وجود

... loading ...

وجود

تاریخ تحریک آزادی کشمیر

پیر 05 فروری 2018 تاریخ تحریک آزادی کشمیر

جموںو کشمیر جسے جنت ارضی بھی کہا جاتا ہے تقریباً 48,471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ریاست ہے۔ یہ علاقہ براعظم ایشیاء کے تقریباً وسط میں اور برصغیر کے شمال میں واقع ہے۔ اس مناسبت سے اسے ایشیاء کا دل اور برصغیر کا تاج بھی کہتے ہی۔ جغرافیائی اعتبار سے اس نہایت اہم خطے کے شمال میں سابق سوویت یونین کی ریاست تاجکستان جو کہ اب آزاد اسلامی ملک ہے اور چین کا علاقہ سنکیانگ ہے۔ اس کے مشرق میں تبت، جنوب میں بھارت ، جنوب مغرب میں پاکستان اور مغرب میں افغانستان واقع ہے۔ اگر داخلی طور پردیکھا جائے تو ریاست جموں و کشمیر تین طبقات پر مشتمل ہے۔ بقول چراغ حسن حسرت پہلی منزل جموں، دوسری منزل وادی کشمیر اور تیسری منزل بلتستان ہے۔ اس کے دائیں ہاتھ لداخ اور بائیں ہاتھ گلگت کا علاقہ ہے۔

خطہ کشمیر ماضی میں بدھ مت کا مرکز رہا جبکہ مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ آٹھویں صدی عیسوی میں برصغیر پر مسلمانوں کے حملے کے بعد شروع ہوا۔ پہلی اسلامی حکومت کا آغاز چودھویںصدی کے آغاز میں اس وقت ہوا جب بدھ مت کے حکمران رنچن شاہ نے اسلام قبول کیا اور اسلامی نام صدر الدین اختیار کیا۔ پہلی باقاعدہ اسلامی حکومت کی بنیاد شاہ میر نے رکھی جو بعد میں سلطان شمس الدین کے لقب سے تخت نشین ہوا۔اس خاندان نے کشمیر پر لمبا عرصہ حکومت کی اور کشمیر کو اسلامی تشخص میں رنگ دیا جو آج تک کشمیر کی پہچان ہے۔

اس خاندان کے بعد 1555ء میں ایک اور مسلمان خاندان ’’چک‘‘ کی حکمرانی قائم ہوئی لیکن یہ خاندان اپنے اختلافات پر قابو نہ رکھ سکا چنانچہ صرف 31 برس بعد ہی 1586ء میں مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر کو سلطنت مغلیہ کا حصہ بنا لیا۔ جب مغلیہ سلطنت روبہ زوال ہوئی تو احمد شاہ ابدالی کے پنجاب پر حملوں کے دوران 1752ء میں کشمیر افغانوں کے قبضے میں چلا گیا جو 1819ء تک قائم رہا۔ 67 برس پر محیط اس عہد کے بعد کشمیر پر رنجیت سنگھ کی فوجوں نے حملہ کر کے قبضہ کر لیا اور یوں کشمیر پر سکھوں کا تسلط قائم ہو گیا۔ سکھوں کا یہ عہد کشمیر کی تاریخ میں ظلم و سربریت کا سیاہ دور ہے۔ سکھ کشمیریوں سے نفرت کرتے تھے اور ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتے تھے۔ اگر کوئی کشمیری کسی سکھ کے ہاتھوں قتل ہو جاتا تو قاتل کو صرف 16 سے 20 روپے تک جرمانہ کیا جاتا تھا۔ جس میں سے مقتول کے ورثاء کو 2 روپے ادا کر کے بقیہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی جاتی تھی۔

