وجود

... loading ...

وجود

ا مریکیو ! صرف اور صرف مذاکرات

بدھ 21 فروری 2018 ا مریکیو ! صرف اور صرف مذاکرات

اب جب کہ افغانی طالبان نے ایک کھلے خط کے ذریعے امریکی عوام اور کانگریس کے ارکان کو مذاکرات کی دعوت دے دی ہے تو امریکیوں کو مذاکرات کرکے اپنی جان چھڑانے میں ہی بھلائی ہے اس سے نیٹو افواج کی بھی اشک شوئی ہوسکے گی کہ سبھی ممالک کی افواج عرصہ دراز سے افغانستان چھوڑنے کے لیے سامان باندھے بیٹھی ہیں اور مزید کسی ملک کی فوج افغانستان کے کارزار میں پہنچ کر مزید لڑائی کے لیے تیار نہ ہے امریکی بشمول دیگر ممالک کی افواج (نیٹو)افواج 17سال سے افغانستان کے پہاڑوں سے سر ٹکرا کر نڈھال ہو چکیں جب بھی امریکا و دیگر اتحادی ملکوں میں لاشیں واپس پہنچتی ہیں تو ان ممالک میں قیامت بیت جاتی ہے اور ان ممالک کے عوام اس نہ ختم ہونے والی جنگ سے سخت نفرت کرتے ہیں افغانستان کے اندر بیرونی افواج میں خود کشیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے کہ انہیں رات کو خوابوں میں بھی اپنی ذلت آمیز موت نظر آتی ہے وہ زیر زمین بنکروں میں ایسے دفن رہ رہے ہیں کہ سورج کی روشنی تک بھی دیکھنے کے لیے ہفتوں تک میسر نہیں ہوتی۔گویا وہ خود ساختہ قبروں میں بند رہ رہے ہیں۔

افغانیوں کی سابقہ صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے کسی حملہ آور کو آج تک قبضہ کرنے نہیں دیا جو بھی آیا اسے منہ کی کھانی پڑی اور ذلت آمیز شکستوں اور ہزاروں افراد کو جاں بحق کروا کر واپس جانا پڑا روس جیسی سپر طاقت کو بھی بالآخر وہاں سے بھاگ نکلنے میں ہی عافیت محسوس ہوئی روس تو افغانستان کا ہمسایہ ملک تھا وہ قابض نہ رہ سکے اور اپنے فوجیوں کی لاشیں سمیٹنے کے علاوہ انہیں کوئی کام نہ تھاانہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑاتو ہزاروں میل دور سے آکر امریکن وہاں کچھ بھی تو نہیں کرسکتے اپنا تھوکا کوئی خود چاٹنے کوتیار نہیں ہوتا اس لیے مسٹر ٹرمپ مودی کی شہہ پر میں نہ مانوں کی ڈگڈگی بجاتے رہتے ہیں پہلے تو پاکستان کی وساطت سے گلبدین حکمت یار وہاں وزیر اعظم نامزد ہو گئے تھے مگر وہاں موجود فرقوں قبیلوں کی نہ مٹنے والی لڑائیوں سے نظام درھم برھم ہو گیا تھا روس کی واپسی کے بعد امریکنوں نے مڑ کر بھی ادھر نہ دیکھا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ ڈالا تو نوجوان دینی اداروں کے طلباء طالبان کے روپ میں ابھرے اور بغیر کسی بڑے نقصان کے افغانستان پر قابض ہو گئے مختلف گروہی اور قبیلوں کی آپس کی جنگیں ختم ہوگئیں اور وہ اسلامی شریعت و قانون کے مطابق نظام قائم کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہو گئے غرضیکہ افغانستان اسلامی جمہوریہ بن گیا9/11کے بعد امریکا غراتے ہوئے انتقامی جذبات سے پُر پورے افغانستان پر حملہ آور ہو گیا اور ملاں عمر نے غیرت ایمانی کے تقاضوں کے تحت امریکیوں کو مطلوبہ افراد حوالے کرنے سے انکار کردیا اور بیشترراہنمایان وہاں امن ہوجانے پر عرصہ قبل ہی دیگر ملکوں کو سدھار چکے تھے۔

اب جبکہ کروڑوں اربوں ڈالرز خرچ کرکے بھی افغانیوں کو نیچا نہیں دکھایا جا سکا اور نیٹو کے نام سے مشترکہ افواج بھی تھک ہار کر شکست تسلیم کرچکی ہیں تو نئے کاروباری اور اسلام کے ساتھ بغض سے بھرے ہوئے دماغ رکھنے والے ٹرمپ کو اپنے پیشروکے اقدامات کی تائید کرتے ہوئے اپنی فوجوں کو نکال لینا چاہیے تھا مگر” نیا نوکر شیر مارے ” اور” مچھلی پتھر چاٹ کر ہی مڑتی ہے”کی طرح مزید افواج اتارنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہاں قابض ہو کر قیمتی دھاتوں کو لوٹ کر اس سے ذاتی سرمایہ بنا سکیں مگر” ایں خیال است و محال است و جنوں ” کہ افغانی تو آپ کو شکست سے دوچار کرچکے ستر فیصد سے زائد علاقوں پر ان کا مکمل قبضہ ہے اور بقیہ تیس فیصد پر وہ حملہ آور ہوتے رہتے ہیں حتیٰ کہ امریکنوں کی فوجی تنصیبات تک بھی ان کی دسترس سے باہر نہ ہوں تو جنگ و جدل میں شرمندگی اور لاشیں اکٹھی کرنے کے علاوہ بڑے سامراج کا آخر کیا کام باقی رہ جاتا ہے ؟ جنگوں کے دوران مذاکرات کے ذریعے جنگوں کے خاتمے کی روایات تاریخ کا حصہ ہیں کہ اسی طرح امن ممکن ہو سکتا ہے اتحادی افواج کے ذریعے افغانستان پر حملہ کرنے اس کی خود مختاری اور سا لمیت پر براہ راست حملہ تھا جس کا کوئی جواز نہ تھا امریکا ادھر غاروں پہاڑوں کے ملک میں دو صدیاں بھی مزید ٹامک ٹوئیاں مارتا اور سر ٹکراتا رہے تو اس کی کامیابی ممکن ہی نہیں ہو سکتی کہ افغانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سبھی حملہ آوروں کو ہلاک کرکے صرف ایک فوجی کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ واپس جا کر حملہ آور ملک کے لوگوں کو رو رو کر اپنی داستان ستم سنائے کہ ہم پر کیا بیتی اور کیسے سبھی فراد افغانیوں نے ہلاک کر ڈالے۔

ویسے بھی جمعیت اسلامی کے سربراہ حکمت یار کو واپسی کی اجازت دے ڈالی گئی ہے تو طالبان سے مذاکرات میں کیا امر مانع ہے ؟دوسری طرف پاکستان سے بھی مزید چھیڑ چھاڑ بند ہو جانی چاہیے کہ بالآخر اس کا اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان ہی بیرونی افواج کو وہاں سے بہ حفاظت نکال ڈالنے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے ٹرمپ اور مودی کی شہ پر موجودہ پیرس میں منعقد کیے جانے والی میٹنگ میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی شرمناک کوششیں بند ہونی چاہئیں کہ اپنے ہی دہشت گردی کے خلاف اتحادی پاکستان جس نے60ہزار سے زائد جانی قربانیاں دیں اسے اس طرح رگیدنا محیر العقول اور اچنبھا عمل ہوگا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر