... loading ...
درحقیقت ملک میں جمہوری اداروں کا کردار بہت ہی مایوس کن رہا ہے ۔ اس ناکامی کی کئی وجوہات ہیں ۔ بد عنوانی، بدنظمی، اداروں کی نشوونما کا نہ ہونا اور ماضی میں آمروں کی سیاست میں دلچسپی اور اقتدار ہتھیانا اس کے محرکات ہیں۔ایسے ساستدانوں اورعوامی نمائندوں کی کمی نہیں جو جمہوریت کی ضد رہے ہیں۔بلوچستان میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا بھی ایک نظیر ہے ۔ جہاں عدم اعتماد کی تحریک کو جمہوری روایات کہا گیا ،کہ یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ق لیگ ، ن لیگ کے باغی ارکان جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور بی این پی عوامی نے جمہوری روایات کو پامال کیا ہے۔ ان کا یہ اقدام جمہوریت کے حسن کو بگاڑنے کے مترادف ہے۔ یہ جماعتیں کہتی ہیں کہ اسمبلی کے خلاف کسی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بنیں گی۔ دیکھا جائے تو ان جماعتوں نے اسمبلی کو غیر یقینی حالت سے دو چار کردیا ہے۔ اب بلوچستان اسمبلی تنکے کے سہارے پر کھڑی ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کو اپنی خواہشات اور انتقامی سیاست کے لیے استعمال کیا۔ بالخصوص جے یو آئی ف، اے این پی اور دونوںبی این پی غیر جمہوری اور تخریبی سوچ کی آلہ کار بن گئیں ۔نواب زہری ،پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی اقتدار سے بے دخل تو کردی گئیں مگر شرمندگی کا سامنا بہت جلد ان جماعتوں کو بھی کرنا پڑے گا۔ ایسا ممکن نہیںکہ نواب زہری نے تمام اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر رکھے ہوں ۔ یقینا حکومت میں شامل جماعتوں اور دوسرے ارکان برابر حکومت میں اپنا حصہ لیتے رہے ۔ ارکان کی مرضی سے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کی ان کے اضلاع میں تعیناتی ہوتی تھی۔ وزیروں اور مشیروں کی خواہش پر محکموں میں سیکریٹریز ، ایڈیشنل سیکریٹریز اور ڈپٹی سیکریٹریز کا تبادلہ ہوتا تھا۔فنڈز کا استعمال ان کی صوابدید پر تھا ۔گویا ہر ایک اپنے حلقوں اور اضلاع کا بادشاہ تھا ۔ اگر بات اچھی حکمرانی اور شفافیت کی جائے تو اس سے ہماری ساری ہی حکومتیں عاری رہی ہیں۔نہ یہ خوبیاں تحریک عدم اعتماد لانے والوں میں پائی جاتی ہیں۔ علم سیاسیاست میں گڈ گورننس یعنی اچھی طرز حکمرانی ترقی کا معیار تصور کیا جاتا ہے ۔ شفاف نظام، غیرجانبدار فیصلوں، جوابداہی اور قانون کی حکمرانی اچھی طرز حکمرانی کے نمایاں پہلو ہیں۔ یعنی جمہوریت اور اچھی طرز حکمرانی لازم و ملزوم ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہماری فوجی و عوامی حکو متوں یا سیاستدانوں نے اس معیار اور صفت کو اپنایا ہے ؟ ہر گز نہیں بلکہ الٹااسے پامال کیا ہے۔ اگر کو ئی حکومت ماورائے آئین و قانو ن بنتی ہے تو وہ جبر کی حکومت ہی کہلاتی ہے۔ یقینا عدم شفافیت ،غیر جمہوری رویوں ،سیاسی و گروہی اجارہ داری اسی طرح ریاستی امور میں سرائیت و مداخلت سے اچھی طرز حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ اگر اعتراض یہ تھا کہ نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت ہدف اور مقصد پانے میں ناکام ہوئی ہے تو کیا یہ اس ناکامی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے والے شامل نہیں ہیں؟ ۔ سچی بات یہ ہے کہ جے یو آئی اور سردار اختر مینگل نے اس آئینی و جمہوری تخریب میں حصہ ڈال کر آئندہ کی حکومت میں اپنے لیے ہمدردیاں اور تعاون حاصل کرنے کی سعی کی ہے۔ اور یہ فیصلہ ان جماعتوں نے بڑی سوچ اور سمجھ کے ساتھ کیا ہے ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ نواب زہری کی حکومت کو گزند کہاں سے پہنچی ہے ۔ بلوچستان میں کھیلی جانے والی اس بازی سے وفاق پائیداری کی بجائے مزید ضعف کا شکار ہوا ہے۔ اس صورتحال میں صوبے کے سیاسی سوچ رکھنے والے عوام، سیاسی کارکن ، طلباء اور دانشور بجا طور پر یہ سمجھیں گے کہ ملک میں حکومتیں بنانے اور توڑنے پر قادر عناصر و قو توں کے پیش نظر اپنی ہی ترجیحات ہیں۔ چناں چہ یہ طرز عمل یقینی طور پر مرکز گریز رجحانات کو تقویت دینے کا موجب بنے گا۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کی حکومتیں اپنی اصل میں آزاد تھی ہی نہیں۔جلد یا بدیر یہ سابق وزراء اعلیٰ اپنا منہ ضرور کھولیں گے ۔ نواب زہری کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو 6 جنوری 2018 کو ضلع پشین کے جلسہ میں محمود خان اچکزئی اور سینیٹر عثمان کاکڑ نے جہاں یہ سنگین الزام لگایا کہ ان کے پارٹی کے ارکان اسمبلی سردار مصطفی ترین اور لیاقت آغا کو پوشیدہ نمبروں سے دھمکی آمیز فون آ ئے ۔ محمود خان اچکزئی کا الزام یہ بھی تھا کہ 2دسمبر2017ء کو ان کے والد عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی کی مناسبت سے ایواب اسٹیڈیم کوئٹہ میں پشتونخوامیپ کے جلسہ عام میں نواز شریف کی شرکت پر ناراضگی کا اظہار ہوا ہے۔ اور نواب زہری کو طلب کیا گیا تھا کہ وہ (نواب زہری) کیوں اس جلسے میں شریک ہوئے تھے ۔ مجھے محمود خان اچکزئی اور اس کی جماعت کی بیشتر پالیسیوں سے اختلاف ہے ۔ جب صوبے میں عوام کے ووٹوں سے بنی حکومت کو تہہ بالا کرنے کی سازشیں ہو ئیں ،تو محمود خان اچکزئی نے مذکورہ جلسہ کے اختتام پر شرکاء سے ’’پشتونستان زندہ باد‘‘ اور ’’استقلال افغانستان زندہ باد‘‘کے معنی خیز نعرے لگوائے۔ یقینا محمود خان اچکزئی کا یہ ردعمل یا اشتعال غیر ضروری تھا۔مجھے اس میں کوئی معقولیت دکھائی نہیں دی۔ نیزمجھ کومحمود خان اچکزئی کی افغان پالیسی سے بالکل اتفاق نہیں ۔ میں افغانستان میں امارات اسلامیہ (طالبان) کی مسلح مزاحمت اور گلبدین حکمتیار کی سیاسی جدوجہد سے متفق ہوں۔ بلکہ اس کا پرزور حامی ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ افغانوں کی سرزمین پر امریکہ قابض ہے۔جس کے خلاف افغان عوام کی مزاحمت تاریخ کے اہم موڑ میں داخل ہو چکی ہے ۔
میں اس بات پر کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں کہ بھارت پاکستان مخالف دہشتگرد گروہوں کو افغانستان میں پال رہا ہے اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ تاہم محمود خان اچکزئی کی اس اشتعال پر کھلے دل کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ نیشنل پارٹی پھر سے بلوچ شدت پسند سیاست کے حوالے سے مبہم رائے اپنائے۔ سردار اختر مینگل تو ہنوز ’’ نیمے دروں نیمے بروں‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ان کا بھائی جاوید مینگل مسلح مزاحمت اور آزاد بلوچستان کا پرچارک ہے ۔ اورحق خود ارادیت تو بی این پی مینگل کا مطالبہ ہی ہے۔قصہ یہ کہ جمعیت علماء اسلام ف بڑی سستی بکی ہے ۔اگر بات موجودہ صوبائی یعنی عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کی ،کی جائے تو یہ بھی اپنی نہاد میں کنڑولڈ ہی ہے۔