... loading ...
ریاض احمد چوہدری
اگر ہم عاصمہ جہانگیر کے ماضی کا تجزیہ کریں تو وہ پاکستان میں کئی حوالوں سے انتہائی متنازع رہی ہیں۔ چاہے مذہبی معاملات ہوں یا پاک بھارت تعلقات۔ حکومت اور عدلیہ کے مابین مبینہ رسہ کشی ہو یا نام نہاد انسانی حقوق، عاصمہ جہانگیر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان میں اسلامی نظام اور اسلام پسندی کو مختلف نام دے کر اس کی شدید مخالفت کی ہے جبکہ مغرب نوازی اور اسلام مخالف اقدام کو انسانی حقوق کا معاملہ قرار دے کر نہ صرف اس کی بھر پور حمایت کی بلکہ بعض اوقات پاکستانی قوانین کو توڑنے سے بھی گریز نہیں کیا جس کی واضح مثال چند سال قبل ہونے والے میرا تھن مقابلے اور عاصمہ جہانگیر کے بیانات اور اقدام ہیں۔
عاصمہ جہانگیرکا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو اکثر اوقات ایسی سرگرمیوں میں شامل رہیں جس کا ملک کو فائدے سے زیادہ نقصان ہوا۔ بظاہر وہ انسانی حقوق کی علمبردار رہیں لیکن سچ یہ ہے کہ وہ صرف اْن لوگوں اور معاملات کے لیے آواز اٹھاتی جس میں شہرت پانے کے امکانات زیادہ ہوں اور بین الا قوامی تعریف و توصیف پانے کے بھی، چاہے ملک کا نقصان ہو۔
پاکستان کے اندرونی معاملات کی طرح بین الاقوامی معاملوں میں بھی پاکستان کی سبکی اور تضحیک کا باعث بنیں۔ بمبئی حملوں اور سمجھوتہ ایکسپریس والے معاملے پر عاصمہ جہانگیر نے پاکستانی موقف کے برعکس انڈین موقف کی تائید کی اور بغیر کسی ثبوت کے خود پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے آئی ایس آئی کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ کچھ عرصے بعد جب ثابت ہو گیا کہ ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ انڈین انٹیلی جنس کا کرنل پروہت تھا اور انڈین انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس اس میں شامل تھی عاصمہ جہانگیر بدستور اپنی ضد پر قائم رہیں اور پاکستان کو ہی ان حملوں میں ملوث قرار دیتی رہیں۔
سری لنکن حکومت سے برسرپیکار ایک دہشت گرد تنظیم تھی جسکی فنڈنگ انڈیا سے ہوتی تھی اور اسکا صفایا کرنے میں پاک فوج نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے انہیں نئی ذمہ داری سونپی کہ سری لنکا میں تامل تحریک کے خلاف حکومت کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف تحقیقات کرے۔ان کے ساتھ اس کمیٹی میں فن لینڈ سے سابق صدر مارتھی اور نیوزی لینڈ سے سیلویا کارٹی رائٹ بھی شامل تھیں۔ اس تین رکنی کمیٹی نے سری لنکا میں چلنے والی علیحدگی پسند تحریک لبریشن ٹائیگر آف تامل ایلام اور حکومت کے درمیان آخری معرکوں کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق تحقیقات کرنا تھیں۔ سری لنکا کی حکومت اِن تحقیقات کی مخالفت کر رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ مخالفت ہو گی کہ اگر عراق اور افغانستان میں امریکی جنگی جرائم پر بازپرس بھی نہ ہوکہ کتنے سویلین مارے گئے کتنے بچے قتل کیے گئے کتنی عورتوں کی بے حرمتی کی گئی لیکن اقوام متحدہ کی نظر اس طرف نہیں گئی اورنہ امریکا پر کوئی پابندی لگی نہ جرمانہ کیا گیا۔ کشمیر میں بھارت کے جرائم پر تو عاصمہ جہانگیر نے کبھی کسی تکلیف کا اظہار کیا نہیں بلکہ بال ٹھاکرے کے ساتھ بڑے فخر سے گفتگو اور فوٹو سیشن کرتی رہیں، بھارتی مسلمانوں کے خلاف کبھی اْس کے جرائم پر تحقیقات کا مطالبہ تک نہیں کیا۔
اقوام متحدہ نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان اور سری لنکا دوست ممالک ہیں، جان بوجھ کر پاکستان سے ایک شخصیت کو ان تحقیقات کے لیے چنا اور اگر کسی پاکستانی شخصیت کو ایسی کوئی پیشکش کی بھی گئی تو کیا انہیں نہیں چاہیے تھا کہ وہ سوچتی کہ پاکستان اگر چند دوست رکھتا ہے تو ان میں سے بھی ایک کو ناراض کیسے کر دیا جائے۔
ان محترمہ نے بنگلہ دیش میں بھی یہی کچھ کیا کہ وہاں ٹیلی وژن چینل پر بیٹھ کر انہوں نے پاک فوج کے احتساب کا مطالبہ کیا کہ اس نے بنگالیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ۔مگر یہ کہتے ہوئے وہ مکنی باہنی اور بھارت کے مغربی پاکستانیوں پر مظالم کا ذکر کرنا بھول گئیں۔دراصل بنگلہ دیش کے قیام میں ان کے والد بھی شامل تھے تو وہ کیسے والد کو غلط قراردیتیں۔ وطن اور پاک فوج کی عزت و تکریم سے زیادہ والد کی عزت کا پاس کیا۔
عاصمہ جہانگیر نے 1982 میں جنرل ضیاء کے اسلامی قوانین نافذ کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔ موصوفہ نے اسلامی قوانین کو دقیانوسی قرار دیتے ہوئے عصر حاضر کے تقاضوں کے خلاف کہا اور ان میں تبدیلیاں کرنے کا مطالبہ کیا۔ 12 فروری 1983 میں عاصمہ جہانگیر نے اپنے ساتھی وکلاء کے ساتھ مل کر’’ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ’’ والے اسلامی قانون کے خلاف احتجاج کیا۔
اس دین دشمن خاتون کے اسلام کے نام سے ہی بغض کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کلمہ طیبہ اور بنیادی عقائد کے بارے میں سوالات پوچھے جانے پر سیخ پا کہتی کہ ’’ الیکشن کمیشن کے دفتر میں امیدواروں سے کلمہ اور قرآنی دعائیں سننا غلط ہے۔ الیکشن کمیشن ان کے کاغذات جمع کرتا ہے یا اسلامیات کی کلاس کھول کر سبق سنتا ہے‘‘۔
مسلمان کہلوانے والی یہ لادین خاتون ماتھے پر ہندوانہ تلک لگائے مہا بھارت کے درس اور پوجا پاٹ میں بھی موجود رہیں اورہندو رسومات کی ادائیگی بھی عین اسلامی رواداری اور انسان دوستی کا مظاہرہ سمجھتی رہیں۔ کچھ حیرت نہیں کہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد جیسی ننگِ اسلام بھی انہیں ہی اعلی ایوارڈوں سے نوازتی ر ہیں۔ یہی وہ خاتون ہیں جو قائد اعظم کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معزز شہری اور نام نہاد دانشور بھی ہیں مگر بھارتی ایوانوں میں مہاتما گاندھی جی کی تصویر کو پرنام کرتی بھی نظر آتی ہیں۔ اپنے مغربی آقاؤں کے ہر اسلام دشمن مہرے سے ان کی ازلی و ابدی وفا کا یہ عالم ہے کہ احمد آباد گجرات میں بھارتی مسلمانوں کو زندہ جلا دینے والے سفاک قاتل نریندرمودی کو تحائف دینا بھی مہا پن گردانتی رہیں۔