... loading ...
اُردو کی شعری اصناف میں غزل نے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ غور سے دیکھیے تو غزل ہمارے آسمانِ ادب کا آفتاب ہے، باقی اصناف چاند ستاروں کی طرح ہیں۔ مرثیے کی وسعتِ بیان، رزمیہ طرزِ اظہار اور جذبات نگاری، قصیدے کا شکوہ،مثنوی کا شعری محاسن سے آراستہ کہانی پن، رباعی کافکری وقار اپنی جگہ لیکن غزل کا ایک شعر جس اختصار و ایجاز کے ساتھ زندگی کے کسی رنگ ، کیفیت یا حقیقت کا اظہار کرتا ہے، وہ منفرد اور حیرت ناک ہے۔ دوسری اصناف کے مقابلے میں غزل کے اشعار ہمیں اپنے دل سے زیادہ نزدیک محسوس ہوتے ہیں۔ اُن کی جمالیات اور غنائیت سے ہماری آشنائی بہت پرانی ہے۔ غزل ہماری تہذیب کا چراغ ہے۔ یہ ہماری اجتماعی نفسیات میں اُترگئی ہے۔ اِسی لیے غزل بعض نامور نقادوں اور قلمکاروں کی مخالفت کے باوجود بھی زندہ ہے۔ غزل کے زندہ رہنے کی دو سب سے بڑی وجوہات ہیں، ایک تو اِس میں ہر طرح کے مضامین کو ادا کرنے کی اہلیت ہے، چاہے وہ مضامین، عشقیہ ہوں، فلسفیانہ ہوں، تصوف سے متعلق ہوں، سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق ہوں، سماجی ہوں یا سیاسی ہوں۔ غزل کے کینوس پر سب کے لیے جگہ موجود ہے۔ غزل کے مسلسل ارتقائی سفر کی دوسری وجہ یہ ہے کہ غزل میں ہر عہد کے لسانی اور شعری تقاضوں کے مطابق تبدیل ہوجانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ولیؔ کے عہد سے لے کر آج تک غزل نے کئی روپ بدلے ہیں۔ آج ہماری جدید اُردو غزل، صرف موضوعات ہی میں نہیں، اپنے پیرایۂ اظہار میں بھی کلاسیکی غزل سے صریحاً مختلف ہے۔ یہ غزل عصریت اور تازگیٔ خیال سے عبارت ہے۔
عصری غزل کے منظر نامے پر نظر ڈالیے تو آپ کو رفیع الدین رازؔ بہت نمایاں نظر آئیں گے۔ اُن کی غزل ہمارے ادبی سرمائے میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ میرے نزدیک رفیع الدین رازؔ کی غزلیں اِس لیے اہم ہیںکہ یہ ہمارے عہد کے آشوب کا اظہار بھی کرتی ہیں اور اِن میں تازہ خیالی کے رنگ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ رفیع الدین رازؔ ایک پڑھے لکھے، خلّاق طبع، منکسر اور خودساز انسان ہیں۔ اُن کے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ اُنہوںنے اپنا سفر زیرو (ZERO) سے شروع کیا اوراپنی اَنتھک محنت، جدوجہد اور سچائی پر یقین کے راستے سے وہ کامیابی کی موجودہ منزل تک پہنچے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُنہیں زندگی کے سفر میں مخالفت اور دل شکنی کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن وہ مخالفت اور دل آزاری کے رویوں سے کبھی افسردہ نہیں ہوئے بلکہ اِس سے اُن کے اندر ایک نئی ہمت پیدا ہوئی۔
یہی اُمید پرستی اور مثبت اندازِ فکر اُن کی سب سے بڑی دولت ہے۔ اِسی نے اُن کی شخصیت کو ہمیشہ ٹوٹنے سے بچائے رکھا۔ وہ آج جو کچھ بھی ہیں، اپنے اِسی باطنی یقین کی وجہ سے ہیں۔ اُن کے اندر ابتدا سے ہی یہ یقین موجود رہا ہے کہ انسان کو سچائی، اخلا ص اور محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔ اِس میں کچھ تاخیر تو ہوسکتی ہے مگر ناکامی نہیں۔ اُن کی شاعری میں بھی اُن کا یہ یقین جگہ جگہ جھلکتا ہے۔ اُنہوںنے اپنی تخلیقی شخصیت کے ساتھ ساتھ اپنے فن کا لوہا بھی اہلِ نقدونظر سے منوایا ہے۔ وہ ایک قادر الکلام اور عروضی نکات کو سمجھنے والے شاعر ہیں۔ اُنہو ں نے غزل کے علاوہ بھی دوسری اصناف کو اپنے اظہار کے لیے منتخب کیا۔ رباعی، نعت، قطعہ، انشائیہ، آزادنظم، پابند نظم، دوہا، ہائیکو، ماہیا، تروینی اور افسانے میں وہ اپنے تخلیقی جوہر دکھاچکے ہیں۔ اُنہوںنے رباعی کے چوبیس اوزان میں رباعیات کہی ہیں اور رباعی کے سارے اوزان میں غزلیں بھی لکھی ہیں۔ اُردو ادب میں اُنہیں اِس کی اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے کیوں کہ رباعی کے ہر وزن پر غزل لکھنے کی روایت اِس سے پہلے نہیں ملتی۔
آج کل وہ امریکا میں مقیم ہیں۔ یہ اُن کی تیسری ہجرت ہے۔ جس کے خدوخال اُن کی تحریروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ امریکا کی اُردو بستیوں میں وہ ایک کہنہ مشق سینئر اور صفِ اوّل کے شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ امریکا کے مشاعروں میں اُنہیں سب سے زیادہ داد ملتی ہے اور سامعین اُن کی شفیق شخصیت اور بلند معیارِ کلام کے باعث اُن سے محبت کرتے ہیں۔ وہ ایک کم گو، سنجیدہ اور نرم خو انسان ہیں۔ اگر وہ کبھی کسی موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہیں تو، اُن کی دیانتِ فکر، اور زندگی کے بارے میں اُن کی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ انسانی رشتوں کا احترام کرنے والے شخص ہیں۔ وہ مذہبی انتہا پسندی اور قتل و غارت گری کے خلاف ہیں۔ وہ عالمی تاریخ کے بہترین شناسا ہونے کی وجہ سے بڑی طاقتوں کے استحصال اور عالمی سیاسی منظرنامے سے پوری طرح واقف ہیں ، اِسی لیے اُن کی غزل محض انفرادی تجربے کا اظہار نہیں بلکہ اجتماعیت کی امین ہے۔
اِس سے قبل اُن کی غزلوں کے سات مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور ایک ضخیم کلیات ’’ سخن سرمایہ‘‘ جو غزلیات پر مشتمل ہے منظرِعام پر آچکا ہے۔ اُن کی شاعری پر ہمارے عہد کے تقریباً سارے بڑے نقاد اور شعراء اپنی آراء کا تحریری اظہار کرچکے ہیں۔ وہ بہت خوش نصیب ہیں کہ اُنہوں نے اپنی زندگی ہی میں ادب کے بڑے لوگوں سے داد پائی۔ ہمہ اصناف ہونے کے باوجود رازؔ صاحب کی شاعری کا بنیادی حوالہ ان کی غزل ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ چند بنیادی باتیں تو اُن کی غزل کے بارے میں ہر نقاد ہی نے کہی ہیں اور آج ہم رفیع الدین رازؔ کی غزل کو اِنہی تنقیدی کلّیات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اِن میں ایک بات تو اُن کی رجائیت کے تناظر میں ہے کہ اُن کی شاعری میں نااُمیدی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ وہ زندگی کے غموں اور مصائب میں یاسیت کے اندھیروں کو اپنے پاس نہیں آنے دیتے۔ یقین اور اُمید کا اُجالا ہمیشہ اُن کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ عصرِ جدید کے انسان کی تمام سفّاکی، زرپرستی، خود غرضی اور خوں آشامی کے باوجود اُس سے مایوس نہیں ہیں۔ وہ مستقبل کی دنیا کو ایک بہتر اور پُرامن دنیا بنانے کا خواب دیکھنا کبھی ترک نہیں کرتے۔ اُن کی شاعری کے اِس رجائی انداز کا خصوصی تذکرہ اُن پر لکھے جانے والے مضامین میں ملتا ہے۔ چوںکہ رجائیت اور ظلم و آلام سے برسرِپیکار ہونے کا رویہ اُن کی ذات اور اُن کے تخلیقی شعور کا جزوِ اعظم ہے، اِس لیے زیرِ نظر مجموعۂ غزلیات ’’درِ آئینہ‘‘ میں بھی یہ اُمید پرستی ہمیں نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔
رازؔ صاحب کے شاعرانہ اسلوب کے بارے میں دوسری بات جو نقادوں نے ان کی غزل کے تنقیدی مطالعے کے نتیجے میں کہی وہ یگانہ کے اثر کے حوالے سے ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ ان کی غزل کا لہجہ اور طرز اظہار یاس یگانہ چنگیزی سے بہت مماثل ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ مماثلت شعوری نہیں ہے۔ یہ دو شاعروں کی زندگی کی مماثلت ہے۔ یہ زندگی اور کائنات کو دیکھنے کے انداز نظر کی مماثلت ہے، یہ دو نظریہ ہائے حیات کی مماثلت ہے۔ انہوں نے کسی کی نقل نہیں کی، کسی سے کچھ مستعار نہیں لیا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے کلاسیکی ادب سے فیض حاصل نہیں کیا، اُن کے مطالعے نے اُن کے تخلیقی شعور کی تشکیل کی۔ اُنھوں نے روایت کے بہترین حصوں کے اثرات سے اپنی فکر سخن کو مہمیز کیا ان کے رنگوں کی آمیزش سے ایک نیا رنگ بنایا، ایک بالکل نیا لہجہ تراشا، جذبات کی جگہ افکار کو دی اورمحبت کے تصور کو محبوب کی فردیت سے نکال کر ساری انسانیت پر پھیلا دیا۔
جہاں تک رفیع الدین راز کی غزلوں میں ان کے انادار لہجے اور طرزِ ادا کا تعلق ہے۔ ہم اسے ایک قسم کا احساس غیرت اور خود داری سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حالات کے جبر اور دنیا کے برتائو نے ان کے خود داری کے جوہر کو اور بھی چمکا دیا ہے۔ ان پر درد کے کتنے ہی موسم گزرگئے مگر انہوں نے دست طلب کبھی درازنہیں کیا، اسے آپ ان کی انا بھی کہہ سکتے ہیں، مگر یہ انانہ توانائے شکستہ ہے اور نہ ہی انائے کج، یہ ایک مثبت انا ہے، جو زندگی کی رزم گاہ میں راز صاحب کی سپر ہے اور کبھی کبھی شمشیر بھی۔ یہ انا ایک صحت مند انسانی رویہ ہے۔ جس میں دنیا سے نفرت، طیش یا انتقام کے جذبات نہیں ہیں۔ آپ یوں سمجھ لیجیے کہ رفیع الدین راز کو اپنی ذات کا گیان بھی ہے اور اپنے چاروں طرف موجود انسانوں کا دھیان بھی۔ یہی توازن ان کی شخصیت اور ان کی سخنوری کا سب سے مستحکم ستون ہے۔
ہر شاعر کے یہاں بعض علامتیں بار بار اپنا چہرہ دکھاتی ہیں۔ رفیع الدین راز کی غزلوں میں آئینے کا لفظ بار بار آتا ہے۔ ’’آئینہ‘‘ صوفیاء کے نزدیک کائنات کی علامت ہے۔ بعض صاحبانِ حال نے اِس سے قلب بھی مراد لیا ہے۔
کہتے ہیں آئینے کا لفظ اُردو اور فارسی شاعری میں سب سے زیادہ بار عبدالقادر بیدلؔ نے استعمال کیا اور ہر بار اُس کی عظیم شاعرانہ بصیرت نے اِس علامت کو ایک نئی جہت دی ہے۔ بیدل کے بعد مرزا اسد اللہ خاں غالب نے آئینے کی علامت کو اپنی شاعری کی زینت بنایا۔ غالب کی غزلوں میں لفظِ آئینہ واقعی گنجینۂ معنی کا طلسم نظر آتا ہے۔
رفیع الدین کے مجموعے ’’درِ آئینہ‘‘ میں آئینے کی علامت کُل ۱۷۔ اشعار میں ملتی ہے۔ اس مجموعے کے نام سے بھی رفیع الدین راز کی اِس لفظ سے ایک خاص تخلیقی وابستگی ظاہر ہوتی ہے۔ اس سے قبل کے مجموعوں میں بھی رفیع الدین راز نے آئینے کی شعری علامت کو بڑے حسن کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ دراصل لفظِ آئینہ راز صاحب کے شعری وجدان میں اہم مقام رکھتا ہے۔ وہ اِسے ظاہر و باطن کی یکسانیت یعنی منافقت ریارکاری اور دروغ کی ضد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ آئینہ اُن کی نگاہ میں سچائی کا مظہر ہے جو حقیقت کو ویسا ہی دکھاتا ہے جیسی وہ ہے۔ کہیں کہیں وہ اِسے تخلیق کی علامت کے طور پر بھی استعمال کرتے ہی۔ معنوی سطح پر آئینہ اُن کی شاعری میں جمالِ ذات اور جمالِ کائنات کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ اُنہوں نے اپنے بعض اشعار میں آئینے کو لفظ انکشافِ راز کے معنوں میں بھی برتا ہے۔
مجھے عصرِ نو میں غالب کا رنگ پورے اُسلوبیاتی اہتمام کے ساتھ یا تو عزیر حامد مدنی کے یہاں نظر آتا ہے۔ یا پھر ایک خاص زاویے سے رفیع الدین راز کی غزلوں میں۔
فراقؔ نے خواجہ حیدر علی آتش کو اخلاقی مضامین کا بادشاہ کہا ہے۔ آتش کے یہاں اخلاقی مضامین تصوف کی راہ سے آئے ہیں۔ رفیع الدین راز کی شاعری پندو نصائح کا دفتر نہیں ہے۔ وہ اپنے اشعار میں آفاقی انسانی قدروں کی طرف محض اشارہ کرتے ہیں، کیونکہ شعریت کو وہ صداقت پر قربان نہیں کرتے۔ ورنہ صحافت اور شاعری پھر کوئی حد فاصل باقی نہیں رہے گی۔ وہ غالب کی طرح زندگی اور اس خاکدان آب و گل کے بارے میں بڑے سوالوں کو Address کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ وہ مرزا اسد اللہ خاں غالب تو نہیں مگر مرزا رفیع الدین بیگ ضرور ہیں اُن کی رگوں میں مغل خون گردش کررہا ہے۔ اور اُن کے شاعرانہ اسلوب میں سلطنت رفتہ کی شان و شوکت اپنی چھب دکھاتی ہے۔ شاید یہی پس منظر ہے جس کے سبب ان کی خاکساری میں بھی ایک وقار ہے۔ انہیں غالب کی غزلوں کی زمینیں بہت پسند ہیں وہ ہمیشہ غالب کی زمینوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ موجودہ کتاب میں بھی غالب کی زمینوں میں سولہ غزلیں موجود ہیں۔
غالب کی زمینوں میں رفیع الدین راز نے جدید غزل کے ایسے رنگ سجائے ہیں جنہوں نے ایک نابغہ سخن کی زمینوں کو اور زیادہ روشن کردیاہے۔ ان غزلوں میں ان کی قدرت کلام اور لسانی گرفت بھی قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ راز صاحب کی ہر غزل کسی نہ کسی شعر پر پڑھنے والے کو چونکاتی ضرور ہے۔
حالی نے شاعری کی ایک ایسی کسوٹی ہمیں دے دی ہے کہ جس کے واسطے سے ہم کمترین اور بہترین شاعری کا فرق جان سکتے ہیں اور بلند معیار کی شاعری کو فوراً پہچان سکتے ہیں۔ اس معیار پر جانچیے تو رفیع الدین راز کی غزل آپ کو کھرا سونا محسوس ہوگی۔ وہ سونا جس میں سچائی کی چمک ہے۔ جذبات اور افکار کے یہ درخشاں شعری نقوش قاری کی نگاہوں کو خیرہ کرتے ہیں۔ اُن کے زندہ افکار کی قوس قزح اُن کی غزلوں میں جا بہ جا اپنے رنگ بکھیرتی ہے۔ اُن کی غزل مردہ استعاروں کا ہجوم نہیں زندہ خیالات کا گلدستہ ہے۔ وہ زندگی میں بھی اور اپنے فن میں بھی خرد افروزی کے قائل ہیں۔ اُن کے دل میں استدلال کی حرمت ہے۔ آپ اُن کی شاعری کی تہہ میں اتریے تو جان جائیں گے کہ وہ شرف انسانیت کے شاعر ہیں۔ رفیع الدین راز کی شاعری ایک مثالی دنیا کی تلاش کی شاعری ہے۔ اُن کا یہ خواب بہت قیمتی ہے۔ وہ اپنے اس خواب میں ہمیںبھی شریک کرنا چاہتا ہے۔ اپنی شاعری اور اپنے فن کے ذریعے ۔ اپنی تازہ رخ غزلوں کے ذریعے۔ اُن کی خاموش طبعی کے اندر ایک شورِ کائنات چھپا ہوا ہے۔ یہی شور حیات انگیز رفیع الدین راز کی تخلیقات میں نغمگی کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آتا ہے اور اُن کی شعری غِنائیت قاری کو اپنے حصار افسوں میں لے لیتی ہے۔ اُن کی غزلوں میں معاشرے کے تضادات کو اجاگر کرنے کا رویہ بھی ہے اور جدید عہد کے انسان کا المیہ بھی، جدید عہد کا انسان جسے بڑی طاقتوں کی استعمار پسندی، دہشت گردی، اور سرمایہ دارانہ نظام کے جبر نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔
رفیع الدین راز کی شاعری ہر نوع کے ظلم کے خلاف آج کے انسان کی صدائے احتجاج ہے۔ اُن کی شاعری ہر قسم کی غلامی کو مسترد کرتی اور انسان کی آزادی کا علم بلند کرتی ہے۔ اسی لیے اُن کی فکر اور اُن کا اسلوب اظہار ہمارے دلوں کو تسخیر کرلیتا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...
ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے شہر قائد میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 کا دورہ کیا اور دوست ممالک کی فعال شرکت کو سراہا ہے ۔پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی کے ایکسپو سینٹر میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 ...
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے وفاقی دارالحکومت میں 2 ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی جس کے تحت کسی بھی قسم کے مذہبی، سیاسی اجتماع پر پابندی ہوگی جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو شہر میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے ۔تفصیلات کے مطابق دفعہ 144 کے تحت اسلام آباد میں 5 یا 5 سے زائد...
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ عمران خان نے علی امین اور بیرسٹر گوہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دے دی ہے ۔اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے طویل ملاقات ہوئی، 24نومبر بہت اہم دن ہے ، عمران خان نے کہا کہ ...
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملکی سیکیورٹی میں رکاوٹ بننے اور فوج کو کام سے روکنے والوں کو نتائج بھگتنا ہوں گے ۔وزیراعظم کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے ، کوئی یونیفارم میں ...
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست خارج کردی۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔پاک فوج کے سربراہ جنرل...
برطانوی وزیر مملکت خارجہ برائے جنوبی ایشیا اور مشرقی وسطی ہمیش فالکنر پاکستان پہنچ گئے ۔ذرائع کے مطابق یہ کسی بھی برطانوی حکومتی شخصیت کا 30 ماہ بعد پہلا دورہ پاکستان ہے ، ایئرپورٹ پر برطانیہ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر محمد فیصل نے مہمان خصوصی کا استقبال کیا۔برطانوی وزیر کا دورہ پ...
عمران خان نے کہا ہے کہ میڈیا کا گلہ گھونٹ دیا گیا ، وی پی این پر پابندی لگا دی،8فروری کو ووٹ ڈالا، انہوں نے آپ کو باہر نکال کر چوروں کو پارلیمنٹ میں بٹھا دیا، آپ اب غلام بن چکے ہیں، علیمہ خانم عمران خان کی رہائی کے بغیر واپس نہیں آئیں گے، ورکز اجلاس میں وزیراعلیٰ کے پی علی امین ...
وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں الجہاد الجہاد کے نعرے لگ گئے ۔ورکرز اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے جب کہا کہ ہم نے عمران خان کی رہائی بغیر واپس نہیں آنا تو کارکنوں نے نعرے لگانا شروع کردیے ۔پی ٹی آئی کارکنان کافی دیر تک ’’سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد اور انق...