... loading ...
(قسط نمبر:)
اسسارے میں حیرت کا مقام یہ کہ کشمیر کی آزادی پسند لیڈرشپ نے بھی بیانات تک ہی معاملہ محدود رکھ کر جموں صوبہ کے سارے مسلمانوں کو بے حد مایوس کر دیاہے جس آزادی پسند لیڈرشپ کا دعویٰ ہے کہ ہم پورے جموں و کشمیر کے عوام کے نمائندے اورجذبات کے ترجمان ہیں ۔اہلیان جموں آج یہ پوچھتے ہیں اور ان کا یہ حق ہے کہ آخر لیڈرانِ کرام نے اس قدر بے حسی کا مظاہراکیوں کیا ؟ کیا آصفہ ان کی بیٹی نہیں تھی؟ ان سے بھی بڑھ کر ریاست کی مذہبی جماعتوں کا معاملہ شرمناک نظر آیا جنہوںنے حریت تنظیموں کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے ایک آدھ بیان تک معاملہ محدود رکھ کر اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ وہ اسی وقت کچھ کرتے ہیں جب حریت لیڈران’’کچھ کہیں یا کریں‘‘نہیں تو انہیں اس بات کی سدھ بدھ تو ہونی چاہیے کہ حریت کچھ کرے یا نا کرے انہیں ان جیسے سانحات میں ضرور کچھ کرنا چاہیے نہیں تو ان کا مذہبی جماعتوں کا دعویٰ ہی ایک طرح کا مذاق معلوم ہوتا ہے ۔
صوبہ جموں سے تعلق رکھنے والے بیرون ممالک بعض مسلمان نوجوانوںنے کشمیریوں کی خاموشی کوایک مختلف مگر خوفناک پہلو سے سمجھنے کی کوشش کی ہے جس سے مجھے سخت دھچکہ لگا ہے وہ کہتے ہیں کہ کشمیری صرف اپنے مسائل کے ارد گرد ہی گھومتے ہیں اور یہ المیہ آج کا نہیں بلکہ 1947ء سے لیکر آج تک برابر کا نظر آتا ہے ۔ان کہنا ہے کہ جب 1947ء میں ہمارا قتل عام ہوا تو اس وقت بھی کشمیری خاموش رہے یہاں تک کہ ہماری اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا گیا اور آج نتائج ساری دنیا کے سامنے ہیں ۔کشمیریوں کو ہم سے شکایت یہ ہے کہ ہم ان کی تحریک میں ان کی طرح سرگرمی کے ساتھ حصہ نہیں لیتے ہیں مگر ہمیں کشمیری یہ بتائیں کہ کیا جموں و کشمیر کی کوئی بھی ساسی یا مذہبی تنظیم میں جموں والوں کو برابری کی بنیاد میں اپنے ساتھ شامل کیا گیا ۔اس کے باوجود میں ہمارے نوجوانوں نے بھی اپنے خون کی قربانی پیش کی اور لیڈران نے قربانیاں دیدیں فرق بس اتنا ہے کہ عسکریت پہلے جموں میں کمزور ہوئی پھر کشمیر کے صوبے میں ۔لیڈران پہلے جموں کے بعض عیاں وجوہات کی بنیاد پر کم سرگرم رہے بعد میں کشمیری اور تو اور کشمیرکی بعض تنظیموں نے آزادی کی جدوجہد میں نہ صرف واپسی کا فیصلہ لیا بلکہ سرنڈر بھی کیا تو پھر ان جموں والوں سے کیا شکوہ جو ہندؤں کے قلب میں بیٹھ کر اپنے عقائد اور ایمان کے ساتھ اب بھی کھڑے اور ڈٹے ہو ئے ہیں ۔
صوبہ جموں کے مسلمانوں کا کہناہے کہ مین اسٹریم جیسی ڈرامہ باز کشمیرمیں ہے اسے بھی دس گنا زیادہ جموں کی مین اسٹریم ہے اور ان سے ہمیں بھی اگر چہ کوئی امید نہیں مگر آخر کار ہم نے اپنے اشوز کو لیکر کسی کے پاس جانا تو ہے ۔جموں صوبہ میں آزادی پسند سیاسی لیڈران نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں انہیں شکایت یہ ہے کہ کشمیری انہیں کبھی بھی اپنے برابر بٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ہیں ایسے میں جموں والے جائیں تو جائیں کہاں ؟