1842ء میں جب سکھوں کو انگریزوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو 9 مارچ1842ء کو فریقین میں معاہدۂ لاہور طے پایا۔ اس کے تحت کشمیر کا علاقہ انگریزوں کے حوالے کر دیا گیا جنھوں نے چند روز بعد اپنے ایک وفادار گلاب سنگھ ڈوگرہ کو 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض فروخت کر دیا۔ اس سلسلے میں ایک معاہدہ انگریزوں اور گلاب سنگھ ڈوگرہ کے درمیان بھی طے پایا جس کے تحت وادی کشمیر اور اردگرد کے علاقے اپنی آبادی اور تمام اسباب و وسائل کے ساتھ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے حوالے کر دیے گئے۔ اسے ’’معاہدۂ امر تسر‘‘ کہا جاتا ہے۔
اقبال نے اس انسانیت سوز واقعہ کو یوں بیان کیا ہے:
دہقاں و کشت و جوئے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
ہر کشمیری کو صرف 7 سکوں کے عوض ڈوگرہ کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا جبکہ زمین رشک فردوس بریں 155 روپے فی مربع میل کے حساب سے پڑی۔ ڈوگرہ حکمران بھی اپنے پیشروئوں کی مانند مسلمانوں سے بے انتہا تعصب رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ دوپہر سے پہلے مسلمانوں کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو دوپہر سے پہلے کسی ڈوگرہ حکمران کے سامنے جانے کی اجازت نہ تھی۔ اس دور میں بھی مسلمانوں نے اس ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی کہ جب مساجد کو اصطبلوں اور بارود خانوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اذان دینے اور خطبہ پڑھنے پر پابندی تھی۔ پونچھ کے مسلمان لیڈروں سردار سبز علی خان اور ملی خان کی کھالیں زندہ ہی اتروا دی گئیں، محض اس جرم میں کہ وہ ڈوگرہ حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کرتے تھے۔

انھی مظالم کے باعث 1929ء میں سرینگر میںشیخ عبداللہ نے ریڈنگ روم پارٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اسی زمانے میں جموں میں چودھری غلام عباس، اے آر ساغر اور دیگر چند ساتھیوں سے مل کر ’’ینگ مینز ایسوی ایشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ینگ مینز نے بھی مسلمانوں کے حقوق کے لیے خاطر خواہ جدوجہد کی لیکن یہ دونوں تحریکیں تحریک آزادی کا روپ نہ دھار سکیں۔
1931ء میں بریلی کے علاقے میں ایک مسجد شہید کر دی گئی اور ایک پولیس اہلکار نے جان بوجھ کر قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔ ان واقعات سے مسلمانوں میں غم و غصہ پھیلنے لگا اور وہ اس کا اظہار سڑکوں پر مظاہروں کی صورت میں کرنے لگے۔ پولیس نے بہت سے مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔ جب ان کا مقدمہ عدالت میں چلا تو بہت سے مظاہرین عدالت کے باہر جمع ہوئے اور کارروائی سننے پر زور دیا۔ پولیس نے ان مظاہرین پر گولی چلائی اور یوں 13 جولائی 1931ء کو 27 افراد شہید اور بے شمار زخمی ہوئے۔ ان واقعات کی خبر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی اور مسلمانوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ انھی حالات کے باعث کشمیر کے مسلمانوں میں اتحاد کی فضا ابھری اور 14 اگست 1931ء کو پہلی بار جموں میں کشمیر ڈے منایا گیا۔
یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ ٹھیک 16 سال بعد اسی دن پاکستان آزاد ہوا۔ بہرحال ان واقعات کے ہندوستان بھر میں پھیلنے کے بعد مسلمانوں میں اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کا جذبہ شدومد سے پیدا ہواجو کہ آج بھی زندہ ہے۔ اس وقت اکتوبر1931ء میں پورے پنجاب میں چلو چلو کشمیر چلو کی صدائیں گونجنے لگیں۔ اس موقع پر برطانوی حکومت نے مداخلت کی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کو روکنے کا کہا گیا۔ یوں یہ تحریک بھی تحریک آزادی کی مکمل شکل نہ اختیار کر سکی۔ انھی دنوں 1933ء میں سرینگر پتھر مسجد میں جموں و کشمیر ’’مسلم کانفرنس‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔

یہ تحریکیں اگرچہ تحریک آزادی کی شکل اختیار نہ کر سکیں لیکن اس کے باوجود ان تحریکوں کے باعث مسلمانوں میں ایک بیداری کی لہراٹھی تھی اور وہ منظم ہو رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر ہندوئوں کو شدید تکلیف ہوئی چنانچہ انھوں نے بھی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کو کشمیر میں دعوت دی کہ وہ یہاں اپنے اڈے قائم کرے۔ چنانچہ 1934ء میں آر ایس ایس نے اپنا کام شروع کر دیا اور جابجا اس تنظیم کے مراکز کھل گئے۔ یہ مراکز بظاہر ورزش گاہ اور اکھاڑے کی مانند تھے کہ جہاں ہندو نوجوان جسمانی ورزشیں کرتے تھے لیکن درحقیقت یہ ریاست کی ہندو اقلیت کو مسلمانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے جنگی تربیت فراہم کرنے کے مراکز تھے۔ یہی مراکز بعد ازاں مسلمانوں کے خلاف منظم مظالم اور قتل عام کے لیے استعمال کیے گئے۔

