وجود

... loading ...

وجود

افغانستان اور مشرق وسطی میں آخری صلیبی جنگ کا عروج

هفته 24 فروری 2018 افغانستان اور مشرق وسطی میں آخری صلیبی جنگ کا عروج

(قسط نمبر:4)
جیکب
شیف نے ہمیشہ اپنی دولت اور اثر رسوخ کو ’’اپنے لوگوں‘‘ کے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ اس نے روس کے شاہی خاندان کے دشمنوں کو امریکا کی مالیاتی مارکیٹ میں بیٹھ کر زبردست مالی امداد مہیا کی اور اس طرح نیویارک میں بیٹھ کر اس نے زار روس کی حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں پر کیتھولک اور آرتھوڈکس عیسائیت کو وہ ضرب لگائی جس کا زخم تاریخ میں شاہد کبھی مندمل نہ ہوسکے اپنی زندگی کے آخری سال یعنی 70ویںسالگرہ کے موقع پر امریکا کے تمام بڑے صہیونیوں نے مل کر جیکب شیف کی ’’خدمات‘‘ کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اسے ان ’’خدمات‘‘ کی بنا پر زبردست خراج تحسین بھی پیش کیا تھا۔

لیون ٹروٹسکی کا اصل نام ’’برونسٹین Bronstein‘‘ تھا ۔ یہ13جنوری1917ء کو روس سے ہجرت کرکے نیویارک میں وارد ہوا تھا۔ یہاں پر پروجیکٹر فلم اسٹوڈیو جو بروکلین میں واقع تھا روسی یہودیوں کی ملکیت میں تھایہیں پر ٹروٹسکی کو نوکری دی گئی۔ اس نے یہاں تین فلموں میں کام کیا جن میں سے ایک فلم ’’مائی آفیشل وائف‘‘ بھی ہے اس فلم میں ٹروٹسکی کے ساتھ مشہور ہالی وڈ اداکارہ کلارا کیمبل نے بھی اداکاری کی تھی ٹروٹسکی روسی انقلابیوں کے ساتھ کام کرچکا تھا اس لیے جب وہ نیویارک آیاتو اس نے جیکب شیف سے ملاقات کی تھی جس نے ٹروٹسکی کے اندر چھپی ہوئی ’’صلاحتوں‘‘ کو بھانپ لیا تھا ۔

’’فرینڈ آف رشین فریڈم‘‘ کے نام سے وابستہ جیکب شیف کے بہت سے روسی یہودی امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔ اس وقت جیکب شیف نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے امریکی صدر ویلسن Woodrow Wilsenکے ساتھ رابطہ کرکے ملاقات کا وقت حاصل کیا اور امریکی صدر کو قائل کیا کہ وہ روس کے خلاف کام کرنے والی اس تنظیم کے جلا وطن افراد کو امریکی پاسپورٹ جاری کرنے کا حکم دیں اس طرح انہیں ان پاسپورٹوں پر روس میں داخل ہونے سے نہیں روکا جاسکے گا اس کے ساتھ ہی جیکب شیف نے ٹروٹسکی کو اس وقت دس ملین ڈالر کی خطیر رقم مہیا کی جو آج کے حساب سے بیس بلین ڈالر سے بھی زیادہ کی رقم بنتی ہے۔اس کے ساتھ ہی جیکب شیف نے 15ملین ڈالر کی رقم کمیونسٹ پارٹی کے یہودی سربراہ ولادیمیر لینن کو ارسال کی۔”The Jewish Communist Register” of New York’s Kehillah (Community government),1918. Edition”

