... loading ...
کوئی ملک امیر کیسے بنتا ہے؟ کچھ بتا سکتے ہیںآپ؟ چلیے تفریح کے لیے ان چیزوں کی فہرست بنائیے جو آپ کے خیال میں کسی ملک کو دولت مند بنانے کے لیے ضروری ہیں، اور پھر ان کا مقابلہ کیجئے ان خیالات سے جو سترہویں اور اٹھارویں صدی کے ذہین لوگ اس موضوع پر لکھتے تھے۔ انہیں اس موضوع سے بہت دلچسپی تھی کیونکہ اس زمانے میں وہ ملک، یعنی قومی ریاست، کے حوالے سے سوچنے لگے تھے۔ ان کے سامنے سب سے بڑا سوال تھا کہ کیا وہ حالات جنہوں نے شہروں کو مال دار اور بڑا بنایا تھا، وہی پورے ملک کو مال دار بنا سکتے ہیں؟ سیاسی طور پر انہوں نے اس وقت قومی ریاست بنالی تھی، اب ان کو فکر تھی کہ معاشی طور پر بھی وہ اس ریاست کو عظیم اور خود مختار بنائیں۔ چنانچہ انہوں نے اس زمانے میں جو کچھ لکھا اور جیسے قوانین بنانے کے لیے سفارشیں کیں وہ سب پورے ملک کے حوالے سے تھیں۔ حکومتوں نے ایسے قوانین بنائے جن کے ذریعہ ان کے خیال میں پوری قوم مال دار اور طاقت ور بن سکے گی۔ قابل غور یہ بات ہے کہ اس مقصد کو نظر میں رکھتے ہوئے انہوں نے روزمرہ زندگی کے ہر پہلو کی نگرانی کی اور سوچ سمجھ کر اپنی رعایا کے طور طریقوں اور سرگرمیوں کو خاطر خواہ انداز میں ڈھالا اور تبدیل کیا۔ اس سلسلے میں جو نظریات اور قوانین وضع کیے گئے ان کو مورخ ’’سوداگروں کا نظام‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ کوئی باضابطہ نظام نہیں تھا جس کی پہلے کوئی تھیوری بنائی گئی اور پھر اس تھیوری پر عمل کیا گیا۔ بات ساری یہ تھی کہ حکومتیں ہمیشہ دیوالیہ اور مفلس رہتی تھیں۔
چنانچہ اس زمانے کے بڑے بڑے سیاستدانوں اور سوچ رکھنے والوں کے ذہنوں میںیہ خیال ایک فوری ضرورت بن کر ابھرا کہ آخر ملک دولت مند کیسے بنتے ہیں؟ ان کو کس قسم کی معاشی پالیسیاں اختیار کرنا چاہئیں کہ ان کی طاقت اور دولت میں اضافہ ہو؟ سولہویں صدی عیسوی میں غالباً ا سپین دنیا کا سب سے زیادہ مالدار اور طاقت ور ملک تھا۔ا سپین کی اس دور میں دولت مندی اور قوت کا راز ان سونے اورچاندی کے ذخائر میں مضمر تھا جو جنوبی امریکا میں اس کی نوآبادیوں سے ابل ابل کر آر ہے تھے۔ چنانچہ اس دور میں یہ اصول طے پایا کہ کسی ملک میں ان قیمتی دھاتوں کی جتنی مقدار ہوگی اتنا ہی وہ ملک دولت مند اور طاقت ور سمجھا جائے گا۔ ہم سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں مختلف ممالک میں ایسے قوانین کی بہتات دیکھتے ہیں جس میں سونے چاندی کو اپنے ملک کی حدود سے باہر لے جانے پر سخت پابندیاں لائی گئیں۔ لیکن اسی دور میں اس کے خلاف یہ احساس بھی ابھرنے لگا کہ یہ دھاتیں بذات خود جامد اور مردہ ہیں۔ یہ دولت اسی وقت پیدا کرتی ہے جب ان کو استعمال کیا جائے۔ اسی نظریے کے تحت انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی کے چارٹر میں باقاعدہ ایک دفعہ یہ بھی تھی جس میں کمپنی کو سونا چاندی باہر بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی ، اور جب سترہویں صدی میں بعض اہل قلم نے کمپنی کے چارٹر کی دفعہ پر اعتراض کیے تو کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ٹومس من نے کمپنی کی پالیسی کی حمایت میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ’’بیرونی تجارت سے انگریزی منافع‘‘ اس میں وضاحت کی گئی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی خام مال خریدنے کے لیے مشرقی ملکوں میں سونا چاندی بھیجتی ہے۔ یہ خام مال انگلستان سے یا دوسرے ملکوں سے بھیج دیا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں جو رقم ملتی ہے وہ اس رقم سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو باہر بھیجی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سونا اور چاندی کی پہلے سے زیادہ مقدار ملک میں واپس لوٹ آتی ہے۔ اس لیے ان اس نئے دور میں دولت بڑھانے کی یہی تدبیر ٹھہری کہ قیمتی چیزیں باہر بھیجی جائیں اور صرف ضرورت کی چیزیں اپنے ملک میں منگوائی جائیں اور ا س تبادلے میں اپنے مال کی جتنی قیمت بڑھے وہ نقد سکّے کی صورت میں وصول کی جائے۔ یہ تدابیر کامیاب بنانے کے لیے ضروری تھا کہ صنعت کی ترقی کی ہر امکانی کوشش کی جائے کیونکہ زرعی مال کی بجائے مصنوعات کی قیمتیں دوسرے ممالک سے زیادہ حاصل ہو سکتی تھی۔
