... loading ...
مشہور محاورہ ہے کہ آنکھ اپنے عیب دیکھنے میں اندھی ہوتی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے شاید ہی کبھی اپنے آپ کو ٹٹولنے کی کوشش کی ہو۔ انصاف ایک آفاقی قدر کے بجائے اس قدر ذاتی تصور کا حامل ہوسکتا ہے، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاتھا۔ نوازشریف نے انصاف کو اپنی ذات سے اس قدر وابستہ کر لیا ہے کہ منصفین اب ’’ ذاتی ملازم‘‘ بن کر ہی اُن کے تصور ِ عدل پر پورا اُتر سکتے ہیں۔ درحقیقت نوازشریف دوسروں کی غلطیوں کے ’’جج‘‘ اور اپنی غلطیوں کے ’’وکیل‘‘ بن کر سامنے آئے ہیں۔
آسمان پر زمین نے کب ایسے تماشے دیکھے ہوں گے، جو حضرت میاں نوازشریف کے بیانیے سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ وہ عدلیہ کے خلاف عدل کی تحریک چلانا چاہتے ہیں۔ اور انصاف کی ترازو کو معزز منصفین کے بجائے اپنے ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کے لے پالک معزز منصفین کو لات ومنات کے حقارت آمیز الفاظ سے مخاطب کررہے ہیں۔ اور کچھ تو اُن پرزمین تنگ کرنے کے اعلانات کررہے ہیں۔ نہال ہاشمی ایک ناکام وکیل سمجھے جاتے ہیں ،مگر اپنی جماعت کی قیادت کے لیے جو الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ ایک آدمی کے طور پر اُنہیں کتنا ہی حقیر بناتے ہو مگر اُن کی جماعت کے لیے اُنہیں محترم بناد یتے ہے۔ اب اُن کی تصویر نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کے ٹوئٹر ہینڈل کی ’’ڈی پی‘‘ کا رُتبہ پاچکی ہے۔ نہال، دانیال اور طلال سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ انصاف اور قیادت کے درمیان ایک اعلیٰ قدر کے طور پر اپنے تعصب کو دوسری طرف رکھ سکیں۔ تعصب بھی کیا، کسی معنی میں شاید اس کی بھی کوئی تکریم کی جاسکتی ہو ، مگر یہاں مسلم لیگ نون کی قیادت کے لیے جو کچھ کیا جارہا ہے وہ اُنہیں اپنے بہترین مفاد میں محسوس ہو رہا ہے۔ وگرنہ دانیال مشرف کی پیداوار ہے اور طلال کو چودھری پرویز الٰہی کی گاڑی کے آگے بھنگڑے ڈالتے ہوئے دیکھا گیا۔ کیا یہ لوگ کبھی افریقی نژاد مسلمان امریکی Malcolm X کے ان الفاظ کے معنی کو سمجھ سکتے ہیں:
I’m for truth, no matter who tells it. I’m for justice, no matter who it’s for or against.
نہال ، دانیال اور طلال کے لیے مگر سچ اور انصاف کے’’ فی الحال‘‘ایک ہی معنی ہے اور وہ نوازشریف کی ایڑیوں سے پھوٹتے اور اُن کی جنبشِ ابرو سے حرکت پاتے ہیں۔یہ اب جا کراس دور میں پتہ چلا ہے کہ بھکاریوں اور گداگروں کی تہی دامنی صرف سکوں کی نہیں ہوتی بلکہ وہ الفاظ کے مفاہیم میں بھی قلاش رہتے ہیں۔
عدالتوں کے موجودہ ڈھانچوں کی تشکیل مغربی نظام فکر کی پیداوار ہے۔ اور اس سے متعلق ایک بات مغربی فکر کے تشکیلِ فہم میں طے شدہ ہے کہ ایک انسان کا غلط ، غلط اور اُس کا درست ، درست ہوتا ہے مگر عدالتوں کا درست بھی درست اور غلط بھی درست ہوتا ہے۔ کیونکہ قومی ریاستوں میں بے لگام انفرادی رویوں کو قابو میں رکھنے کا دوسرا کوئی طریقہ موجود ہی نہیں۔ اگر عدالتیں بھی شخصی مفادات کے تابع ہو جائیں اور اس پر ایک آدمی من چاہی عوامی تعبیر سے حملہ آور ہونے کو ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کی تعبیر دے سکتا ہو تو پھر قومی ریاست ہچکولے لینے لگتی ہے۔ یہ بات ایک کج فہم کو بھی سمجھائی جاسکتی ہے کہ عدلیہ کا کام عدلیہ کو ہی کرنا ہے، تب بھی جب وہ اپنا کام درست نہ کررہی ہو۔ یہ ایک بدقسمت سیاسی ماحول ہے کہ جس میں عدلیہ کو ایک ایسے تقابل سے دوچار کیا جارہا ہے جو کسی بھی طور اُصولِ تقابل پر پورا ہی نہیں اُترتا۔
سابق وزیراعظم نوازشریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کی طرف سے بار بار ، بتکرار اور بصد اصرار یہ کہا جارہا ہے کہ بیس کروڑ عوام کے منتخب
وزیراعظم کو پانچ جج کیسے نکال سکتے ہیں؟ یہ تقابل اپنے سیاق وسباق میں ہی درست نہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نوازشریف بیس کروڑ عوام کے منتخب کردہ نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک وزیراعظم پچاس کروڑ عوام کا بھی منتخب نمائندہ ہو تو بھی اُس کا انتخاب اور اُس کا وجود ایک دستورکی چھتری تلے ہوتا ہے۔ اُسے اپنے وجود کا جواز عوام کے ووٹوں کے بعد دستور سے تلاش کرنا ہوتا ہے۔ انسان کی اجتماعی حیات کے رائج نظریات اس کے بغیر کسی بھی تمدنی حیات کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ اسی لیے جمہوریت کا مفہوم عوامی سے زیادہ اصل مباحث میں دستوری ہوتا ہے۔ دنیا میں جمہوریت کا زندہ تصور درحقیقت دستوری جمہوریت کا ہے۔ جس میں عوام کے انتخاب کا حق اپنے نمائندوں کو منتقل کرنے کے بعد اُن کی نگرانی دستوری ڈھانچے میں ہوتی ہے۔ یہ دانستہ پیدا کیا گیا مغالطہ ہے کہ ایک بار عوام منتخب کر لیں تو پھر اُس نمائندے کو فارغ کرنے کا اختیار بھی عوام کو حاصل ہے جو وہ اگلے انتخاب میں استعمال کرسکتے ہیں۔ جمہوریت کی اس قدر آمرانہ تشریح کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ وزیراعظم سمیت ہر منتخب نمائندہ عوام سے حقِ نمائندگی پاکر دستور کے سائبان میں رہتا ہے۔ اگر وہ اس سے نکل جائے تو عوام کے نام پر وہ اپنا حقِ نمائندگی نہیں جتلا سکتا ۔جمہوریت میں عوامی نمائندگی درحقیقت قانونی اور اخلاقی غلاف میں ہوتی ہے۔ اسی لیے اچھی جمہوریتوں میں عدم اعتماد کا مطلب ہی مذکورہ منتخب شخص کی رخصت کا پروانہ ہوتا ہے۔ جمہوریت اپنے اعلیٰ تصور میں اسی طرح کے نتائج لاتی ہے۔ اور عام طور پر عدالتوں کے فیصلوں سے قبل خود منظر سے ہٹ جانے کو اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہے۔ یہاں قانونی اور اخلاقی نتائج کو کوئی اہمیت ہی حاصل نہیں اور عدالتوں کے فیصلوں کو بالادست سمجھنے کے بجائے اپنی بالادستی کے خلاف منصوں اور عدالتوں کو زیردست کرنے کی باتیں کھلے عام ہورہی ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی حمایت کرنے والے بھی موجود ہیں۔یہ توہین کی تعظیم ہے جو محض تصورِ حکومت میں موجود کج فہمی کی نہیں بلکہ تصورِ حیات تک میں موجود آلودگی کی نشاندہی کرتی ہے۔ درحقیقت آنکھ اپنے عیوب کو دیکھنے میں اندھی ہی نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کے عیوب تلاش کرنے میں بے شرم بھی ہوجاتی ہے۔