یہ سب اہتمام اس لیے کیے جارہے تھے کہ امریکا ، یورپ اور سابق روسی سلطنت عیسائیت کی قوت کے سب سے بڑے نشان کے طور پر سامنے آئے تھے ، یہودی ان ہی علاقوں میں زیادہ تر بکھرے ہوئے تھے کیتھولک اور آرتھوڈکس عیسائیت کے نزدیک یہودیوں کا وجود زیادہ قابل قبول نہیں ہوتااس لیے ان علاقوں میں عیسائیت کا زور توڑنے کے لیے صہیونیوں نے کمیونزم کی چال چلنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہاں کی ’’انتہاء پسند یہود مخالف عیسائیت‘‘ کو دبانے کے لیے لادینیت کا سہارا لیا جائے اسی طرح مذہب کے نام پر یہودیوں کی مخالفت کو بالکل ختم کیا جاسکتاکہ ’’اعتدال پسند اور روشن خیال ‘‘ پروٹسٹنٹ عیسائیت کے علاقوں جس میں برطانیا اور امریکا سر فہرست ہیں وہاں پر اپنا تسلط قائم کیا جاسکے یوں عقائد کے معاملے میں سخت علاقے یا ملک تھے انہیں کمیونزم کے چکر میں ڈال دیا گیا تاکہ اس دوران امریکا اور مغربی یورپ پر صہیونی قبضہ مستحکم کیا جاسکے۔فکری سطح پر ان شیطانی سازش کے لیے چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا سہارا لیا گیا اسی نظریہ کو صہیونی مفکر کارل مارکس نے اخذ کرلیا جو آگے جاکر کمیونزم کے اساسی افکار میں سے ایک قرار پایانظریہ ارتقاء کی اسی ہولناکی کو اطالوی آمر میسولینی اور جرمن آمر اڈولف ہٹلر نے اختیار کیا تھا کہ کمزور انسانی نسلیں بقاء کی صلاحیت نہیں رکھتیں اس لیے ان کے علاقوں پر تسلط قائم کرلیا جائے۔ مسلمان نوجوانوں کو اس بات کو ہمیشہ ذہین نشین رکھنا ہوگا کہ ہٹلر اور میسولینی کو بھی اقتدار میں لانے والے یہی عالمی صہیونی ساہوکار تھے۔ دنیا کے بڑے ممالک میں نقب لگانے کے لیے صہیونیوں نے بہت سی نظریاتی جماعتیں بھی بنا رکھی تھیں ان میں سے ایک جیوش سوشلسٹ فیڈریشن بھی قائم کی گئی تھی جس کا قیام 1912ء میں عمل میں لایا گیا تھاامریکا کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں یہودیوں کے لیے جس نے سب سے زیادہ کام کیایہ تنظیم صہیونیوں کی دیگر دوسری تنظیموں سے الگ ہوکر بنائی گئی تھی جس میں جیوش سوشل موومنٹ بھی شامل تھی اس کے علاوہ امریکا میں Bundنامی تنظیم کا قیام بھی یہودیوں کی وجہ سے عمل میں لایا گیاتھا یہ تنظیم جرمنی میں نازی حکومت کیطرفدار کہلاتی تھی۔

جس وقت بین الاقوامی کمیونزم کی ابتداء کی گئی اس سے ذرا پہلے امریکا، برطانیا، آسڑیا میں ایسی سوسائٹیاں قائم کی گئیں تھیں جو کمیونزم کی عالمی تحریک کا ساتھ دے سکیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس کی ترویج کا کام کیا جاسکے۔ اس سلسلے میںبرطانوی انتداب کے دوران فلسطین میں بھی ایک سوسائٹی بنائی گئی تھی۔ترکی میں ایک سوسائٹی پولے زائنPoale-Zoin کے نام سے موجود تھی اسے ترکی کی سوشلسٹ پارٹی کا حصہ تصور کیا جاتا تھا اس پارٹی کا کام تھا کہ بین الاقوامی سوشلسٹ موومنٹ کے ذریعے صہیونیت اور عالمی سطح پر یہودی مقاصد کی تکمیل کی جاسکے۔Poale-Zoin کا سب سے بڑا کارنامہ مقبوضہ فلسطین میں ایک تنظیم حاشومرجس کے معنی انگریزی میں The Watchmanکے ہیں قائم کی اس تنظیم میں تمام کے تمام ارکان صحت مند جوان رکھے جاتے تھے جو عربوں کے خلاف استعماری ارکان کی جائدادوں کی حفاظت کیا کرتے تھے۔ 1907ء میں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں صہیونی کانگریس کے دوران Poale-Zoin کے بہت سے وفود نے شرکت بھی کی یہاں پر دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ Poale-Zoin Weltverbandکے نام سے عالمی تنظیم تشکیل دی گئی جس کا کام تھا کہ سوشلسٹ اور صہیونی دنیا میں Poale-Zoinکے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔اس تنظیم کے انتظامی ڈھانچے کو چلانے کے لیے دنیا میں موجود تمام یہودیوں سے فنڈز اکٹھے کیے جاتے تھے۔ انگلش لیبر پارٹی اور سوشلسٹ دنیا میں پراپیگنڈے کے ذریعے صہیونی لیڈروں کو محفوظ بنانے کا کام کیا گیا کیونکہ وہ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف حیثیتوں سے کام کررہے تھے۔