اس دور میں یورپ کے ہر ملک میں صنعتی ترقی کے لیے زبردست بھاگ دوڑ شروع ہو گئی۔ اس مقصد کے لیے صنعتی میدان میں نئی نئی ایجادات لازمی ٹھہریں اور ان کی ضرورت اتنی شدت کے ساتھ محسوس کی جانے لگی کہ جرمنی کے علاقے بیوریا میں 1616ء میں ایک ’’برین ٹرسٹ‘‘ (ذہین اشخاص کا ایک گروہ) قائم کیا گیا تاکہ یہ نئی نئی ایجادات کے لیے غور و فکر اور تجربات کریں۔ ہم اس زمانے کے یورپ کے معاملات کو جتنا غور سے پڑھیں اتنا ہی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہاں اپنی برآمدات کو بڑھانے کے لیے جو اقدامات چار پانچ صدیاں پہلے اٹھائے گئے تیسری دنیا کے رہنے والے اب اٹھارہے ہیں۔ مثلاً سترہویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں جب برآمدات کا سلسلہ شروع ہوا تو یورپی حکومتوں نے اس دور میں باہر بھیجی جانے والی مصنوعات پرمالی امداد دینی شروع کی تاکہ بیرون ملک یہ اشیا سستے داموں اور زیادہ تعداد میں بیچی جا سکیں اور صنعت کار کو زیادہ سے زیادہ مصنوعات تیار کرنے کی شہ ملے اور بیرونی منڈی میںیہ مصنوعات دوسرے ملکوں کی اس جیسی دوسری مصنوعات کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کر سکیں۔ دوسری طرف اپنی مصنوعات کو بیرونی مصنوعات سے حفاظت دینے کے لیے یورپ کے ممالک نے حفاظتی محصول لگانا شروع کر دیا تاکہ باہر سے آنے والی اشیا مہنگی ہو جائیں اورملکی اشیا کا مقابلہ نہ کر سکیں۔
جب انگلستان میں جب کپڑے کی صنعت کاآغاز ہوا تو اس صنعت سے متعلق صنعت کاروں کے نمائندے نے حکومت کو ایک عرضداشت پیش کی جس میں درج تھا۔ ’’میرا خیال ہے کہ میں نے اچھی طرح ثابت کر دیا ہے کہ انگلستان اور آئرلینڈ میں کپڑے کی صنعت ابھی ابتدائی منزل میں ہے اس لیے اس کا سستا بیچنا ہمارے امکان سے باہر ہے۔ وہ لوگ جو عرصہ سے یہی کام کررہے ہیں اور ان کی صنعت کی بنیادیں پوری طرح جم گئی ہیں۔۔۔ ہم (اس شعبے میں) خصوصی حوصلہ افزائی کیے بغیر جلد کسی ترقی کی امید نہیں دلا سکتے۔‘‘ سترہویں، اٹھارویں صدی میں یورپی ملکوں نے اپنی اپنی صنعتوں کی ترقی کے لیے کارخانہ داروں کی مدد صرف سرکاری امداد اور بیرونی مصنوعات پر محصول اور پابندیاں لگا کر ہی نہیں کی بلکہ غیر ملکوں کے ایسے ماہر کاریگروں کو بھی، جو تجارت اور صنعت کی ترقی کے نئے نئے طریقے اور گر بتا سکیں، بلایا گیا اور انہیں اپنے ملک میں بسانے کے لیے تمام امکانی تدبیریں اختیار کی گئیں۔ ان کو ترغیب دی گئی کہ اگر وہ آکر بس جائیں گے تو ان سے کوئی بھی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ ان کو رہائش کے لیے مکانات دیے جائیں گے، ان سے کوئی کرایہ وصول نہیں کیا جائے گا، اور ان کو اپنے کاروبار کے لیے بطور قرض سرمایہ بھی مہیا کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر یہ کاریگر اور دستکار خوشی سے آنے کے لیے تیار نہ ہوتے تو حکومتیں کبھی کبھی ان کو اغوا کرنے سے بھی گریز نہ کرتیں۔ غرضیکہ اس دور میں بالکل ہمارے زمانے کی طرح حکومتیں صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہر ممکن امداد دینے کے لیے تیار رہتیں۔ دستکاروں کو بڑے کارخانوں کو لگانے کے لیے کثیر رقم بطور مالی امداد دینے اور دیگر مراعات کا اعلان کیا گیا۔ آج کل اسے سبسڈی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب اقتصادیات کی دنیا میںیہ نظریہ زور پکڑ رہا تھا کہ دولت تجارت کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے اور تجارت کا فروغ صنعتوں کے فروغ کے ذریعہ ہوتا ہے
رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...
لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...
پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...