وجود

... loading ...

وجود

افغانستان اور مشرق وسطی میں آخری صلیبی جنگ کا عروج

منگل 20 فروری 2018 افغانستان اور مشرق وسطی میں آخری صلیبی جنگ کا عروج

جس وقت نائن الیون کے ڈرامے کے بعد آخری صلیبی جنگ کا آغاز افغانستان پر حملے سے کیا گیا اس وقت نہ شروع کرنے والے اس بات سے واقف تھے کہ اس آخری صلیبی معرکے کا پہلا حصہ مغربیــ’’ فتوحاتـ‘‘ سے عبارت ہوگا نہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ اس جنگ کا انجام امریکا سمیت تمام مغربی قوتوں کی ہولناک شکست پر متنج ہے۔ یہ بات اب مکمل طور پر افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں واضح ہوچکی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا اگر افغانستان سے نکلتا ہے تو جاتے ہوئے وہ پاکستان کے ساتھ وہ ہاتھ نہ کرے جو ویت نام سے نکلتے ہوئے اس نے کمپوڈیا کا کیا تھا تو اس بات کے امکان اس لیے معدوم ہیں کہ نہ تو پاکستان کمپوڈیا ہے اور نہ جنوب مشرق ایشیا کی صورتحال جنوبی ایشیا کے معاملات سے اس وقت میل کھا رہی ہے۔ کابل میں ہونے والے افغان طالبان کے حالیہ حملوں نے امریکا سمیت تمام صہیونی دنیا کو جس انداز میں ہلایا ہے اس کا نتیجہ یقینا پاکستان پر الزام تراشی پر ہی ختم ہونا تھا ۔ ایسا اس لیے ہے کہ امریکا کی خواہش تھی کہ وہ افغانستان میں پوری طرح آگ لگا دے اس کے بعد امریکا کے اس گند کو صاف کرنے کے لیے پاکستان آگے بڑھے لیکن پاکستان نے ایک خاص سے آگے جانے سے انکار کیا اور ایسا اس لیے بھی ہے کہ خود پاکستان کو اس صہیونی جنگ میں گھسیٹنے کے لیے امریکا بھارت اور ان کی بین الالقوامی حلیف صہیونی قوتوں نے پاکستان کے اندر خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی اور یوں خود پاکستانی عسکری اداروں کو اس صہیونی سازش کے تحت پھیلائی جانے والی دہشت گردی سے خود نمٹنا پڑا جس میں ستر ہزار سے زائد پاکستانی فوجی جوانوں اور عام شہریوں کا خون بہا ہے۔

اس صلیبی جنگ کو دوسرا فیز سالوں کی منصوبہ بندی کے بعد مشرق وسطی میں کھولا گیا تھالیکن اب حالات وہاں بھی ہاتھوں سے نکل چکے ہیں۔ شام پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے بعد روس اور اسرائیل میں ایک طرف ٹھن چکی ہے ان حملوں میں 1980ء کے بعد شامی میزائلوں نمے پہلا اسرائیلی ایف 16طیارہ مار گرایا ہے جس نے اسرائیل کے دفاعی نظام میں بے چینی پیدا کردی ہے ظاہری بات ہے کہ یہ وہی دفاعی میزائل پروگرام ہے جو روس نے شامی کی بشار ا فواج کو مہیا کیا تھا۔یہ حالات اب کس جانب رواں دواں ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔تو دوسری جانب شمالی کردستان میں باغی کروڈوں کے خلاف ترک فوج میدان میں اتری ہوقی ہے عرب صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں جنگ درحقیقت ترکی اور اسرائیل کے درمیان لڑی جارہی ہے کیونکہ کردوں کی سیکولر تنظیم کے پیچھے اسرائیل فوری قوت کے ساتھ کھڑا ہے اور امریکا نیٹو سمیت اسرائیل کی پشت پرموجود ہے۔

اس تمام صورتحال میں مغرب کی صہیونی قوتوں کی مدد سے اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کا جزوقتی طور پر عالمی قوت کا اسٹیٹس قائم ہوجائے گا لیکن اس کے لیے امریکا کا زوال انتہائی ضروری ہے جو تیزی کے ساتھ اپنے انجام کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

