وجود

... loading ...

وجود

امریکا کاافغانستان کی کھائی سے نکلناناممکن

هفته 10 فروری 2018 امریکا کاافغانستان کی کھائی سے نکلناناممکن

افغانستان میں جاری جنگ کی قیمت امریکی ٹیکس دہندگان کو 45۔ارب ڈالر سالانہ کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے امریکا افغانستان میں اپنی فوج پر 13۔ ارب ڈالر خرچ کرتا ہے، پانچ ارب ڈالر سالانہ افغان فوج کے لیے مختص کیے جاتے ہیں باقی اخراجات اسلحے اور سازو سامان کی رسد پراٹھ جاتے ہیں۔ افغانستان کی معاشی ترقی کے لیے 78 کروڑ ڈالر خرچ ہوتے ہیں اس وقت افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 16ہزار ہے، امریکی کانگرس کے منتخب ارکان نے جنہیں افغانستان میں امریکا کی کامیابی کا یقین نہیں، افغانستان میں طویل ترین جنگ اور اس جنگ کو جس سمت میں لے جایا جارہا ہے ٹرمپ انتظامیہ کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا ہے افغان جنگ سترہویں برس میں داخل ہوچکی ہے اوراس کا کوئی اختتام بظاہر نظر نہیں آتا، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا اور یہ مزید کتنے برس جاری رہ سکتی ہے، ری پبلکن سینیٹر رینڈ پال نے کہا ہے کہ اربوں ڈالر ضائع کیے جارہے ہیں ہم ایک کھائی میں پھنس گئے ہیں اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

امریکا نے نائن الیون کے ایک ماہ بعد افغانستان پر فضائی حملہ کردیا تھا، تابڑ توڑ حملے کر کے اس وقت کی افغان انتظامیہ کو بے بس کرنے کے بعد اتحادی افواج افغان سرزمین پر اْترنا شروع ہوئیں جن میں امریکی اور نیٹو افواج شامل تھیں، طالبان کی حکومت تتر بتر ہوگئی تو امریکا نے اپنے ایک معتمد حامد کرزئی کو کابل کے تخت پر براجمان کردیا، وہ دوبار صدر منتخب ہوئے اْن کے بعد اب اشرف غنی اقتدار میں ہیں اس دوران اتحادی فوج کی تعداد بڑھتی گھٹتی رہی ایک وقت میں یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ چکی تھی، اِس عرصے میں دو امریکی صدور اپنی آٹھ آٹھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد تاریخ کے حوالے ہوگئے اور اب تیسرے صدر ٹرمپ برسراقتدار ہیں اور اْن کے بارے میں تمام ترمخالفت کے باوجود تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ اگرچاہیں تو دوسری ٹرم کے لیے بھی صدر منتخب ہوسکتے ہیں لیکن اْن کی صدارت میں بھی افغانستان میں نہ تو سیاسی استحکام نظر آتا ہے اور نہ ہی امن وامان کی صورتِ حال بہتر ہورہی ہے، کابل کے ہائی سیکیورٹی زون میں بھی دھماکے اور خودکش حملے معمول بن گئے ہیں حالیہ چند ہفتوں میں خونی واقعات میں دوسو سے زائد افغان ہلاک ہوگئے ہیں۔

امریکا میں ارکانِ کانگرس کو اس بات پر تشویش ہے، سینیٹر رینڈپال، جن کا تعلق صدر ٹرمپ کی اپنی جماعت سے ہے جنگ کے انجام سے مایوس ہیں ایک اور سینیٹر کرس کونز کا کہنا ہے کہ طالبان تو طویل عرصے تک جنگ کے خاتمے کا انتظار کرسکتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ میری باقی ماندہ زندگی میں امریکا اس جنگ میں اْلجھا رہے گا، دونوں سینیٹروں کے خیالات میں جہاں مایوسی جھلکتی ہے وہاں زمینی حقائق کے مطابق اْن کا خیال بھی درست لگتا ہے، افغانستان میں امریکی موجودگی کے باوجود حالات جس نہج پر جارہے ہیں اْن سے جنگ کا اختتام کہیں نظر نہیں آتا، امریکی صدر یوں تو دنیا کے کئی ملکوں کی امداد بند کرنے پر تلے رہتے ہیں اور اْن کا خیال یہ ہوتا ہے کہ امریکی امداد لینے والے ملک بھی ان کے خلاف اقوامِ متحدہ میں ووٹ دیتے ہیں اب وہ ایسے ملکوں کو امداد دینے کے خواہاں ہیں جو ان کی امداد لے کر ووٹ بھی اْن کی پالیسیوں کے حق میں دیں، لیکن ایسے ملک کرہِ ارض پر بہت کم ہیں۔

