وجود

... loading ...

وجود

بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات، ایک سماجی بگاڑ

جمعه 09 فروری 2018 بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات، ایک سماجی بگاڑ

معصوم زینب کے دردناک قتل اور سفاک قاتل کی گرفتاری سے قبل آپ دوستوں نے یقیناً بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں گزشتہ سال 20 اکتوبر 2017 کو گرفتار ملزمان کی طرف سے گڈانی کے پہاڑوں میں قبر سے آٹھ سالہ معصوم امام بخش مگسی کی لاش کی برآمدگی کی خبر ضرور پڑھ ہوگی۔ حب کے رہائشی خدابخش مگسی کے لخت جگر کو دو ماہ پہلے چند رکشہ ڈرائیوروں نے جنسی تشدد کے بعد قتل کرکے گڈانی کے پہاڑوں میں دفن کردیا تھا، جس کے بعد پولیس نے شک کی بنیاد پر ملزمان کو گرفتار کیا تو انہوں نے اقبالِ جرم کرلیا اور دفنائی ہوئی لاش کی نشاندہی بھی کی۔ حب کی مقامی پولیس کے مطابق لسبیلہ میں ہر ماہ ایسے کئی کیس رپورٹ ہوتے ہیں جن میں حب شہر میں ہونے والے واقعات کی تعداد زیادہ رہی ہے۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ساحل کی رپورٹ کے مطابق سال 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 768 واقعات پیش آئے جن میں سے 68 ضلع قصور سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی رپورٹنگ کے حوالے سے حکومتی سطح پر وفاق اور صوبے میں اس قسم کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں جس میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مستند معلومات اور اعداد و شمار اکٹھے کیے جائیں۔ ادارے ساحل کی ششماہی رپورٹ 2017 کے مطابق تناسب کے اعتبار سے زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں پیش آئے۔ ان اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ سال کی پہلی ششماہی میں کل 1764 کیسز میں سے پنجاب میں 62 فیصد، سندھ میں 28 فیصد، بلوچستان میں 5.8 فیصد، کے پی میں 4.2 فیصد اورآزاد کشمیر میں 9 فیصد کیسز رجسٹر ہوئے۔

ضلع لسبیلہ میں بچوں پر جنسی تشدد کے مختلف واقعات ضلع کے مختلف پولیس و لیویز تھانوں میں درج ہوتے رہے ہیں جن میں زیادہ تعداد حب شہر کی ہے جہاں اس طرح کے واقعات میں گزشتہ دس بیس سال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایسے واقعات ہیں جو کسی طرح میڈیا یا تھانے تک پہنچے ہیں لیکن ایسے واقعات اور بھی زیادہ ہوں گے جو کسی مصلحت یا ملزمان کے اثر و رسوخ کی بنا پر میڈیا یا پھر پولیس و تھانے تک نہیں پہنچ پائیں ہوں گے۔

معاشرہ جس قدر بے راہ روی کا شکار ہے، اس سے زینب و امام بخش جیسے بچوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں ایسے تمام تر بچے جو والدین سے دور ہیں یا پھر ان کی پرورش و دیکھ بھال میں والدین کی لاپروائی شامل ہے، وہ شدید خطرے میں ہیں۔ اس صورتحال میں حب سے بیلہ تک یہ مدرسے کے معصوم بچے جو رات دیرتک بازاروں محلوں میں برتن لیے کھانا مانگتے پھرتے ہیں یا وہ کچرا چننے والے معصوم بچے جو صبح سے رات تک گلی گلی گھومتے نظر آتے ہیں یا پھر بس اسٹاپوں پر ہاتھوں میں فروخت کرنے کے لیے اٹھائے ہوئے منرل واٹر یا کھانے پینے کی چیزیں اٹھائے نظر آتے ہیں، ان سب کی زندگی ان جنسی درندوں کے رحم و کرم پر ہے جو اپنی جنسی ہوس مٹانے کیلیے ان معصوموں کا استحصال کرتے ہیں۔

پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نہ صرف پریشان کن ہیں بلکہ سب کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہیں۔ ہمارا میڈیا اور اکثر پڑھے لکھے لوگ دنیا کے دوسرے ملکوں میں یا اپنے ہی ملک کے کسی کونے میں خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والے عصمت دری کے واقعات پر کھل کر تبصرے کرتے اور ان ملکوں و علاقوں کی مذمت کرتے ہیں، مگر اپنے وطن یا پھر اپنے علاقے کے پھول جیسے بچوں کے ساتھ ہونے والے اس طرح کے گھناؤنے واقعات پر کوئی ا?واز نہیں اٹھاتے۔ ذرا ایک لمحے کو خود سوچیے۔ کیا ہمارے ملک یا اپنے علاقوں میں ہونے والے ایسے واقعات اکا دکا ہیں؟ جو واقعات رپورٹ نہیں ہو پاتے، یا جن کے بارے میں کسی سرکاری و غیر سرکاری ادارے کو معلومات دستیاب نہیں، انہیں ایک طرف رکھیے۔ صرف رپورٹ ہونے والے واقعات ہی ڈھائی ہزار سے زیادہ ہیں۔کیا یہ کوئی اتنی چھوٹی تعداد ہے جسے کوئی اچھوتا واقعہ قرار دے کر اس سے چشم پوشی کرلی جائے؟ بچوں کا تحفظ اور ان کو بہتر مستقبل کی فراہمی میں والدین، خاندان، اساتذہ، اہل علاقہ، حکومت اور ان سے منسلک تمام افراد اور اداروں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ مگر ان کے ساتھ ساتھ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے حکومتی پالیسیاں اور ان پر عملدرآمد زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ہمارے یہاں اس حوالے سے نہ کوئی واضح پالیسیاں ہیں، اور نہ ہی پہلے سے موجود قوانین پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل ہورہا ہے۔ ایسے گھناؤنے واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا نہ ملنا بھی ان واقعات میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔کسی بھی علاقے میں اگر اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو بچے پر جنسی تشدد کو سامنے آنا چاہیے۔ ایسے واقعے کو چھپانا مزید نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ بچے کو ماہرانہ مدد ملنی چاہیے ورنہ جنسی تشدد ہونے کی وجہ سے جذباتی و نفسیاتی نقصان آگے چل کر نہ صرف بچے کیلیے بلکہ پورے خاندان اور معاشرے کیلیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہر صورت متاثرہ بچے کو انصاف دلانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایسے واقعے کے پیش آنے میں بچے کا قصور نہیں ہوتا لیکن بچے اپنے استحصال کے بارے میں آواز جلد نہیں اٹھا پاتے، کیونکہ انہیں مجرم کی جانب سے زبان کھولنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اگرآپ کا بچہ خاموش، الگ تھلگ، یا اداس رہتا ہے تو اسے کرید کر پوچھیے۔ بچوں کو یہ بات کھل کر سکھانی چاہیے کہ انہیں اپنے گھر والوں کے علاوہ ہر کسی شخص سے ایک فاصلہ رکھنا چاہیے، خود کو چھونے نہیں دینا چاہیے، اور کسی بھی غلط حرکت کی صورت میں فوراً گھر والوں کو مطلع کرنا چاہیے۔خدانخواستہ بچے کے ساتھ اگر جنسی تشدد کا واقعہ پیش آتا ہے تو فوراً تمام شواہد اکٹھے کرکے قریبی سرکاری اسپتال سے بچے کا طبی معائنہ کروانا چاہیے؛ اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر درج کرانی چاہیے۔ اس عمل سے ایک مجرم کو اس کے جرم کی سزا مل سکتی ہے، آئندہ وہ ایسی گھناؤنی حرکت سے باز رہ سکتا ہے اور اس سب سے بچے کے اندر موجود انتقام کا جذبہ بھی بڑی حد تک کم ہو سکتا ہے۔

یہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے کیس منظرِ عام پر تو آرہے ہیں لیکن سزاؤں کی شرح اب بھی بہت کم ہے جس کی وجہ سے گزشتہ 5 سے 6 سال کے دوران ایسے واقعات میں 100 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ جنسی تشدد صرف غریب اور دیہی علاقوں کا مسئلہ نہیں: بچہ چاہے امیروں کا ہو یا متوسط طبقے کا، شہری ہو یا دیہی علاقے کا، والدین اور گھر والوں کی غفلت سے تشدد کا شکار ہوسکتا ہے۔