ہم یہاں تاریخی شواہد سے صرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہود کی دوستی کبھی امن و سلامتی کے لیے نہیں ہوتی ان کے دماغ میں ہمیشہ سے ایک بات ڈال دی گئی ہے کہ وہ ’’اللہ کی پسندیدہ قوم ہے اور اسی نے دنیا پر حکومت کرنا ہے باقی تمام اقوام اور مذاہب اس کی چاکری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں‘‘ اس استعمارانہ فکر نے یہود کو ہمیشہ دنیا میں ذلت سے دوچار کیا مگر اب یہ گذشتہ سو برس کی کاوشوں کے بعد ایک مرتبہ پھر دنیا کے طاقتور ممالک کے سر پر سوارہوکر اسے یرغمال بنا چکے ہیں اس سلسلے میں مشرقی یورپ اور روس میںکیتھولک اور آرتھوڈکس عیسائیت کا زور توڑنے کے لیے یہود نے جس طرح پہلے کمیونزم کوروس اور مشرقی یورپ پر مسلط کروایا اور پھر ستر سال بعد اسی کمیونزم کو ختم کرنے کے لیے جس طرح مسلمانوں کو استعمال کیا گیا یہ ایک طویل اور انتہائی دردناک کہانی ہے۔سوویت یونین کے حوالے سے صرف اس ایک مشن کے لیے جو 1917ء سے لیکر کر 1990ء تک جاری رہا سب سے زیادہ نقصان عیسائیت کو اور اس کے بعد اسلام کو پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ صرف اس ایک حقیقت کو جان لینے سے ہی مسلمانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں مگر ایسا اس لیے نہیں ہوپاتا کہ مسلمانوں کے ادارے بھی انہیں فتنہ گر یہود کے ہاتھوں میں جاچکے ہیں ، دانا اور بینا مراکز کے سوتوں پر انہی کے لوگ براجمان ہیں۔۔۔ مسلمان نوجوانوں کو اس سلسلے میں سوچنے اور سمجھنے کے لیے تگ ودو سے کام لینا ہوگا۔

روس میں یہودیوں کی کارروائیوں کا دائرہ تقریبا ایک صدی پر محیط ہے ، یہاں تباہی کے لیے کیا کیا طور طریقے اختیار کیے گئے اس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے باقی ممالک اور مذاہب کے ساتھ ان انسانیت کش عناصر کا رویا کیا ہوسکتا ہے۔قارئین کی معلومات کے لیے یہ بھی عرض کردیا جائے کہ آگے آنے والے تاریخی حقائق کسی مسلم ادارے یا شخصیت کی تحقیق سے اخذ کردہ نہیں ہیں بلکہ یہ تمام کے تمام امریکی اور یورپی اداروں اور غیر مسلم یعنی عیسائی محققین کی تحقیق کا نچوڑ ہیں۔

عالمی صہیونی مالیاتی اداروں نے روس میں کس طرح نقب لگائی اس کا مشاہدہ کرنے کے لیے ہم میامی امریکا کے ادارے ’’جیو واچ ‘‘ کے اس انکشاف کی جانب رجوع کرتے ہیں جس میں کہا گیا کہ ’’لاکھوں عیسائیوں میں سے کچھ ایسے عیسائی بھی تھے جو لاعلمی کی وجہ سے کمیونسٹوں کے ہتھے چڑے جبکہ لاکھوں معصوم عیسائیوں کو کمیونسٹ نظریات کے یہودیپرچارک ’’ٹروسٹکی ‘‘ کے حکم سے تباہ کر دیا گیا تھا مگر امریکا کا یہودی فلمساز اسٹیفن سپل برگ کیوں اس موضوع پر فلم بنائے گا؟ کیونکہ سوویت یونین کے نام پر یا کمیونزم کے نام پر تمام کی تمام تباہی پھیلانے والے یہ یہودی ہی تھے اور مشہور امریکی فلمساز اسٹیفن سپل برگ بھی یہودی ہے۔۔۔یا بقول نکسن کے کہ ہالی ووڈ پر یہودیوں کا قبض ہے۔۔۔ مارکسی نظریات کے حامل یہودیوں نے 1917ء سے لیکر 1945ء تک سوویت یونین میں لاکھوں عیسائیوں کو قتل کردیا۔ ان مارکسی یہودیوں کی بڑی تعداد نیویارک امریکا سے آئی تھی جنہوں نے جیکب شیف کے بعد سوویت یونین میں 1917ء میں عیسائیوں کی نسل کشی کی۔ جیکب شیف مشہور عیسائی مخالف یہودی بینکر تھا اس نے بعد میں امریکا سے’’ نیشنل گارنٹی ٹرسٹ‘‘ کے نام پراس زمانے کا امریکا میں سب سے بڑا بینک قائم کیا تھا، اس کے بعد اسی بینک کے ذریعے روس میں کمیونسٹ انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لیے ولادیمیر لینن اور ٹروٹسکی کو 35ملین ڈالر کا سرمایا مہیا کیا گیا تاکہ اس سرزمین پر لاکھوں عیسائی کو قتل کرکے لادینیت کی راہ ہموار کی جائے‘‘۔ (جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر