... loading ...
سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین ـ” محترم” آصف علی زرداری نے راؤ انوار کو بہادر آدمی قرار دیا ہے، آصف علی زرداری جس کو سنددیں وہ فی الواقع بہادر ہی ہو گا، اس سے قبل ـ” محترم”آصف علی زرداری ڈاکٹر عاصم کو بھی دیانتدار ہونے کی سند دے چکے ہیں۔ راؤ انوار 80 کی دہائی کے وسط میں سندھ پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے اور پھر 10-12 سال کی ملازمت کے باوجود 1996 میں صرف سب انسپکٹر (ایس آئی) کے عہدے تک ہی پہنچ سکے تھے، اس کے بعد کیا ہوا کہ ایک رینکر ایس ایس پی کے عہدے تک جا پہنچا جبکہ پولیس قواعد کے مطابق رینکر زیادہ سے زیادہ ڈی ایس پی کے عہدے تک پہنچ سکتا ہے۔ اب راؤ انوار میں کونسی پوشیدہ صلاحیتیں تھی کہ وہ قواعد کے برعکس پاکستان پولیس سروس کے لیے مختص عہدے تک پہنچنے میں نہ صرف کامیاب رہے بلکہ ایسے آفیسر رہے کہ جس پر کوئی قانون قاعدہ لاگو نہیں ہوتا تھا۔ 2005 سے موجودہ معطلی تک راؤ انوار کم وبیش 12 سال مسلسل ملیر ضلع کے ایس ایس پی رہے، یوں تو اس دوران انہوں نے متعدد ایسے کارنامہ انجام دیے کہ اگر وہ کارنامہ کوئی دوسرا پولیس افسر سرانجام دیتا تو معطلی ہی نہیں ملازمت سے برطرفی بھی اس کا مقدر بنتی ۔ان کارناموں میں صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کے ساتھ بداخلاقی اور غیر قانونی گرفتاری بھی شامل ہے لیکن اس انتہائی غیرقانونی اقدام کے باوجود راؤ انوار کو کیا سزا ملی صرف چند دن کی معطلی اور پھر ضلع ملیر کا چارج ۔سروس رولز کے مطابق کوئی بھی سرکاری اہلکار تین سال سے زائد کسی ایک مقام پر فائز نہیں رہ سکتا اسی طرح سپریم کورٹ بھی واضح احکامات دے چکی ہے کہ کسی بھی اہلکار کو کسی ایک مقام پر تین سال سے زائد تعینات نہ رکھا جائے لیکن راؤ انوار” بہادر افسر” ہیں، قواعد وضوابط اس کی بہادری کے سامنے بے بس ہیں ۔
نقیب اللہ محسود کا قتل راؤ انوار کے ہاتھوں پہلا قتل نہیں جس میں اس نے مدعی ،وکیل اور منصف کا کردار خود ہی ادا کیا ہو اب تک سامنے آنے والے واقعات میں 444 ماروائے عدالت قتل راؤ انوار کے کھاتے میں لکھے جا چکے ہیں اور ابھی بہت سے ایسے افراد موجود ہونگے جن کے پیارے راؤ انوار کے ہاتھوں آخری آرام گاہ تک پہنچے یا عمر بھر کی معذوری جن کا مقدر ٹھہری ۔نقیب اللہ محسود تو ایک نام ہے اصل تو نہ جانے کس مظلوم کی آہ ہے جس نے اثر دکھایا ہے کس مظلوم کا خون ہے جو آستین پر بول رہا ہے ۔
جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستین کا
یا پھر
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
انوار کے ہاتھوں یوں تو لاتعداد افراد قتل ہوئے ہیں لازم نہیں کہ سارے بے گناہ ہوں لیکن یہ بھی تو لازم نہیں کہ سارے ہی گناہ گار ہوں اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ہر قتل ہونے والا گناہ گار تھا تو بھی کسی پولیس آفیسر کو یہ حق کس قانون کے تحت حاصل ہوتا ہے کہ استغاثہ اور عدلیہ کے فرائض بھی وہی انجام دینے لگے ۔راؤ انوار کے ہاتھوں قتل ہونے والوں میں معروف ترین نام میر مرتضی بھٹو کا ہے کون میر مرتضی بھٹو شاید آج کا نوجوان اس نام سے واقف نہ ہو ، سر شاہ نواز بھٹو کا پوتا ،ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹا او ربے نظیر بھٹو کا بھائی، میرمرتضی بھٹو کا قتل ان دنوں ہوا جب محترمہ بے نظیر بھٹو اسلام آباد کے ایوان اقتدار میں موجود تھیں ملک کی وزیراعظم تھیں اور ایوان صدر میں انکل فاروق لغاری موجود تھے ۔کون پولیس افسر ہو سکتا تھا جو قائد عوام کے بیٹے اور وقت کی حکمران کے بھائی کو اس طرح سرراہ قتل کر دے یہ ڈاکٹر شعیب سڈل ،چوہدری اسلم اور راؤ انوار ہی تھے جو اتنا “بہادرانہ ” فیصلہ کر سکتے تھے شعیب سڈل کو انعام ملا کہ پہلے وہ آئی جی بلوچستان مقرر ہوئے اور بعدازاں سیکریڑی داخلہ کے منصب سے ریٹائر ہوئے۔ جب شعیب سڈل کو آئی جی بلوچستان مقرر کیا گیا تھا اس وقت مرکز میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور ” جناب” آصف علی زرداری ایوان صدر کے مکین اور جب شعیب سڈل کو سیکریڑی داخلہ بنایا گیا اس وقت بھی پیپلزپارٹی ہی برسراقتدار تھی ،میرمرتضی بھٹو کے قتل کا معمہ آج تک حل نہیں ہوا تھا لیکن آصف علی زرداری کے اس انٹرویو نے تقریباً22 سال قبل ہونے والے قتل کے ملزموں اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کر دیا ہے ۔ڈاکٹر شعیب سڈل ریٹائرمنٹ کے بعد گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن راؤ انوار نے بہت نام کمایا ہے کہ” بدنام ہوئے تو کیانام ناہوگا” ۔
کورٹ آف پاکستان نے راؤ انوار کو سنہری موقع دیا تھا کہ وہ اس اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے پیش ہوں اور گمان غالب رکھا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ حفاظتی ضمانت کی توثیق کرتے ہوئے اس ضمانت کو اس وقت تک کے لیے موثر قرار دے دیتی جب تک کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بنائے جانے والی جے آئی ٹی اپنی رپورٹ پیش نہ کر دیتی اب اگر اس رپورٹ میں راؤ انوار کو نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث قرار دیا جاتا تو گرفتاری کا امکان موجود تھا اور اگر انہیں بری الذمہ قرار دے دیا جاتا تو پھر معاملہ ختم ہو جاتا، آصف علی زرداری سے یہ انٹرویو جس نے بھی دلایا ہے اس نے آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی سے کوئی ہمدردی نہیں کی ہے ۔نقیب اللہ محسود کا معاملہ اس وقت پورے ملک میں اہم ترین معاملات میں سے ایک ہے۔ قبائلی عمائدین ایک بار پھر دھرنا دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں ،یہ معاملہ اب صرف محسود قبائل اور قبائلی عوام تک محدود نہیں رہا بلکہ صوبہ کے پی کے کے تمام علاقوں سمیت ہر مظلوم کا مسئلہ بن چکا ہے راؤ انوار کے ظلم کا شکار ہونے والوں میں صرف کراچی کے باسی ہی نہیں پورے ملک کے مکین شامل ہیں جس میں پیپلزپارٹی کا گڑھ لاڑکانہ بھی شامل ہے۔ جنید ابڑو کا تعلق تو اس حلقہ سے ہے جو پیپلزپارٹی کا گڑھ کہلاتا ہے اور1970 سے آج تک اس حلقہ سے کسی دوسری پارٹی کا امیدوار کامیاب نہیں ہو سکا ہے لیکن اس علاقے کے باشندے ابھی میرمرتضی کے قتل کو نہیں بھولے ہیں ۔میرمرتضی آج بھی ان کے دلوں میں بستا ہے کہ بھٹو کا وارث کوئی بھٹو زرداری نہیں بھٹو ہی ہو سکتا ہے اور فاطمہ میرمرتضیٰ کی وارث ہے۔
اگر آج پیپلزپارٹی ووٹ حاصل کرتی ہے تو اس کا کریڈٹ آصف علی زرداری کی مفاہمت کی سیاست کو نہیں جاتا بلکہ یہ عوام کا بھٹو سے کیا ہوا وعدہ ہے۔ آج بھی پیپلزپارٹی کو ووٹ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے خون کے احترام میں ملتے ہیں، اگر پیپلزپارٹی سے بھٹو کا نام نکال دیا جائے پھر شاید پیپلزپارٹی تانگہ پارٹی بھی نہ بچے ۔اب جبکہ انتخابات کی آمد آمد ہے پارٹیاں اپنی انتخابی صف بندیاں کر رہی ہیں حلیفوں اور حریفوں کا تعین ہو رہا ہے اس وقت میں آصف علی زرداری کی جانب سے راؤ انوار کو بہادر آدمی قرار دیا جانا پیپلزپارٹی پر وہ خودکش حملہ ہے جس کا الزام کسی اسٹیبلشمنٹ پر نہیں لگایا جا سکتا۔ آصف علی زرداری کے اس انٹرویو نے جہاں پیپلزپارٹی کے لیے قبائلی علاقوں اور کے پی کے میں مشکلات کھڑی کی ہیں وہیں پورے ملک میں بھی پیپلزپارٹی کے لیے بھی دشواریاں پیدا ہونگیں جس کا ثبوت اس بیان سے قبل بھی مل چکا تھا کہ جب لاہور اور لودھراں کے ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کا امیدوار پانچویں اور چھٹے نمبر پر رہا تھا اس وقت تک آصف علی زرداری نے راؤانوار کو بہادر آدمی قرار نہیں دیا تھا اب جبکہ آصف علی زرداری پیپلزپارٹی پر یہ ایٹمی حملہ کر چکے کہ انہوں نے قائد عوام کے فرزند اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائی کے قتل میں ملوث ایک رینکر کو بہادر آدمی قرار دے کر ثابت کر دیا ہے کہ اس بہادر آدمی کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے اور یوں میر مرتضی کے قاتلوں کے چہرے پر پڑا نقاب بھی اُتر گیا ہے۔ یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ راؤ انوار کا سرپرست کون ہے اب بااختیار اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آصف علی زرداری سے “انتہائی احترام “کے ساتھ معلوم کریں کہ راؤ انوار کو بہادر آدمی قرار دینے کاان کے پاس کیا جواز ہے ۔ جہاں تک آصف علی زرداری کی وضاحت کا تعلق ہے تو یہ اُن کے اصل موقف کی وجہ سے نہیں بلکہ بعد از بیان اُس ردِ عمل کی وجہ سے ہے جو پورے ملک سے آرہا ہے۔