امریکا افغانستان میں فوجی اور اقتصادی سرگرمیوں پر جو اخراجات کررہا ہے اس کا کوئی نتیجہ تو بظاہر نکلتا نظر نہیں آتا، اگر ایسا ہوتا تو امریکی سینیٹروں کے بیانات سے مایوسی کیوں جھلکتی؟ صدر ٹرمپ جس انداز میں افغان مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں اس پر امریکا کے اندر بھی اتفاق رائے نہیں ہے پھر منطقی بات یہ ہے کہ جس وقت امریکا کی فوج ڈیڑھ لاکھ تھی اگر اس وقت نتائج حسب منشا نہیں نکلے تو اب سولہ ہزار فوجیوں سے کس کرشمے کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ افغانستان میں امن و استحکام لانے اور حالات کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ تمام سٹیک ہولڈروں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور افغان انتظامیہ اور سابق صدر، پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ بند کردیں پاکستان نے امریکا اور افغانستان دونوں کو اس امر کے واضح شواہد پیش کردئے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے دہشت گرد گروپ افغانستان منتقل ہوچکے ہیں اور وہیں بیٹھ کر پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔ افغانستان ان کے خلاف کارروائیاں کرنے کی بجائے اْلٹا کابل کے خود کش حملوں میں بلاوجہ پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ شواہد کے مطابق پاکستان کے اندر اس وقت جتنی بھی کارروائیاں ہورہی ہیں ان سب میں وہی عناصر ملوث ہیں جو افغانستان میں موجود ہیں یا پاکستان سے فرار ہوکر اپنی کمین گاہیں افغانستان میں بنا چکے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا درست راستہ اختیار کرنے کی بجائے پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کررکھا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف مزید کارروائیاں کرے جبکہ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ سب دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کرکے پاکستان کی سرزمین سے اْن کا خاتمہ کردیا گیا ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اِن دہشت گردوں کو افغانستان میں تلاش کرکے ختم کیا جائے لیکن امریکا نے اس موقف کو تسلیم کرنے کی بجائے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے امداد بند کرنے کا راستہ اختیار کیا، اب جب کہ امریکی انتظامیہ اپنے اس فیصلے پر عملدرآمد کررہی ہے امریکا میں بہت سے انتظامی افسر اور کانگرس کے ارکان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی امداد بند کرنے سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے اور نہ ہی حاصل ہونے کا امکان ہے کیونکہ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں شروع کررکھی ہیں اور اپنے ایسے فیصلے آزادانہ کررہا ہے جو اس کے مفاد میں ہیں۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کا بنیادی کردار ہے اور پاکستان کے تعاون کے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا لیکن امداد بند کرکے نہ تو پاکستان سے تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے مجبور کرکے کوئی ایسا اقدام کرایا جاسکتا ہے جو اس کے مفاد کے منافی ہو۔ تاہم امریکی انتظامیہ نے فارن ریلیشنز کمیٹی میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ امداد بند کرکے صدر ٹرمپ نے درست فیصلہ کیا تھا اور اگر پاکستان دہشت گرد گروپوں کے خلاف تسلسل کے ساتھ کارروائیاں کرے تو یہ امداد بحال بھی ہوسکتی ہے، یہ وہ موقف ہے جو امریکا کی جانب سے بار بار سامنے آرہا ہے تاہم پاکستانی موقف بھی واضح ہے ایسے میں یہ فیصلہ امریکا کو ہی کرنا ہے کہ وہ پاکستان کا تعاون کس قیمت پر طلب کرنے کا متمنی ہے اور افغانستان کی کھائی سے نکلنے کے لیے کیا کررہا ہے افغانستان میں اْلجھ کر امریکا کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اس پر امریکی پالیسی سازوں کو غور کرنا چاہئے مبادا سینیٹروں کا یہ خدشہ درست ثابت ہو جائے کہ امریکا اْن کی زندگی میں اس دلدل سے نکلتا نظر نہیں آتا۔


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر