... loading ...
ملزم، فریق ، درخواست گزار کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، عدالت عظمٰی میں داخلے کا ایک پروٹوکول ہے۔ شاہراہ دستور پر عدالت عظمیٰ کے دو مرکزی دروازے ہیں۔ ایک سے جج صاحبان داخل ہوتے ہیں، دوسرا مرکزی دروازہ بند رہتا ہے۔ اس بند رہنے والے دروازے کے ساتھ جڑے کمرے میں لگے سیکورٹی سسٹم سے گزر کر ہی کوئی بھی ملزم ، فریق، درخواست گزار یا وزیٹر اپنی شناخت، داخلے کے مقصد کا ثبوت دکھانے، پاس ملنے اور تلاشی دینے کے بعد ہی سپریم کورٹ میں داخل ہو سکتا ہے۔ اگر کسی وزیر، بڑے سے بڑے افسر ، بڑی سے بڑی شخصیت نے بھی سپریم کورٹ داخل ہونا ہے تو اس کمرے سے تمام مراحل سے گزر کر گلے میں پاس لٹکا کر ہی داخل ہونا ہے۔ حتیٰ کہ وزیر داخلہ جو کہ اسلام آباد پولیس کے باسز کا بھی باس ہے، ایک عام پولیس اہلکار کو تلاشی دے کر گزرتاہے۔ تیسرا دروازہ سپریم کورٹ کی پارکنگ میں کھلتا ہے جہاں سے صرف سپریم کورٹ کے وکلا اور صحافیوں کوآنے کی اجازت ہے۔ سپریم کورٹ میں جب پناما کیس، عمران خان اہلیت کیس جیسے اہم مقدمات کی سماعت ہوتی تھی تو پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد عدالت عظمیٰ کے باہر اور اندر تعینات ہوتی تھی تاکہ کارکن بدمزگی پیدا نہ کرسکیں۔ ان بیسیوں پولیس اہلکاروں کی نگرانی سپریم کورٹ میں تعینات ایس پی لیول کا افسر کرتا ہے۔ یہاں کوئی وی آئی پی نہیں ،،، یہاں پولیس افسر وزیر کو بھی سیلوٹ نہیں کرتا۔ ملزم تو دور کی بات کسی بڑی شخصیت کے ساتھ آئی سیکورٹی پارکنگ سے آگے نہیں جا سکتی۔ اگر صحیح معنوں میں کوئی سسٹم اور رٹ کہیں نظر آتی ہے تو وہ سپریم کورٹ کی عمارت ہے۔
اب آج کی صورتحال ملاحظہ فرمائیں۔ نقیب اللہ قتل کیس کے ملزم راؤ انوار، جن کے خط پر عدالت نے فیئر ٹرائل کیلئے آزاد جے آئی ٹی بنانے کا آپشن دیا اور انہیں گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا، کے لیے وی وی آئی پی سیکورٹی تعینات تھی۔ سپریم کورٹ کے باہر اور اندر بیسیوں اہلکار چوکس کھڑے تھے ، معلوم ہو رہا تھا کہ مقدمہ یا ملزم ہائی پروفائل ہے۔ سپریم کورٹ میں ایس پی سطح کا افسر اہم سے اہم کیس میں سیکورٹی کی نگرانی کرتا ہے مگر آج ڈی آئی جی سیکورٹی ، ڈی آئی جی آپریشنز، ایس پی سٹی، سیکورٹی کے امور کا جائزہ لے رہے تھے۔ آئی جی اسلام آباد سلطان اعظم تیموری بھی اس مقدمے کی سماعت میں پیش ہونے کیلئے پہنچے مگر واضح رہے کہ یہ افسران اپنے آئی جی کیلئے نہیں بلکہ ایک ملزم اور معطل ایس ایس پی کی سیکورٹی کیلئے موجود تھے۔ پھر بھی میں نے سوچا کہ یہ بڑی بات نہیں کیونکہ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ راؤ انوار کو سیکورٹی فراہم کی جائے۔ مگر میری حیرت میں اس وقت اضافہ ہوا جب میں نے داخلی راستے پر سوٹ میں ان کمانڈوز کو دیکھا جنہیں کلوز پروٹیکشن ٹیم کہا جاتا ہے۔ یہ کلوز پروٹیکشن ٹیم صدر مملکت، وزیر اعظم، ریاست کے مہمانوں کی وی وی آئی پی سیکورٹی کیلئے ہوتی ہے۔ جانی پہچانی شکلوں کو دیکھ کر پوچھا آپ لوگ کیوں کھڑے ہیں تو بتایا کہ آج وی وی آئی پی شخصیت کی آمد ہے آپ بھی یہاں کھڑے نہ ہوں۔ میں کمرہ عدالت پہنچا تو معلوم ہوا کہ راؤ انوار کا انتظار ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تھوڑی دیر تک انتظار کر لیتے ہیں اور سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کر دی گئی۔ مختصر انتظار کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ جن کی سیکورٹی کیلئے اسلام آباد پولیس نے اتنا انتظام کیا ہے وہ نہیں آئے۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ راؤ انوار نے چند روز قبل انہیں واٹس ایپ کال کی اور کہا کہ وہ آئیں گے ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خط انہوں نے ہی لکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوار پیش نہیں ہوئے انہوں نے موقع ضائع کر دیا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ راؤ انوار کو عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے، راو انوار کے تمام اکاونٹس منجمد کرنے کا حکم دے دیا گیا،، راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم واپس لے لیا گیا۔خفیہ اداروں کو راؤانوار کی گرفتاری کیلئے سندھ پولیس سے تعاون کا حکم دے دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی شخص قانون سے بھاگ نہیں سکتا ،،، ملزم نے ایک دن پکڑے ہی جانا ہوتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ راؤ انوار اس معاملے میں بے قصورہوں ، بلکہ آج سندھ پولیس کے ایک اعلیٰ ترین افسر مجھ سے بات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ راؤ انوار پیش نہ ہو کر معاملے کو خود مشکوک بنا رہے ہیں، وہ پولیس مقابلے کے موقع پر موجود نہیں تھے، انہیں پیش ہو کر اپنی بے گناہی ثابت کرنی چاہئیے۔تاحال گرفتار نہ ہونا راؤ انوار کی طاقت ہے یا خوف، سندھ پولیس کی بے بسی ہے یا طرف داری، چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس اور عدالتی حکم کو دیکھ کر امید کی جا سکتی ہےکہ ملزم انصاف کے کٹہرے سے زیادہ دیر تک بھاگ نہیں سکتا۔