اس مختصر سے جائزے کے بعدعالمی صہیونیت کے اس جال کو سمجھنے میں آسانی کے ساتھ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور میں یہی صہیونیت جو ماضی میں مارکسٹ اورکمیونسٹ شکل میں روس کی عظیم عیسائی سلطنت تباہ کرچکی ہے اب اسلامی دنیا کی جانب پیش قدمی کررہی ہے اور اس نے اسلامی دنیا کے دروازے پاکستان پر دستخط دے دی ہے۔مارکس ازم میں صہیونیت کا جائزہ ایک عجیب تجربہ محسوس ہوتا ہے۔ روس کی یہودی آبادی مارکسی پارٹی کی ہی حمایت کرتی تھی اس کے علاوہ عالمی سطح پر روس کا حلیہ بگاڑنے کے لیے بہت سے خارجی لیڈر جن میں جدید صہیونیت کا بانی تھیوڈور ہرتزل اور اس کی صہیونی تحریک بھی شامل تھے جدوجہد کررہے تھے۔ہرتزل کا منصوبہ تھا کہ ایک ایسی مارکس ریاست کو سرمایہ مہیا کیا جائے جس میں تمام یہودی مارکسی نظریات کے حامل ہوں اس سلسلے میں افریقہ میں کینیا یا مڈغاسکر کے ملک بھی زیر غور رہے جبکہ صحرائے سینا اور مقبوضہ فلسطین ان ترجیحات میں دوسرے نمبر پر تھا۔ اس بات کو ذہین نشین رکھنا چاہیے کہ خود ’’جیوش کومونل رجسٹر‘‘ Jewish Communal Registerمیں واضح طور پر رقم ہے کہ صہیونی تنظیم اصل میں مارکسی تنظیم ہے کیونکہ جب یہودیوں نے حیفا کے شہر پر قبضہ جمایا تو اسے ’’ریڈ حیفا‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ۔مئی کے مہینے میں یہودی یہاں سرخ جھنڈوں کے ساتھ مارچ کرتے۔ سوویت یونین پہلا ملک ہے جس نے زیر زمین اسلحہ سمگلنگ کے ذریعے برطانوی انتداب کے دور میں یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں اسلحہ پہنچایا جس کے زور پر یہودیوں نے پہلے یہاں برطانویوں کے خلاف اس کے بعد عربوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا۔اس تمام کام کو امریکا میں بیٹھے ہوئے یہودی بینکارمددکررہے تھے اس سلسلے میں 1918ء کو امریکا کی خارجہ کمیٹی کی جانب سے بین الاقوامی یہودی بینکروں کے متعلق ایک رپورٹ شائع کی گئی جو کمیونزم کی تحریک کو مالی امداد مہیا کررہے تھے۔اس وقت کے تقریبا تمام بڑے بینک یہودیوں کی ملکیت میں تھے سویڈن کا یہودی اوولف ایشبرگ Olof Aschberg’’ نیابینکن‘‘ Nya Bankanنامی بینک کا مالک تھا جو آگے چل کر باشیوک بینک The Bolshevikبینک کا روپ دھار گیا اس بات کو ذہین میں رکھیں کہ اس بینک کو تمام مالی فنڈز امریکا کا ’’گارنٹی ٹرسٹ کمپنی‘‘ بینک دے رہا تھا یہ امریکی یہودی جیکب شیف کے کنٹرول میں کام کرتا تھا۔
(جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر