... loading ...
بلند بانگ دعوے کرنے والے ہم اور ہمارے مذہبی لوگ اور تنظیمیں عملی اعتبار سے آپ اپنے دعوؤں کی نفی کرتے ہیں ۔ ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہیں محمودوایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز ‘‘ اسلام کے عدل و انصاف کے تصور کو اس شعرمیں سمیٹنے والے شاعر کے کلام کو ہم ہر ایسے موقع پر ضرور پڑھتے ہیں جب بھی اسلام کا عدل و انصاف سے لبریز روشن پہلو پیش کرنے کی نوبت آتی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ہم عملی اعتبارسے بہت کمزور بلکہ پست ہیں ۔ہم احتساب لوگوں کا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اسے بالاتر سمجھتے ہیں ۔ہماری تربیت ہی ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں ’’اونچ نیچ کی نفی ‘‘کے باوجود اونچ نیچ ہے ۔مذہبی حلقوں میں ایک مخصوص طبقہ ’’تنقید‘‘کا قائل ہے اور جو قائل نہیں ہیں وہ اپنے سوا ہر دوسرے کی تنقید کرتے رہتے ہیں اور جو قائل ہیں وہ دوسروں کی تنقید کرتے ہیں اور خود بھی سہتے ہیں مگران کے ہاں اصلاح کی نوبت ہی نہیں آتی ہے جن میں میں بھی شامل ہوں ۔ہم گویا ایک ایسے مرض میں مبتلا ہیں جس کا اکثر ناقدین کو احساس نہیں ہوتا ہے ۔آصفہ کے واقع نے میری اس بات پرمہر تصدیق ثبت کی ہے ۔گر چہ یہ کوئی پہلا واقع نہیں ہے جس سے ہماری بے حسی نمایاں ہو کر سامنے آئی ہو ۔اسے پہلے بھی یہ شکایات سامنے آئی کہ ہم بسااوقات معمولی واقعات کو آسمان تک پہنچا دیتے ہیں مگر کئی بار ہم نے اہم ترین سانحات کو بالکل نظرانداز کر کے دنیا بھر کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور بسااوقات لوگوں کو ہماری اس بے حسی نے ہم سے مایوس کردیا ہے ۔
جموں کے اخبارات کے مطابق کھٹوعہ میں8سالہ بچی آصفہ کو اغواکاروں نے ایک ہفتہ تک اپنے قبضے میں رکھنے کے بعد قتل کر کے اس کی لاش پھینک دی ۔لاش کو ورثا نے اپنی تحویل میں لینے کے بعد جب دیکھا تو ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ دراصل ننھی آصفہ کو ملعون اور خبیث اغواکاروں نے اپنی حیوانیت کا نشانہ بنانے کے بعدقتل کر ڈالا ہے ۔آٹھ دن قبل لاپتہ ہوئی بچی کی لاش ملنے کے بعد لواحقین ومقامی لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اورانھوں نے کئی گھنٹوں تک شاہراہ کو بند کر کے مظاہرے کئے اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔میڈیا کے مطابق پٹہ رسانہ گاؤںکی آٹھ سالہ بچی جو آٹھ دنوں سے لاپتہ تھی اْس کی نعش برآمد ہونے کے بعد لواحقین نے الزام لگایا کہ اْن کی بیٹی کو تشدد کا نشانہ بناکر اْس کی عصمت تار تار کر کے قتل کیا گیا ہے۔ ایم،ایل،اے بانہال وقار رسول نے اس سانحہ سے متعلق اسمبلی میں کہا کہ بانو دیپ نامی ہیرانگر کا ایک غنڈہ جس کو سرکار کی پشت پنائی حاصل ہے کے خلاف حکومت کارروائی کیوں نہیں کرتی ہے سے اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ دراصل جموں میں سرگرم مافیا ایک مخصوص طبقے کو باربار نشانہ بناتا ہے اور یہ واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے بلکہ اس سانحہ سے جموں کی مسلم آبادی کو یہ پیغام دیا گیا کہ اب تمہاری آٹھ سال کی معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔
ستم یہ کہ حکومت نے انتہائی بے غیرتی کے گذشتہ تمام ریکارڈ توڑ کر پہلے ہوں ہاںاور پھر ایس ایچ او کو معطل کر کے بالکل ویسا ہی ڈرامہ رچایاجیسا 2009ء میں نیشنل کانفرنس نے شوپیان کی ’’آسیہ اورنیلوفر‘‘کے سانحہ کے وقت رچایا تھا کہ یہ دونوں پانی میں ڈوب کر مرگئی پھر ایس پی اور ایس ایچ او کو بلی کا بکرا بناکرمعطل کیا اور کیس ’’جان کمیشن‘‘کے سپرد کر کے بھول بھلیوں میں گم کردیا آج پی ،ڈی،پی کی وہی وزیر اعلیٰ وہی کردارآصفہ کے کیس میں اداکررہی ہے جو 2009ء میں شوپیان کیس میں عمر عبداللہ نے ادا کیا تھا۔2009ء میںاسمبلی کے ایوان کو سر پر اٹھانے والی محبوبہ مفتی نے ’’آسیہ اور نیلوفر قتل‘‘ کا الزام پولیس اور سی،آر ،پی ،ایف پر عائد کیا تھااورآج وہی میڈم جی ایک ڈان کو گرفتار کراکے کیس کی تہ میں پہنچنے سے ہچکچا رہی ہے جو کل عمر عبداللہ سے پولیس اور سی ،آر،پی،ایف کے خلاف کاروائی کرنے کی وکالت کا فریضہ انجام دے رہی تھی ۔مین اسٹریم لیڈران کو اپنی تنخواہ اور چھ سال بعد الیکشن جیت جانے سے غرض ہے انہیں کسی آسیہ ،نیلوفراور آصفہ سے کوئی غرض نہیں ہے البتہ یہ وہ ’’باضمیر‘‘لوگ ہیں کہ اگر یہ کبھی کسی ’’انشاء ‘‘جیسی اندھی بچی کے ساتھ اظہار ہمدردی بھی کر لیتے ہیں تو اس کا چرچا میڈیاکے ذریعے اتنا کراتے ہیں کہ گویا مین اسٹریم لیڈران نے حاتم طے کی جگہ لے لی ہو ۔نہیں تو ایک سیدھے سادھے انسانی کیس کو بھی انھوں نے کیوں اس سطح تک لایا کہ کبھی کچھ اورکبھی کچھ ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔
حد یہ کہ ایک جسمانی طور بالغ اور قانونی طورپر نابالغ ملزم کو بھی بہانہ بنا کر چھوڑ دیا گیا جب کہ یہ قتل اور اس کے پشت پناہوں تک پہنچنے کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔اسے بھی افسوسناک یہ کہ قانونی تقاضوںکو پورا کرانے کے مطالبات کرنے والے احتجاجیوں پرکٹھوعہ پولیس اس طرح ٹوٹ پڑی گویا کہ کوئی جانوروں کا ریوڑ ہو اور پھر تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے وکیل ’’طالب حسین‘‘کو بھی گرفتار کر کے بند کر دیا گیا ۔اس ساری صورتحال میں افسوس اس بات کا ہے کہ آصفہ کی میت ملنے کے بعد ورثا کو پیسوں سے قبرستان کے لیے خریدی ہوئی زمین میں بھی دفن کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور ’’غنڈوں اور بدمعاشوں‘‘نے ایسے نازک موقع پر بھی ستم رسیدہ خاندان کو مجبور کر کے میت کو اپنے مقامی قبرستان سے آٹھ کلو میٹر دور دوسری جگہ دفنانے پر مجبور کر دیا ۔ان سارے مظالم کی تفصیلات اخبارات میں شائع ہونے کے بعد بھی جموں میں براجمان ساری گورنمنٹ تماشائیوں کا
رول ادا کرتی رہی اس لیے کہ حق کا ساتھ دینے اور مظلوم آصفہ کے قاتلوں تک پہنچنے کی صورت میں وہی آر ایس ایس بد نام ہوتی جن کے بل بوتے پر آج حکومت قائم ہے ۔
(جاری ہے)