... loading ...
انسان جیسا ہوتا ہے، مثالیں وہیں سے آتی ہیں۔ مگر یہ وہ لوگ نہیں جنہیں مولانا رومؒ اور علامہ اقبالؒ کی زندگیوں سے کوئی علاقہ ہو، پھر بھی ایک واقعہ سیاسی دنیا کی ان آلودگیوں کے باوجود دامنِ توجہ کھینچتا ہے اور دامِ خیال کو چودھری نثار کے سلسلۂ کلام تک بچھاتا ہے۔
حیاتِ اقبال میں کچھ ایسے واقعات ملتے ہیں جن کی کوئی توجیہہ، اسباب وعلل کی اس مادی دنیا سے نہیں ہوتی۔ یہ بھی اُن میں سے ایک ہے۔ ایک دفعہ علامہ اقبالؒ کے پاس اُن کے دوست شیخ عبدالقادر تشریف لائے۔ جیسا کہ اقبالؒ ہمیشہ کسی خیال میں محو رہتے ، تب بھی تھے۔فرمایا کہ حضرت شیخ علی ہجویری کے مزار پر ایک بزرگ تشریف لائے ہیں، میں اُن سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں؟حضرت اقبالؒ کے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امت کو باقی تمام امتو ں پر فضیلت بخشی ہے تو پھر کیوں یہ امت خوار وخجل ہے؟ ہمیشہ غور وفکر میں مستغرق رہنے والے اقبال دل کی دنیا کے مسافر تھے جہاں وہ تعلیماتِ نبویﷺ کے نور سے اپنا گردوپیش روشن رکھتے ۔ مزار پر جانے کا فوری فیصلہ تاخیر کے باعث شام تک ملتوی ہوا۔پھر شام کی صبح بھی نہ ہوسکی تو اسے اگلے دن پر اُٹھا لیا گیا۔ اگلے روز کچھ اور ہی ماجرا ہوا۔شیخ عبدالقادر ذرا تاخیر سے حضرت علامہ کی قیام گاہ پہنچے تو علامہ کو سخت پریشان پایا۔اُنہوں نے علامہ اقبال سے خیریت دریافت کی تو علامہ نے کہا کہ صبح علی بخش (علامہ اقبال کا ذاتی ملازم) آیا اور کہا کہ ایک درویش صفت آدمی آپ سے ملنا چاہتے ہیں؟علامہ نے اُنہیں گھر میںبلایا تو وہ بزرگ تشریف لائے ۔ علامہ نے وجہ آمد پوچھی تو اُنہوں نے کہا کہ آپ مجھ سے کوئی سوال پوچھنا چاہتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے اور پھر مثنوی شریف کا یہ شعر پڑھا:
گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند
توندانی اول آں بنیاد راں ویراں کنند
(رومی نے کہا کہ پرانی بنیا دپر نئی عمارت بنانے والوں کو پتا ہونا چاہئے کہ پہلے اس بنیاد کو بالکل ختم کرتے ہیں)۔
چودھری نثار کی زندگی کو ایسی مثالوں سے کیا نسبت ہو سکتی ہے۔ اس لیے وہ پرانی بنیاد پر نئی عمارت کا ذلت آمیز کام جاری رکھیں گے۔ اس کے باوجود کہ وہ مسلم لیگ نواز کی ایسی گھمن گھیری میں پھنسے ہیں کہ اُنہیں اپنی سیاست اور عزت دونوں کے تحفظ کے لالے پڑے ہیں۔سیاسی دنیا میں سیاست کو عزت پر مقدّم جان لیا جاتا ہے۔ مگر یہاں عزت کی قربانی سے بھی سیاست بچتی نظر نہیں آتی۔وہ اپنی زندگی کو پرانی بنیاد سے باندھے ہوئے ہیں اور اِسے اپنی سیاست کا جوہر مانتے ہیں۔ مسلم لیگ نون سے پینتیس سالہ رفاقت میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ یہ بنیاد عزیز از جان رکھی جائے؟ اس کا جواب چودھری نثار کے پاس کوئی نہیں۔مغربی سیاست کے موجودہ تناظر میں جماعتی اور گروہی سیاست کے باب میں ایک نکتہ بیان کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگ پارٹی کے لئے اُصول چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ اُصولوں کے لیے پارٹی چھوڑ دیتے ہیں۔مگر چودھری نثار کا مسئلہ کچھ اس سے بھی سوا ہے۔ وہ نہ اُصولوں کے لیے پارٹی چھوڑنے کوتیار ہیںاور نہ پارٹی کے لیے اُصول چھوڑنے کو تیار ہیں۔
درحقیقت چودھری نثار کے پاس اب کھینچنے کے لیے رسیاں کم پڑتی جارہی ہیں۔ وہ اب مسلم لیگ نون کے ’’فاروق لغاری‘‘ بننے کے قریب ہیں۔ شاید اُن سے بھی کم کم۔ کچھ لوگوں کے لیے اُن کی ذہانت وبال بن جاتی ہے، چودھری نثار کے باب میں بھی یہی ماجرا ہے۔ اُنہوں نے ذرائع ابلاغ سے تازہ گفتگو میںدو بنیادی باتیں کی ہیں۔ ڈان لیکس کی رپورٹ اور مریم نواز کی برتری کا مخمصہ!چودھری نثار سیاست میں وقت کی اہمیت کو فراموش کرگئے۔ ایک مغربی مفکر کے بقول جو مکا ، موقع کے بعد یاد آئے وہ اپنے منہ پر مارنا چاہئے۔اُنہوں نے ڈان لیکس کی رپورٹ پر اب پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ تنبیہ کی کہ اگر یہ اجلاس نہ بلایا گیا تو وہ رپورٹ منظر عام پر لے آئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ یہ کام کیوں کریں گے؟ اگر یہ قومی فریضہ ہے اور معاملے کی حسیاست اس کا تقاضا کررہی ہے تو وہ اس معاملے پر اب تک یہ کردار ادا کرنے سے کیوں گریزاں رہے؟ آخر اُنہیں یہ معاملہ پرویز رشید کی طرف سے لب کشائی اور اُنہیں پارٹی چھوڑنے کا مشورہ دینے کے بعد کیوں بے قرار کررہا ہے؟اس سے تو ذاتی غصے اور انتقامی میلان کی بُو آتی ہے۔ ایک بات پوری طرح آشکار ہے کہ چودھری نثار کو اصل شکایت پرویز رشید سے نہیں بلکہ خود نوازشریف سے ہیں۔ مگر پارٹی قیادت کے خلاف اُصولی لب کشائی ہماری سیاسی نفسیات سے بہت دور پرے کی کوئی چیز ہے۔یہ بات کسی اندھے کو بھی سجھائی دیتی ہے کہ ڈان لیکس سے لے کر پرویز رشید کی طرف سے چودھری نثار کے خلاف لب کشائی تک کوئی ایک بھی معاملہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو پرویز رشید کی جانب سے اپنے قائد کی مرضی کے خلاف رہا ہو۔ برصغیر کا مزاج غلامی کی نفسیات سے آلودہ ہے اور یہاں بت پرستی ، شخصیت پرستی، اکابر پرستی اور مقابر پرستی کے رجحانات شریانوں میںخون کی طرح دوڑتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ پرویز رشید کوئی قدم بھی تنہا اُٹھا لیں۔ یہ معمولی بات چودھری نثار بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔مگر اُن کی ’’اُصولی‘‘ گفتگو کا دائرہ صرف پرویز رشید تک محدود ہے، پارٹی قیادت یا نوازشریف پر وہ بات کرنے سے گریزاں ہیں۔
چودھری نثار نے جس دوسرے پہلو پر بات کی وہ مریم نواز کی سیاسی قیادت کو تسلیم کرنے سے جڑا ہے۔ مسلم لیگ نون کی سیاسی قیادت مریم نواز کو بتدریج سپرد کی جارہی ہے۔ ظاہر ہے کہ موصوف نوازشریف کے انجام کا درست اندازا رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ شہبازشریف کی پارٹی میں بالادستی چاہتے ہیں۔ اس خاندانی بکھیڑے میں ،جس پر جمہوریت کا زرق برق ورق بھی چڑھا ہوا ہے، ہر طرح کی کھینچاتانی اُسی طرح موجود ہے جو سیاسی اقتدار کے حوالے سے مستند تاریخی حوالے رکھتی ہے۔ چودھری نثار اس کھیل میں کہیں فریق اور کہیں رفیق ہیں۔ اس ضمن میں دو پہلو بالکل واضح ہیں۔ نوازشریف مسلم لیگ نون کی وراثت شہباز شریف کے بجائے مریم نواز کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے جڑا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شہبازشریف سیاسی قیادت کی منتقلی کے اس عبوری دور میں چودھری نثار کی مانند ’’غیبی امداد‘‘ کے منتظر ہیں۔ سیاست پہل کاری ، پیش قدمی اور موقع شناسی کا نام ہے۔ مگر ان دونوں صاحبان میں اس کی جرأت ہی نہیں۔ نواز شریف ان دونوں شخصیات کی محدودات کا اندازہ رکھتے ہوئے اپنے سیاسی کھیل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ یہ دونوں حضرات سمجھتے ہیںکہ اُنہیں یہ موقع ’’فاروق ستار‘‘ کی طرح ہاتھ لگے گا جب الطاف حسین نے اپنے انجام کو اپنے ہاتھوں لکھوا کر قومی اداروں سے’’ ناقابل قبول ‘‘کا اعلانیہ فیصلہ پالیا تھا۔ مگر یہ معاملہ اپنی بناؤٹ میں کچھ مختلف ہے۔ اگر نوازشریف، الطاف حسین بن بھی گئے تو بھی چودھری نثار ، فاروق ستار نہیں بن پائیں گے۔چودھری نثار کو سارے مکے موقع نکلنے کے بعد یاد آتے ہیں اور وہ پرانی بنیاد پر نئی عمارت کے خواہش مند ہیں، اس کا نتیجہ خجل خواری کے سوا کچھ نہ نکلے گا۔