... loading ...
راؤ ، زرداری کا بہادر بچہ ہے۔پاکستان کے سب سے مشکوک اور حریص سیاست دان کا مسئلہ یہ ہے کہ اُنہیں بولنے کا شوق بہت زیادہ ہے۔ مگر اُن کے پاس بولنے کو کچھ نہیں۔اُن سے ندرت ِ خیال کی توقع بجائے خود ایک بڑا ظلم ہے مگروہ الفاظ کی تنگ دامنی کے بھی بڑے شکار ہیں۔ ایک سادہ سی بات کو بھی وہ اپنی محدودلغت میں ایک پیچیدہ اور آلودہ مسئلہ بنا دیتے ہیں۔حیرت ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنے مشکوک کاموں کے نگراں مفرور پولیس افسر راؤ انوار کو ایک بہادر بچہ قرار دیا ۔ یہ الفاظ بجائے خود اتنے قابلِ مذمت تھے کہ اُنہیں اگلے چند گھنٹوں میںاپنے اُگلے ہوئے مکروہ اور قے زدہ الفاظ کے یہ لقمے واپس اپنے حلق میں انڈیلنے پڑے۔ مگر جو زیادہ جانتے ہیں وہ یہ بھی کہ وہ اپنی تردید سے پرے مگر اپنے الفاظ کے ساتھ کھڑے ہیں۔اگر ایک ہی فقرے میں آصف علی زرداری اور راؤ انوار آ پڑیں تو یہ مسئلہ رہتا ہے کہ کس کی پہلے اور زیادہ مذمت کی جائے۔زرداری کے الفاظ کی طرح راؤ انوار کی بہادری بھی کھوکھلی ، پھوکی اور تھوتھی ہے۔عربی محاورہ ہے کہ
الانائُ الفارغُ یُرَنِ کثیًر
’’خالی برتن زیادہ آواز کرتا ہے‘‘۔
اردو کی ایک ضرب المثل میں یہی مضمون ایک اور رنگ سے بندھا ہے
تھوتھا چنا ، باجے گھنا
زرداری کے بقول راؤ انوار کا بہادر بچہ ایم کیوایم سے بچ جانے والے پولیس افسران میں اب اکلوتا رہ گیا ہے۔ اگریہ عمل اتنا فضیلت ماب ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُسی ایم کیوایم کے ساتھ زرداری صاحب مفاہمت کیوں کرتے رہے؟اس جماعت کو حکومتوں میں اپنے ساتھ کیوں رکھا؟سرگوشی میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ پھر وہ ایم کیوایم کے ارکان کی حالیہ سینیٹ انتخابات میں بولیاں کیوں لگا رہے ہیں؟ درحقیقت راؤ انوار ایسے لوگوں نے ہمیشہ ایم کیوایم کو فائدہ پہنچایا ہے، اس لیے اُنہیں کبھی اس فہرست میں سمجھا ہی نہیںگیا۔اگر یقین نہ آئے تو صرف عامر عزیز عرف آصف برگر کے کردار کو ٹٹول لیجیے!جو ایم کیوایم کا ایک ٹارگٹ کلر تھا مگر پھر راؤ انوار کا مخبر بنا ۔ بعدازاں زمین پر قبضوں کے پورے دھندے کی نگرانی اُسے سونپی گئی ،جو ملک ریاض اور آصف علی زرداری کی ایماء پر جاری تھے۔ پروپیگنڈا ایک دوسری چیزہے۔یہ ایک الگ موضوع ہے جسے کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔اصل سوال یہ ہے کہ راؤ انوار ایک ’’بہادر بچہ ‘‘کیسے ہے؟
راؤ انوار کے پولیس مقابلوں میں سے کوئی ایک بھی اصلی مقابلہ ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس نے ہمیشہ ہاتھ پاؤں بندھے انسانوں کو مقابلے میں مارا ہے۔ ہتھکڑیاں لگے مظلوم بھی اس کے مقابلوں کا شکار ہوئے اور اُن کی تصاویر بھی منظرعام پر آئیں۔ مگر ریاست بے خبر سوتی رہی۔ یہاں تک کہ راؤ انوار نے اپنے خلاف جو آخری جعلی حملہ ہمدردی حاصل کرنے کے لیے پچھلے دنوں کروایا تھا، اُس میں خود کش حملہ آور کی پوری کہانی بھی جعلی نکلی۔ یہ مقابلہ انتہائی عجیب تھا۔ اس میں لاش پھٹی نہیں بلکہ جلی تھی۔ لاش کے انگوٹھے تک پہلے سے کٹے ہوئے تھے۔ اس مظلوم کو کورنگی سے اغوا کیا گیا تھااور پھر اُسے ایک خود کش حملہ آور کے طور پر پیش کرکے جعلی ڈراما رچا دیا گیا۔ یہ معاملہ نقیب اللہ محسود کی طرح کا ہی حساس اور انتہائی نازک ہے ،مگر ریاست بھی اُن ہی لوگوں کے لیے حرکت میں آتی ہے جو کسی طرح خطرہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ مظلوم شہریوں کی زندگیوں کا حساب کتاب رکھنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ جعلی پولیس مقابلوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق راؤ انوار نے اب تک 444 لوگوں کو ٹھکانے لگا دیا تھا۔ یہ بات اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔
درحقیقت ان مقابلوں میں عام بے گناہ لوگوں سے اُن کی اصل شناخت اور کردار کوچھینا گیا۔ اُن میں سے بیشتر (چند ایک مجرم بھی تھے) بے گناہوں کو دہشت گردوں کی شناخت دی گئی۔ اُن کے گھرانوں کو مستقل طور پر الزامات کی باڑھ پہ رکھ دیا گیا۔ اُن کی سماجی زندگی کو مجروح کردیا گیا۔ اور یہ سب اپنے خاندانوں میں اجنبی بن گئے۔ راؤ انوار کے لیے نقیب اللہ محسود کا جعلی مقابلہ بھی پچھلے مقابلوں سے مختلف نہیں تھا۔ یہ اُس کے طریقہ ٔواردات کے عین مطابق محض ایک بندہ نہیں بلکہ ایک ہندسہ تھا، جو اُس کے اب تک کے مقابلوں میں مزید ایک کا اضافہ کررہا تھا۔ مگر اس معاملے کی سنگینی کا اندازا اب بھی کوئی نہیں لگارہا کہ زرداری کے اس ’’بہادر بچے‘‘ نے کیا کیا قیامتیں ڈھا دی ہیں۔ راؤ انوار دراصل سیاست ، دھندے اور پولیس کے مجرمانہ اکٹھ کا ایک خطرناک چہرہ ہے۔ جو بہادری سے نہیں بلکہ قانون کی بے پناہ طاقت سے ملنے والے لامحدود اختیارات کی آڑ میں اپنے کھیل کھیلتے ہیں۔ راؤ انوار ایسے لوگ زرداری ایسے لوگوں کی مجبوری ہوتے ہیں۔ ایک زرداری سب پر بھاری ایسے ہی نہیں ہوجاتے۔ اس کے پیچھے جعلی پولیس مقابلوں کی ایک مسخ شدہ دنیا ہوتی ہے۔ ریاستی طاقت کے ذریعے استحصال کی ایک مسلسل روایت ہوتی ہے۔
نقیب اللہ محسود کے لیے قائم کیے گئے سہراب گوٹھ پر احتجاجی کیمپ میں تقریباً 70 ایسے خاندان پہنچے جن کے کسی نہ کسی عزیز کو راؤ انوار نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ پھر اُنہیں مسلسل دھمکیوں کی زد میں رکھا گیا تھا کہ اگر اُنہوں نے زبان کھولی تو اُن کے خاندانوں کو بھی برباد کردیا جائے گا۔ کیا یہ ریاست کی پولیس کے افسران کے کام ہوتے ہیں۔ یہ انداز تو ایک مافیا کا ہوتا ہے۔ ریاستی ادارے تو اپنے ہر عمل کی قانونی جواب دہی کے پابند ہوتے ہیں۔ مگر راؤ انوار ایسا نہیں تھا۔ اُنہیں قتل کرنے کا ایک کھلا لائسنس ملا ہوا تھا۔ اس میں پولیس کے تمام محکمے اور ریاست کے بعض ادارے بھی اس قاتل مشین سے فائدہ اُٹھاتے تھے۔ افسوس ناک طور پریہ پورا معاملہ ہی انتہائی گھناؤنا ہے۔ درحقیقت ریاست اپنا وقار کبھی بحال نہیں کراسکتی اگر وہ راؤ انوار کے پورے کھیل کا کامل محاسبہ نہیں کرتی۔ ریاست پر شہریوں کا اعتماد تب تک مجروح رہے گا جب تک راؤ انوار اور اُس کے شریک مجرمان قانون کی زد میں نہیں آتے۔ اگر آصف علی زرداری کے لیے یہ بہادر بچہ ہے تو پھر جُرم نام کی کوئی شے دنیا میں وجود ہی نہیں رکھتی۔ پھر دہشت گردوں کی تعظیم کی جانی چاہئے اور قبضہ گیروں اور اُٹھائی گیروں کے لیے قومی ایوارڈ عام کردینے چاہئے۔ یہ الفاظ ایک ایسی زبان سے ہی ادا ہوسکتے ہیں جو اپنے دل ودماغ کے اندر جرم اور سیاست میں کوئی خطِ امتیاز نہیںرکھتا۔ اور جس کی زندگی جُرم سے تحفظ پاتی ہے۔