... loading ...
عمران خان اپنی افتادِ طبع کے اسیر ہیں۔اگرچہ وہ مزاجاً ایک جنگجو ہیں اور پلٹ کر وار کرتے ہیں ۔ اس طبیعت کے حامل شخص میں ایک خوبی ہوتی ہے کہ شکست سے سبق سیکھتے ہیں مگر عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سبق نہیں سیکھتے ۔دلائی لامہ نے زندگی کے اٹھارہ اُصول مرتب کیے ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ
’’When you lose, don’t lose the lesson.‘‘
(جب آپ کچھ کھوئے تو اس کا سبق نہ کھوئیں)
ایک سادہ سی بات زندگی کو کتنی کامیاب بنادیتی ہے۔ مگر عمران خان شاید ہی اس پر توجہ دے سکیں۔ لودھران کے ضمنی انتخاب نے اُن کی بنائی ہوئی الف لیلوی دنیا کو اُتھل پتھل کردیا ہے، مگر پھر بھی اُن سے یہ توقع نہیں کہ وہ کوئی سبق سیکھیں گے، البتہ لڑائی ضرورجاری رکھیں گے۔عمران خان کے لیے اس شکست میں پوشیدہ سبق ایک علیحدہ موضوع ہے جس کے بیشتر پہلو اُن کی شخصیت سے جڑے ہیں۔ لہذا اس کو کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ لودھراں کے ضمنی انتخاب پر ایک نظر ڈالتے ہیں!
لودھراں میں مسلم لیگ نون کی فتح اور تحریکِ انصاف کی شکست کے تمام تر عوامل مقامی ہیں۔ مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ اور اُن کے وابستگان اس قدرجانبدار ہوچکے ہیں کہ وہ اس پر آزاد نگاہ ڈالنے کو شاید ہی تیار ہوں۔جانبدار ذرائع ابلاغ کی پوری کھیپ نے خالص مقامی محرکات کے حامل نتیجے کو قومی شعور اور نوازشریف کے عدلیہ مخالف بیانئے کی فتح کے طور پر پیش کیا۔ افسوس ناک طور پر فتح وشکست کے اسباب کا کوئی جائزہ لیے بغیر ٹیلی ویژن اسکرینوں پر تجزیہ کار اور اینکرز اس نتیجے کے ساتھ جگمگانے لگے۔ بھلا اس نتیجے کا تعین کیسے کیا گیا؟ ووٹرز کے فیصلے کے پیچھے اس ’’قومی شعور‘‘ کی جھلک اُنہوں نے کیسے دیکھی؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب آپ کو کبھی نہیں ملے گا۔ لودھراں میں مسلم لیگ نون کے امیدوار محمد اقبال شاہ کی کامیابی کے فوراً ہی بعد توقع کے عین مطابق مریم نواز کا ٹوئٹر ہینڈل حرکت میں آیاکہ ’’عوام کا فیصلہ واضح ہے، ووٹ کوعزت دو، عدل کو بحال کرو، یہ نظریۂ نواز ہے جو ِدلوں میں گھر کر گیا ہے! کہا تھا نہ ’’روک سکو تو روک لو‘‘۔ نوازشریف کی صاحبزادی کے اس پیغام کے بعد ذرائع ابلاغ میں پُتلی تماشا شروع ہوگیااوریہی الفاظ سُر بدل بدل کر دہرائے جانے لگے۔ ایسا لگتا ہے کہ اکثر تجزیہ کاروں، ٹی وی میزبانوںاور مریم نواز کے ٹوئٹر ہینڈل کے درمیان کوئی نامیاتی رشتہ پایا جاتا ہے۔
لودھراں میں تحریک انصاف کے امیدوار علی ترین کی شکست کے تمام تر اسباب انتہائی مقامی نوعیت کے ہیں جس کا قومی سطح پر چلنے والے معاملات سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔یہ بات معمولی فہم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کو حلقوں کی سیاست کا پوری طرح ادراک ہے ۔ مسلم لیگ نون سالہا سال سے اقتدار میں ہونے کے باعث محض انتظامی مشنری کا استعمال نہیں جانتی بلکہ حلقوں کے اندر خاندانی رسوخ ، دیہی مزاج ، عوامی مسائل اور مقامی تعصبات کے ساتھ فتح گروں کا بھی خوب خوب ادراک رکھتی ہے۔ لودھراں میں 2002 ، 2008 اور 2013 کے تین عام انتخابات میں سے ایک بھی مسلم لیگ نون نے نہیں جیتا تھا۔ 2002 کے انتخابات میں تو وہ بوجوہ انتخابات میں موجود ہی نہ تھی۔ جبکہ 2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کے امیدوارمحمدطاہر امیر گھروئی نے یہاں سے صرف 6508 ووٹ حاصل کیے تھے۔بادی النظر میں ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ حلقے کے عمومی مزاج کے عین مطابق ہے جس میں 2002 اور 2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ق کے بالترتیب نواب امان اللہ خان اور محمد صدیق بلوچ کامیاب ہوئے تھے۔ پھر 2013 کے انتخابات میں بھی ایک آزاد امیدوار کے طور پر صدیق بلوچ نے یہ انتخاب جیتا ۔ یہ حلقہ اُن چار نشستوں میں سے ایک تھا جسے تحریک انصاف کی جانب سے چیلنج کیا گیا۔پھر دھاندلی ثابت ہونے پر انتخابات کالعدم ہوئے اور یہاں پہلا ضمنی انتخاب ہو ا جسے تحریک انصاف کے جہانگیر ترین نے جیتا۔ اب ایک دوسرے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ نون نے جہانگیر ترین کے بیٹے کو شکست دے کر حلقہ اپنے نام کر لیا۔ اس تناظر میں جہانگیر ترین کی طرف سے ضمنی انتخاب جیتنا تو ایک اپ سیٹ کہلا سکتا تھا مگر دوسرے ضمنی انتخاب میں علی ترین کی شکست کو ایک بڑا اپ سیٹ کیوں کہا جارہا ہے؟ یہ بات بجائے خود سمجھ سے بالاتر ہے۔
درحقیقت حالیہ ضمنی انتخاب میں کچھ مقامی محرکات پر کوئی دھیان نہیں دے رہا۔اس حلقے کی 88-8 فیصد آبادی دیہی ہے جو تقریباً 214دیہاتوں تک پھیلی ہوئی ہے جبکہ 11-2 فیصد آبادی شہری ہے۔ ظاہر ہے کہ دیہی آبادی کے اتنے بڑے حصے تک رسائی کسی ایک آدمی کی بے انتہا دولت کے باوجود ممکن نہیں ۔ظاہر ہے کہ حکومت ہونے کا مطلب ہی کچھ اور ہوتا ہے۔2013 کے عام انتخابات سے قبل ایک آزاد مطالعے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہاں نظریاتی ووٹ دس سے بیس ہزار تک ہی محدود ہے۔ انتخابات میںکامیابی کے لیے یہان جو عوامل کام کرتے ہیں اُن میں اجتماعی مسائل سے زیادہ انفرادی کام ہوتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شخصی ووٹ یہاںپر زیادہ ہیں۔ پھر تھانے کچہری کی سیاست کرنے والے یہاں کامیاب ٹہرتے ہیں۔ اس تناظر میں مسلم لیگ نون کے امیدوار کی کامیابی سے جو نتائج یہاں اخذ کیے جارہے ہیں ۔ اس میں بیشتر مباحث سے تو یہاں کے رائے دہندگان کی اکثریت کو کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ انتخابی فتح کے لیے کارگر فارمولا یہاں پر بہت سادہ ہے۔ حلقے کی اہم برادریاں سید ، جلہ ارائیں، بلوچ، مرزا،بھٹی اور راجپوٹ برادریوں سے جو امیدوار بھی جوڑ توڑ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ کامیاب رہتا ہے۔ مسلم لیگ نون نے اسی تناظر میں ضمنی انتخاب میں اب تک باہم مقابل تمام بڑے خاندانوں کو یکجا کرکے ایک امیدوار کی پشت پر کھڑا کردیا۔ اس حلقے میں تاریخی طور پر صدیق بلوچ خاندان ، کانجو خاندان ، رفیع شاہ خاندان اور ولایت شاہ خاندا ن کارگزار رہے ہیںجو کمال مہارت سے مذکورہ برادریوں سے معاملات طے کرتے رہے ہیں۔ یہ چاروں خاندان جیتنے والے امیدوار اقبال شاہ کی پشت پر تھے۔ ان چاروں خاندانوں نے اپنے مشترکہ امیدوار پر اس لیے بھی محنت کی کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ مبادا جہانگیر ترین کے بیٹے کی فتح اُنہیں حلقے کی سیاست سے مستقل طور پر نکال باہر نہ کردے۔ پھر مسلم لیگ نون نے امیدوار کے انتخاب میں زیادہ سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔مسلم لیگ نون نے اقبال شاہ کو ایک امیدوار کے طور پر آگے بڑھایا جو بلاشبہ حلقے میں انتہائی اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ خاندان رفاہی اور فلاحی کاموں میں پیش پیش ہے اور اقبال شاہ ایک عام اور سادہ آدمی کی شہرت رکھتے ہیں۔ عوامی نمائندگی کے ہنگام یہ شہرت کام کرتی ہے۔
مسلم لیگ نون کے رہنماحلقوں کے پورے فہم کے ساتھ پورے پانچ سال کی سیاست کرتے ہیں۔جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نوازشریف کی جگہ لی تو نئی کابینہ میں عبدالرحمن کانجو کو شامل کیا گیا۔ قیادت کو انداز ا تھا کہ یہ فیصلہ حلقے کی سیاست میں اپنے اثرات مرتب کرے گا۔مقامی طور پر عبدالرحمن کانجو کے حوالے سے یہ فقرہ کہا جاتا ہے کہ’’ جہانگیر ترین سے کام ہوا تواُس کامنشی ملے گا مگر عبدالرحمن کانجو کو تو خود ہی مل جانا ہے‘‘۔ حلقے کی سیاست میں یہ ایک اہم عنصر ہوتا ہے۔ اس قدر مخالف عوامل میں تحریک انصاف نے امیدوار کے انتخاب میں روایتی نادانی کا مظاہرہ کیا ۔اوّل تو موجود اسمبلی کی مدت چند ہفتے رہ گئی ہے۔ کیا یہ ضروری تھا کہ جہانگیر ترین کے بیٹے کو ہی انتخاب میں جھونکا جاتا۔ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ تحریک انصاف کسی عام کارکن کو آگے بڑھاتی۔ا س طرح موروثی سیاست کے خلاف اس کی دلیل مستحکم ہوتی اور پارٹی کے اندر عام کارکن کی پزیرائی کا دعویٰ بھی آبرومند رہتا۔پھر شکست کی صورت میں زیادہ ہزیمت کا سامنا بھی نہ کرنا پڑتا۔ تحریک انصاف کی قیادت سیاسی حالات کو سمجھنے اور انتخابات کے مقامی عوامل کے ادراک میںمکمل ناکام رہی۔ جہانگیر ترین کی جانب سے حلقے میں کوئی خدمت بھی ہوئی ہو تو وہ اس پورے عرصے میںزیادہ تر حلقے سے باہر رہے ۔عمران خان کی اپنی غلطیاں بھی کم نہیں، الغرض مسلم لیگ نو ن کے زبردست پروپیگنڈے میں صرف چند ہفتوں کے لیے باپ کی طرف سے بیٹے کو ایک امیدوار کے طور پر آگے بڑھانے کا یہ فیصلہ کسی بھی زاویے سے درست نہیں تھا۔ عمران خان اورتحریک انصاف سے کم ہی امید ہے کہ وہ شکست کے بنیادی عوامل پر دھیان دے سکیں۔ جو شکست سے نہیں سیکھتے اُن کے لیے فتح کے بھی کوئی معنی نہیں ہوتے جس طرح جہانگیر ترین کے لیے ضمنی انتخاب میں کامیابی کے کوئی معنی طے نہ ہوسکے۔
تحریک انصاف کے باب میں تو یہ ایک یقینی امر تھا کہ وہ اپنے مزاج کے قیدی رہیں گے۔ وہ فتح ہی نہ کھوئیں گے اس کا سبق بھی کھو دیں گے۔ مگر مسلم لیگ نون کے طبلیچیوں ، ڈھنڈورچیوں اور بغلچیوں نے اس فتح کو جو معانی دینے کی کوشش کی ہے ، اور اس سے قومی شعور کی جس فصل کو لہلہاتا دکھایا جارہا ہے وہ فصل کسی زمین پر نہیں اُگی ہوئی۔ چند ہفتوں کے بعد قومی منظرنامے پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بعد نوازشریف کے بیانئے کی مقبولیت کا بھرم ازخود کھل جائے گا۔تب تک مسلم لیگ نون کی نوازشات زندہ باد!!!!