جنسی تشدد کا شکار صرف لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے اور انہیں بچوں کی حفاظت کو ہر صورت ممکن بنانا ضروری ہے۔ معاشرے کے ہر فرد میں احترام انسانیت کا جذبہ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اسلام میں بھی بچوں کے تحفظ اور شفقت کے حوالے سے واضح پیغام دیا گیا ہے۔ حضرت محمد بچوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔ آ?پ کا ارشاد ہے: ’’جنت میں ایک گھر ہے جسے دارالفرح (خوشیوں کا گھر) کہا جاتا ہے، اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو اپنے بچوں کو خوش رکھتے ہیں۔‘‘ ایک اور موقعح پر فرمایا: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کے ساتھ عزت و اکرام کا معاملہ نہ کرتا ہو۔‘‘دنیا اس وقت ستاروں اور کہکشاؤں سے ا?گے نکل رہی ہے مگر اس ایک رپورٹ کے کچھ حقائق ہماری آنکھیں کھولنے کیلیے کافی ہیں۔ پاکستان میں جس رفتار سے بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، اس شرح میں کمی لانے اور ایسے گھناؤنے واقعات میں ملوث تمام افراد کو سخت سے سخت سزائیں دلانے کیلیے پہلے سے موجود قوانین پر مکمل عملدرا?مد ہونا چاہیے۔ دنیا کی سب ہی قوموں کا مستقبل اور قیمتی سرمایہ ’’بچے‘‘ ہوا کرتے ہیں۔ جب تک بچوں کو ایک محفوظ اور خوشحال ا?ج نہیں مل سکتا، تب تک ہم کسی بھی طرح ایک خوشحال اور محفوظ کل کی توقع نہیں کر سکتے۔

قصور کے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے ملک کی درسگاہوں میں جنسی جرائم کے بارے میں معلومات فراہم کرنے، سماجی سطح پر متحرک اداروں اور تنظیموں کو لوگوں کی ذہنی تربیت کرنے اور سیاسی اور انتظامی سطح پر جرائم سے نمٹنے کا کڑا نظام استوار کرنے کے کام کا آغاز ضروری ہے تاکہ معاشرے میں درندہ صفت لوگوں کی نگرانی اور جرم سے پہلے ہی ان کی گرفت کا اہتمام ہوسکے۔ حالیہ دنوں میں زینب کے ساتھ زیادتی صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک وسیع تر بگاڑ کی ایک تصویر ہے۔ اس لیے اس بچی کو انصاف دلوانے کے لتے ضروری ہے سماج کی وسیع تر اصلاح کے عظیم تر منصوبے پر کام شروع کیا جائے۔


متعلقہ خبریں


حکومتی کوششیں ناکام، پی ٹی آئی کے قافلے پنجاب میں داخل، اٹک میں جھڑپیں وجود - پیر 25 نومبر 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی قیادت میں قافلے پنجاب کی حدود میں داخل ہوگئے جس کے بعد تحریک انصاف نے حکمت عملی تبدیل کرلی ہے ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میںپنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے قافلے...

حکومتی کوششیں ناکام، پی ٹی آئی کے قافلے پنجاب میں داخل، اٹک میں جھڑپیں

پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد مارچ میں شریک وجود - پیر 25 نومبر 2024

تحریک انصاف ک فیصلہ کن کال کے اعلان پر خیبر پختون خواہ ،بلوچستان اورسندھ کی طرح پنجاب میں بھی کافی ہلچل دکھائی دی۔ بلوچستان اور سندھ سے احتجاج میں شامل ہونے والے قافلوںکی خبروں میں پولیس نے لاہور میں عمرہ کرکے واپس آنے والی خواتین پر دھاوا بول دیا۔ لاہور کی نمائندگی حماد اظہر ، ...

پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد مارچ میں شریک

جتنے راستے بند کر لیں ہم کھولیں گے، علی امین گنڈاپور وجود - پیر 25 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت جتنے بھی راستے بند کرے ہم کھولیں گے۔وزیراعلیٰ نے پشاور ٹول پلازہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی رہائی کی تحریک کا آغاز ہو گیا ہے ، عوام کا سمندر دیکھ لیں۔علی امین نے کہا کہ ...

جتنے راستے بند کر لیں ہم کھولیں گے، علی امین گنڈاپور

پی ٹی آئی کا احتجاج، حکومت کریک ڈاؤن کیلئے تیار، انٹرنیٹ اور موبائل بند وجود - پیر 25 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے ہونے والے احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس، رینجرز اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جبکہ پنجاب اور کے پی سے جڑواں شہروں کو آنے والے راستے بند کر دیے گئے ہیں اور مختلف شہروں میں خندقیں کھود کر شہر سے باہر نکلنے کے راستے بند...

پی ٹی آئی کا احتجاج، حکومت کریک ڈاؤن کیلئے تیار، انٹرنیٹ اور موبائل بند

ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا گیا ، 26ویں آئینی ترمیم منظور نہیں، اسد قیصر وجود - پیر 25 نومبر 2024

سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا گیا ہے ۔ پی ٹی آئی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ ہمیں 26ویں آئینی ترمیم منظور نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہو چکی، ہم ملک میں امن چاہتے ہیں۔ اسد قیصر نے کہا کہ افغانستان ک...

ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا گیا ، 26ویں آئینی ترمیم منظور نہیں، اسد قیصر

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر