... loading ...
(آخری قسط)
بابری مسجد سے متعلق مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کی ’’شاذرائے‘‘پیش کرنے پر عوامی حلقوں کا شدید ردعمل بالکل حیرت انگیز نہیں تھا مگر مسلم پرسنل لابورڈ نے حیدرآباد کے اجلاس میں مولاناکوبورڈ سے اخراج کرکے اپنے دیوالیہ پن کا مظاہرا کیا ۔حیرت یہ ہے کہ بورڈ میںہندوستان کے چوٹی کے علماء اور دانشور شامل ہونے کے باوجود اس طرح کا افسوسناک فیصلہ بعض سازشی عناصر کی کوششوں کے نتیجے میں لے کر بورڈ کی پہلے سے خراب شبیہہ کومزید بگاڑنے کا ذریعہ بنا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مولانا نے بورڈ سے مختلف رائے دیکر کون سا گناہ یا جرم انجام دیدیا جس کی سزا بورڈ کے اصولوں کے مطابق یہ ہو ۔شایدآل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ یہ بھول چکا ہے کہ اس کا اصل کام ’’مسلم پرسنل لا‘‘کا تحفظ ہے اور مولانا نے یہ رائے بابری مسجد سے متعلق دی ہے پرسنل لا سے متعلق نہیں اور اگر بحیثیت عالم ،رہنما اور لیڈر کے وہ پرسنل لاسے متعلق رائے دے بھی دیں تو بھی اسے ’’اخراج‘‘کا کیس کسی بھی طرح بنتا ہوا نظر نہیں آتا ہے ۔مولانا نے جب پرسنل لا سے جڑے تین طلاق پر بورڈ کے بالکل برعکس رائے دیدی تب بورڈ میں کسی کی رگِ حمیت نہیں پھڑکی اور پھر سب سے بڑا المیہ یہ کہ ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘کے نائب صدر اور معروف ’’شیعہ عالم ڈاکٹر کلب صادق صاحب‘‘نے نیوز18چینل کو انٹرویو دیتے ہو ئے’’ اجودھیا میں ودیا مندر‘‘ بنانے کی رائے پیش کی اور اخبارات میں شائع ہوئی تو بورڈ ممبران میں سے ایک نے بھی اس پر ناراضگی نہیں جتائی !پھر مولانا سید سلمان ندوی صاحب کے خلاف ہی اتنا غم و غصہ کیوں ؟یہی وجہ ہے کہ میرے سمیت بہت سارے نوجوان اور بزرگ مولانا کے معاملے میں بورڈ کی جانب سے اپنائے گئے دوہرے میعار کو شک کی نظر سے دیکھتے ہو ئے اسے ایک سازش قرار دیتے ہیں جیسا کہ بورڈمیں شنوائی سے قبل ہی مولانا کو ناصرف بورڈ سے نکالنے کا مطالبہ سامنے آیا بلکہ ظفر یاب جیلانی صاحب کے اعلان کے بعد بورڈ ممبران نے جشن مناکر نعرے بلند کیے گویا کہ بورڈ نے مولانا کی رکنیت ختم کر کے کوئی قلعہ فتح کیا ہو ۔پھر سب سے افسوسناک یہ کہ بعض بورڈ ممبران نے مولانا کو آر ایس ایس کا ایجنٹ قرار دیکرآپ اپنے چہروں پر کالک ملنے کی شرمناک کوشش کی اور کسی نے ان بے شرموں کو ٹوکنا گوارا نہیں کیا تو کیا ان کی خاموشی کو تائید تصور کیا جائے گا؟اسی سے حوصلہ پاتے ہوئے بعض کمینوں نے ٹیلی ویژن چینلز پر آکر اب ناقابل یقین الزامات عائد کرنے کا آغاز کیا ہے ۔
مولانا کے خلاف پروپیگنڈا کے ڈانڈے بہت دور تک ملتے ہیں ۔بہت سوں کے دلوں میں مصر میں اخوان المسلمون کے قتل عام پر عالم عربی کی بالعموم اور خلیجی ممالک پر بالخصوص تنقید کرنا اس قدر ناگوار گذری کہ وہ مولانا سے انتقام لینے کے انتظار میں بیٹھے بس گھٹ گھٹ کر مرنے ہی والے تھے کہ گویا بورڈ نے ان کے زخموں پر مرہم رکھدیا ۔علمائِ عجم میں مرشدی حضرت علامہ سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کے بعد عالم عربی میں علم و تفقہ اور غیرت و حمیت کے حوالے سے جو شہرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب کو نصیب ہوئی ہے سے بعض لوگ خار کھائے آپ اپنے غضب میں پھٹے جا رہے تھے یہاں تک کہ تمام تر’’ مفادات و مراعات کی آفروں‘‘ کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہو ئے مظلومین کے ساتھ کھڑے ہو کر سلمان ندوی صاحب نے حسینی النسل ہونے کا ثبوت فراہم کیا جبکہ ٹھیک اسی قتل عام کے بیچ بہت ساروں نے عربوں کے حق میں فتوے دیکر یا خاموش رہ کر ٹھیک ٹھاک مال کما کر اپنی اصلیت بھی ظاہر کردی ۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مولانا اگراخوان کے قتل عام پردوسروں کی طرح خاموش رہتے تو نا صرف یہ کہ وہ ’’عالم عربی کے چہیتوں‘‘میں سر فہرست ہو تے بلکہ دوسروں کے مقابلے میں تحائف و ہدایا وصولنے میں بھی سب سے آگے ہوتے مگر ان کے ضمیر نے یہ گوارا نہیں کیا ۔انھوں نے جس طرح فلسطین ، افغانستان ، عراق ، شام،یمن اور دیگر مظلومین پر ہو رہے ظلم و جبر پر ہر وقت احتجاج کیا اسے بڑھکر عالم عربی کی اسلامی تحریکات میں سرخیل اخوان المسلمون پر ہو رہے مظالم پر احتجاج کر کے صحیح معنوں میں علامہ مرشدی ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کے سچے پیروکاروں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے عاشقوں میں اپنا نام سنہری حروف میں رقم کر کے ایک مثال قائم کی ۔ مولانا اس سب کے باوجود معصوم نہیں ہیں بلکہ ایک بشر ہیں اور انسان سے سوچنے ،سمجھنے اور نتائج اخذ کرنے میں غلطی کا امکان موجود رہتا ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ جو مسلمانوں کا ایک غیرسرکاری ادارہ ہے کا رویہ اگر ایک معزز ممبر کے ساتھ ایسا سوتیلا اور افسوسناک ہو سکتا ہے تو انہی ہاتھوں میں ریاست ہو تو ہم جیسے عام انسان ان سے کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہیں ؟ ۔
(ختم شد)