چار و ناچار ہماری بے کسی کا فائدہ مین اسٹریم والے اٹھاتے ہیں رہے کشمیر کے مذہبی یا آزادی پسند لیڈران انہیں ہمیں اپنے ساتھ لیکر چلنے کے جب مواقع تھے تب انہیں اس کا ہوش ہی نہیں رہا اب جب حکومت نے ان کے لیے جموں کی جانب رُخ کرنا بھی جرم بنا رکھا ہے تو ایسے میں اس کی امید رکھنا ہی بے کار ہے ۔جموںوالے پوچھتے ہیں کہ کشمیری لیڈران ترجمانی کا دعویٰ تو ہندؤں کا بھی از راہ شوق کرتے ہیں مگر کیا یہ سوچنے کا مسئلہ نہیں ہے کہ انھوں ابھی تک مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی عملی کوشش نہیں کی ۔جموں والے پوچھتے ہیں کہ اگر کشمیری لیڈران آصفہ جیسے خالص ’’انسانی ‘‘مسئلے میں ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے ہیں تو تحریکی مسائل کے لیے کیوں اور کیسے وہ ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں ؟
سوشل میڈیا کی توسط سے ایک رُلا دینے والا شکوہ یہ بھی سامنے آیا کہ آصفہ بنت یوسف ساکنہ پٹہ رسانہ ضلع کٹھوعہ دراصل انتہائی غریب گھرانے کی بچی تھی شاید یہ بھی وجہ ہے کہ اس کے لیے کسی نے کشمیر سے لیکر جموں تک کسی نے آواز بلند نہیں کی ۔ایک اور ہلا دینے والا شکوہ ’’جو ہم سب کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے ‘‘یہ ہے کہ دراصل کشمیری اس اشو پر اس لیے بھی خاموش رہے کہ آصفہ ایک گجر گھرانے میں جنم لینے والے غریب باپ کی بیٹی تھی ۔کوئی بھی باضمیریہ سب پڑھ اور سن کر جواب میں کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔یہ طعنے نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔کشمیر میں آسیہ اور نیلوفر کے قتل پر بہت ہی سخت احتجاج ہوا اور پورا ضلع شوپیان مہینوں تک بند رہا جبکہ آصفہ کے مسئلے پر ایک گھنٹے کا ہڑتال تو دور کی بات انسانی بنیادوں پر احتجاج تک نہیں ہوا ؟آخر ایک ہی ریاست کے انسانوں نے ہی نہیں بلکہ اس کے ہم مذہب مسلمانوں نے بھی ایک معصوم بچی کے وحشیانہ قتل کو انتہائی سنگدلی کے ساتھ نظر انداز کر دیا ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’تمام مسلمان ایک فرد کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھوںمیں تکلیف ہوجائے تو وہ خودپورا تکلیف میں مبتلاء ہوجاتا ہے اور اگر اس کا سر تکلیف میں مبتلاء ہوتا ہے تووہ خودپورا تکلیف میں مبتلاء ہوجاتا ہے۔ (صحیح مسلم)ایک اور حدیث میں آپﷺ کا ارشادمبارک ہے کہ’’ مومنوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے اگر اس کے ایک حصہ کوتکلیف پہنچتی ہے تو اس کے تمام اعضاء بے چین ہو جاتے ہیں۔(مسنداحمد) ۔
کشمیر ی مسلمانوں کو بالعموم اور مذہبی اور سیاسی لیڈران کو بالخصوص اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ آخر وہ ان جیسے حساس مسائل میں بھی کیوں خاموشی اختیار کرتے ہیں اس لیے کہ یہ کوئی صحتمند علامت نہیں ہے یہ غیرت و حمیت پر ایک سوالیہ نشان ہی نہیں بلکہ اس کے زوال پذیر ہونے کی دلیل ہے اور اہلیان جموں کے تمام تر شکوہ شکایات میں کیڑے نکالنے اور تاویل کرنے کے بجائے غور و فکر کر کے محاسبے کی دعوت ہے ۔ سچائی یہ ہے کہ آصفہ کے بے دردانہ قتل اور مظلومانہ موت نے ہم سب کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے مجھے بغیر کسی ہچکچاہٹ
انتہائی شرمندگی اور ندامت کے ساتھ یہ لکھنا پڑتا ہے کہ بیٹی آصفہ ہم آپ سے شرمندہ ہیں ۔
(ختم شد)