وجود

... loading ...

وجود

بھاؤ تاؤ !

منگل 13 فروری 2018 بھاؤ تاؤ  !

انگریز  فلسفی ہر برٹ اسپنسر نے اٹھارویں صدی کے اواخر میں فطری چناؤ کے ایک اُصول پر غور کیا تھا جس کے تحت طاقت ور ہی زندہ رہتا ہے۔ عملی اور سیاسی زندگی میں یہ اُصول خطرناک طور پر غنڈوں سے غنڈوں کے مقابلے کی صورت میں ظاہر ہوا۔سینیٹ انتخابات میں یہ بات بآنداز دگر ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں پیسوں کا مقابلہ پیسوں سے ہوتا ہے۔ حیرت انگیز مغالطے کے طور پر اسے سیاسی جماعتوں کا مقابلہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ دولت نے طاقت کو اب اپنے خادم کے طور پر چُن لیا ہے۔ اس لیے قومی ریاست میں طاقت کی تمام شکلیں دولت کی خدمت گار بن کر رہتی ہیں۔ یقین نہ آئے تو ملک ریاض کو دیکھ لیں۔ بسا اوقات پوری کی پوری ریاست اُن کی خادم دکھائی دیتی ہے۔ اس میں عسکری اور سیاسی امتیاز بھی ختم ہو جاتا ہے!
تیری سرکار میں پہنچے تو سب ہی ایک ہوئے

سینیٹ انتخابات میں دولت کی چکاچوندی کا یہ پورا کھیل دراصل سرمائے کی عالمی کشاکش سے پیدا ہونے والے سیاسی نظام کی مکروہ ترین شکل ہے۔ قومی ریاستیں جمہوریت کے جس تصور سے آشنا ہے اس کے مظاہر اس سے مختلف نہیں ہو سکتے ۔پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات میں سرمائے کے منتر نے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنے سحر میں لے رکھا ہے۔ آخری تجزیے میں کوئی بھی جماعت اس سے محفوظ نہیں ۔ جمہوریت کا پروپیگنڈا یہ ہے کہ جمہوریت میں تبدیلی بتدریج وقوع پزیر ہوتی ہے۔مگر پاکستان میں جمہوریت مسلسل روبہ زوال ہے اور یہ ہر گزرتے دن خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ سینیٹ کا انتخاب اس کی تازہ مثال ہے۔پاکستان کی تاریخ کا سب سے مہنگا انتخاب مارچ میں ہوگا۔ جس میں ہر ووٹر کی قیمت لگ چکی ہے۔ بلوچستان میں سینیٹ کا انتخاب جیتنے کے لیے ایک امیدوار کو آٹھ ، خیبر پختونخوا میں سولہ، سندھ میں اکیس اور پنجاب میں سینتالیس ووٹر درکار ہیں۔ان میں بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ کے جو بھاؤ سامنے آئے ہیں ، اس کے مطابق بلوچستان میں ایک ووٹر کی قیمت تیس کروڑ تک جاپہنچی ہے۔ اس طرح بلوچستان میں منتخب ہونے والے ایک سینیٹر کی قیمت دو ارب چالیس کروڑ ہوگی۔خیبر پختونخوا میں ایک ووٹر کی قیمت سات کروڑ کے لگ بھگ ہے اس طرح وہاں پر ایک سینیٹر ایک ارب بارہ کروڑ کا پڑے گا۔ سندھ میں ایک ووٹر کی قیمت تاحال پانچ کروڑ تک ہے اس لیے یہاں پر ایک سینیٹر کی قیمت صرف ایک ارب پانچ کروڑ تک محدود ہے۔ فاٹا اور دیگر علاقوں کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔ایک لمحے کے لیے ٹہر کر سوچئے کہ جو سینیٹر دو ارب چالیس کروڑ خرچ کرکے منتخب ہوگا وہ بعد میں اسے واپس کیسے وصولے گا؟ یا جس سینیٹر کے انتخاب کے لیے کسی بھی خریدار (بشمول پارٹی قیادت یا کوئی کاروباری شخصیت )نے یہ قیمت لگائی ہوگی تو وہ اس رقم کی واپسی کے لیے قومی خزانے کو کہاں کہاں سے بھنبھوڑے گا؟ یہ نظام کی بدقسمتی ہے کہ وہ بدعنوانی کے اس کھلے میلے پر کوئی روک لگانے سے قاصر ہے مگر جب بعد میں ترقیاتی کاموں میں بدعنوانیوں کے اسکینڈلز سامنے آئیں گے تو پھر نیب حرکت کرے گااور انصاف کی بارگاہوں سے شور اُٹھے گا۔

سینیٹ انتخابات میں کھلی منڈی لگنے کا معاملہ اس قدر عیاں اور عریاں ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خود یہ انکشاف کیا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو سینیٹ کے ٹکٹ کے ایک امیدوار نے بیس کروڑ روپے کی پیشکش کی۔ کیا چیئرمین نیب کو فوراً حرکت میں آکر عمران خان سے اُس شخص کے بارے میں فوری معلومات نہ جمع کرنا چاہئے تاکہ اس پر ہمیشہ کے لیے کسی بھی انتخابی عمل میں شرکت پر پابندی لگادی جائے۔ معاشرے مثالیں قائم کرنے سے صراط مستقیم پر آتے ہیں۔

سیاست دان عام طور پر اس نوع کی باتیں عوام میں نہیں کرتے کیونکہ ایسی صورت میں خود اُن کے کپڑے بھی سرک کر تن کو عریاں کردیتے ہیں ۔ مگر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے نہ جانے کیوں اس پر بول پڑے۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنی جماعت کے حال اور ماضی تو نظرانداز کردیے مگر سوال درست اُٹھایا کہ صوبائی اسمبلی میں جس شخص کی جماعت کا ایک رکن بھی نہ ہو وہ سینیٹر کیسے منتخب ہوسکتا ہے؟ یہ بات بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ سودے بازی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ مگر وزیراعظم نے پھر کہا کہ لوٹ کھسوٹ، ضمیر فروشی اور ووٹوں کی خریداری کی سیاست قومی مفاد کے منافی ہے۔ وزیراعظم سے مگر ایک سوال ہے کہ وہ یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ یہ خریداری کون کرے تو قومی مفاد کے منافی ہوگی؟ کیونکہ چھانگا مانگا کی سیاست سے لے کر عدل کی بارگاہوں تک کو سجدہ ریز رکھنے کے لیے مسلم لیگ نون کی قیادت نے ’’بریف کیسوں‘‘ کے سہارے لیے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کو بلوچستان میں خود اپنے ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے قیمتیں لگانی پڑ رہی ہیں اور وہ لگا بھی رہی ہے۔ اس کے باوجود اُن کا روئے سخن مسلم لیگ ق کی طر ف تھا اور درست تھا کیونکہ مسلم لیگ (ق) کی پنجاب اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں، پھر بھی کامل علی آغا کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اُن کے لیے ووٹ کہاں سے آئیں گے؟ اس سوال کا جواب مشکل نہیں۔ سینیٹ انتخابات میں خریدوفروخت کا یہ عمل کوئی ناقابل فہم ریاضی کا سوال نہیں۔ امیدواروں اور اُن کی تجوریوں پر غور کر لیجیے ہر بات سمجھ میں آتی ہے۔دراصل کوئی بھی جماعت ایسی نہیں جس کا انحصار کامران ٹیسوری پر نہ ہو۔

بدقسمتی یہ نہیں کہ سینیٹ کا موجود انتخابی عمل تاریخِ پاکستان کا سب سے مہنگا اور بدعنوانی کا سب سے بڑااسکینڈل بن چکا ہے۔ بلکہ المیہ یہ ہے کہ اس کی جمہورت کے نام پر تکریم بھی واجب بنائی جاچکی ہے۔ دولت کے انبار سے پنپنے والے نظام کی بدعنوانیوں کی آکاس بیل ایسی بڑی اور گہری ہے کہ اس نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ذرائع ابلاغ تو خیر سے اس کے فیض یافتہ ہیں اور سرمائے کی اسی منتر سے حرکت کرتے ہیں۔ مگر دانشوروں کی بھی ایک اتنی بڑی کھیپ یہاں وجود میں آچکی ہے جو اس پورے عمل پر دھیان دینے کو تیار نہیں کہ یہاں غنڈوں کا مقابلہ غنڈوں اور دولت مندوں کا مقابلہ دولت مندوں سے ہوتا ہے۔عوام اس کا محض نمائشی حصہ ہے جنہیں حرکت میں لانے کے لیے دولت اور سیاست کے اپنے جادو ہوتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر