلق پہلا اجلاس 20 فروری کو پیرس میں منعقد ہوا جس میں چین ، ترکی اور سعودی عرب نے ملک کو ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں ڈالنے کی مخالفت کی لیکن بعدازاں امریکا کے دباؤ پر 22 فروری کو دوبارہ اجلاس منعقد ہوا۔اسی دوران امریکا نے سعودی عرب کو پاکستان کے حق میں دستبردار ہونے کی شرط پر ایف اے ٹی ایف کی فل ممبرشپ کا وعدہ کیا جس کے بعد صرف دو ممالک چین اور ترکی باقی بچے جبکہ کسی بھی قرارداد کو روکنے کے کم از کم تین ممالک کی مخالفت ضروری ہوتی ہے۔ایک اور اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ اس موقعے پر ’چین نے اسلام آباد کو آگاہ کیا کہ وہ اس کی مدد کرکے عالمی دنیا کے سامنے ناکام نہیں ہونا چاہتا‘ جس پر پاکستان نے چین کے موقف کی تائید کی اور ترکی کی جانب سے بھرپور حمایت اور مدد پر شکریہ ادا کیا۔
20 فروری کے اجلاس کے بعد پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے جشن منانے والے انداز میں ٹوئٹ کیا کہ پاکستان کو 3 ماہ کی مہلت مل گئی اور ایک ہی گھنٹے بعد امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے واشنگٹن میں پریس بریفنگ میں کہا کہ ’اسلام آباد کا جشن بچکانہ ہے، پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے سے متعلق اگلا اجلاس 22 فروری کو ہوگا۔
اس سے قبل رواں برس صدر ممنون حسین کی جانب سے انسدادِ دہشت کردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کرتے ہوئے آرڈیننس جاری کیا جس کے مطابق اب اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل (یو این ایس سی) کی فہرست میں شامل کالعدم تنظیموں، دہشت گردوں اور مطلوب افراد کے خلاف پاکستان میں بھی کارروائی کی جاسکے گی۔اعلیٰ عہدیدے پر فائز سرکاری افسر نے بتایا کہ پاکستان مئی میں اپنا نیا ایکشن پلان جمع کرائے گا اور ایف اے ٹی ایف جون میں پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ پلان کا جائزہ لے کر ملک کو واچ لسٹ میں ڈالنے کے حوالے سے فیصلہ کرے گا۔
امریکا کی جانب سے پاکستان کے حامی ملک سعودی عرب کو لالچ دے کر حمایت سے دستبردار کرنا خالصاً سیاسی اختلاف تصور کیا جارہا ہے۔دوسری جانب بھارت کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ اس سلسلے میںاسٹیٹ بینک کے سابق گورنر کا کہناتھا کہ ’جغرافیائی سیاست پر مبنی ایجنڈا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، امریکا افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر پشیمان ہے اور بھارت امریکا کی خارجہ پالیسی پر بھر انداز میں عمل پیرا ہے اور پاکستان کو ایسے وقت میں دیوار سے لگانے چاہتا ہے جب ملک بیلنس آف پے منٹ کے تلخ مرحلے سے گزر رہا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک عالمی ادارہ ہے جو جی سیون (G-7) ممالک کے ایما پر بنایا گیا کہ جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کی نگرانی کرتا ہے تاہم پاکستان اس ادارے کا براہِ راست رکن نہیں ہے۔
مذکورہ غیر سرکاری ادارہ کسی ملک پر پابندی عائد کرنے کے اختیارات نہیں رکھتا لیکن گرے اور بلیک کیٹیگری واضع کرتا ہے۔انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے خلاف قابل قدر اقدامات کی صورت میں اس ملک کو گرے کیٹیگری میں شامل کیا جاتا ہے جبکہ کسی ملک کی جانب سے منی لانڈرنگ کے خلاف کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو اْسے بلیک کیٹیگری میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے بعد بین الاقوامی سطح پر زرِمبادلہ کی نقل و حرکت اور ترسیل میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
یادرہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں 2012 میں ڈالا گیا بعدازاں اسلام آباد کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی پر ایف اے ٹی ایف نے تصدیق کی اور پاکستان کو 2015 میں واچ لسٹ سے نکال دیا گیاتھاجس کی تصدیق بھی کی جاچکی ہے ۔اس باربھی خطرہ ٹلانہیں کسی حدتک دورضروری ہوگیاہے ۔ پاکستان کواس حوالے سے صرف تین ماہ میں اقدامات کرناہوںگے ورنہ صورت حال انتہائی خطرناک ہوسکتی ہے ۔