ایک طرف وادی کشمیر میں ڈوگرہ رائے کے خلاف کاوشیں جاری تھیں جبکہ دوسری طرف ہندوستان بھر میں تحریک آزادی کو ایک نیا رخ مل چکا تھا۔ علامہ محمد اقبالa کی طرف سے ایک الگ وطن کا نظریہ پیش کیا جا چکا تھا۔ برصغیر میں جوں جوں مطالبہ پاکستان زور پکڑتا گیا ریاست میں بھی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کی حیثیت سے مسلم کانفرنس کا پلہ بھی اسی رفتار سے بھاری ہوتا گیا۔

3 جون 1947ء میں جب تقسیم ہند کا فارمولا منظور ہوا تو برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جغرافیائی اور معاشیاتی حقائق کے پیش نظر اپنی اپنی آبادی کی خواہشات کے مطابق بھارت یا پاکستان سے الحاق کر لیں۔ ریاست جموں و کشمیر کی 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اس کی 600میل لمبی سرحدپاکستان سے ملتی تھی۔ ریاست کی واحد ریلوے لائن سیالکوٹ سے گزرتی تھی اور بیرونی دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی پاکستان سے جڑا تھا۔ ریاست کی دونوں پختہ سڑکیں راولپنڈی اور سیالکوٹ سے گزرتی تھیں۔ ان سب حقائق کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق لازمی طور پر ایک قدرتی اور منطقی فیصلہ ہونا چاہیے تھا لیکن مہا راجہ ہری سنگھ اور کانگریسی لیڈروں کے عزائم اس فیصلہ کے بالکل برعکس تھے۔ مقاصد کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے انھوں نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر سازش کا جال بنا جس کے پھندے میں مقبوضہ ریاست کے بے بس اور مظلوم باشندے آج تک بری طرح گرفتار ہیں۔

جب 14 اگست 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا تو ریڈ کلف نے و اضح طور پر جانبداری کا مظاہرہ کیا اور ناانصافی پر مبنی کئی فیصلے کیے۔ ان سب میں وادی کے حوالے سے اہم یہ تھا کہ گور داسپور کا علاقہ جو مسلم اکثریت کا حامل تھا اسے بھارت کے ساتھ شامل کر دیا گیا تاکہ بھارت کو ریاست تک پہنچنے کا زمینی راستہ دیا جا سکے۔ مہاراجہ بھی پہلے ہی یہ سازباز کانگریسی لیڈروں کے ساتھ کر چکا تھا۔ لیکن اس بات کی خبر جب غیور کشمیری باشندوں کو ہوئی تو انھوں نے طے کیا کہ وہ ڈوگرہ راج سے لڑیں گے اور ریاست کا الحاق پاکستان سے کروائیں گے۔ لیکن ا س سے قبل ڈوگرہ فوج نے صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور مسلمانوں کے قتل عام اور ریاست بدری کا طریقہ کار اپنایا گیا۔ چنانچہ اس وقت جموں میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور بہت سوں کو اغوا کر لیا گیا۔ بہت سی عورتیں جنھیں پاکستان لے جانے کا کہہ کر ٹرکوں میں بٹھایا گیا، وہ آر ایس ایس کے غنڈوں کے حوالے کر دی گئیں۔ جنھوں نے ان کی عصمت دری کی اور بعد ازاں انھیں قتل کر دیا۔ یوں جموں میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔

جموں کے بعد مہاراجہ کو پونچھ کی فکر سوجھی۔ پونچھ میں 95 فیصد مسلمان تھے۔ یہاں بہت سے ریٹائرڈ فوجی بھی تھے۔ ان تک جب مسلمانوں کے قتل عام کی اطلاع پہنچی تو یہ فوراً لڑنے کا تیار ہو گئے۔ یہاں سردار عبدالقیوم نے دھیر کوٹ سے گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ وادی کے لوگوں نے عورتوں او ربچوں کو پاکستان منتقل کرنا شروع کیا اور خود سر پر کفن باندھ کر ڈوگرہ فوج سے لڑنا شروع کر دیا۔ چنانچہ راولاکوٹ، وادی جہلم اور بہت سے علاقوں سے ڈوگرہ فوج فرار ہو گئی۔

کشمیر کے لوگوں کی رشتہ رادیاں افغانوں اور پٹھانوں کے محسود اور دیگر قبائل سے تھیں۔ عورتیں اور بچے جب وہاں پہنچے تو ان پر ظلم کی داستانیں سن کر ان کے خون کھول اٹھے۔ چنانچہ ان علاقوں سے لشکروںکے لشکر کشمیر کی طرف روانہ ہوئے۔ چنانچہ چند ہی دنوں میں مظفر آباد اور ایبٹ آباد کے درمیان ہٹ راوی کے جنگل میں ایک بڑا لشکر جمع ہو گیا۔ خورشید انور نے اس لشکر کی کمان سنبھالی اور انھوںنے ڈوگرہ فوج سے لڑنا شروع کیا۔ چنانچہ مظفر آباد، کوٹلی، راولاکوٹ اور موجودہ آزاد کشمیر کو نہ صرف ڈوگرہ بلکہ ہندوستانی فوج سے بھی آزاد کروا لیا گیا۔ کیونکہ مہاراجہ اس وقت بھارت فرار ہوچکا تھا۔اس نے بھارت سے مدد مانگی تھی۔ بھارت نے اس شرط پر مدد فراہم کی کہ وہ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کر ے۔ مہاراجہ نے فوراً حامی بھر لی چنانچہ بھارتی فوجیں بھی سرینگر اور وادی کے دیگر حصوں میں پہنچنا شروع ہو گئیں تھیں۔

یوں جو حصہ مجاہدین نے آزاد کرواا لیا وہ آزاد کشمیر کہلایا جبکہ باقی ماندہ کشمیر پر بھارت نے اپنا غاصبانہ قبضہ جما لیا۔ چونکہ بھارت اپنی گھنائونی کارروائیوں سے واقف تھا سو اس نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق محض عار ضی اور وقتی ہے۔ الحاق کا حتمی فیصلہ جموں و کشمیر کے باشندوں کی آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدازنہ رائے شماری کے ذریعے کرا یا جائے گا۔ اس بات کا اعلان پنڈت جواہر لعل نہرو نے کیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ میں بھارت کی طرف سے دائر کردہ جنگ بندی کی اپیل منظور کر لی گئی اور بھارت نے اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی کہ کشمیر کا فیصلہ استصواب رائے سے کیا جائے گا اور انھیں حق خودارادیت دیا جائے گا۔ یوں 15اگست 1948ء کو اقوام متحدہ میں قرار داد حق خود ارادیت منظور کی گئی لیکن بھارت آج تک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے اور مسلسل عذر تراشیوں بلکہ ہٹ دھرمی سے کام لے رہا ہے۔

تقسیم ہند کے بعدبھی کشمیریوں نے اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھا اور اس میں حالات کے مطابق عروج و زوال آتے رہے۔ 1966 ء میں محمد مقبول بٹ نے نیشنل لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد بھی کشمیریوں کو آزادی دلوانا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئی جہت ملی۔ یہاں بھی گوریلا جنگ کا آغاز ہو ااور بہت سے مسلح آزادی کی تنظیمیں وجود میں آئیں اور1990ء میں تحریک آزادی کشمیر میںبہت تیزی آئی۔ دوسری طرف بھارت سرکار اور فوج نے اس تحریک کو دبانے کے لیے ہر طرح کے مظالم اختیار کیے اور ہلاکو و چنگیز خان کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ 1999ء میں جب کارگل کے مقام پر جنگ چھڑی تب بھی مسئلہ کشمیر حل ہونے کے قریب تھا لیکن بھارت نے ایک بار پھر اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی دہائی دی جس کو پاکستان نے مان لیا اور یوں تب بھی مسئلہ کشمیر حل نہ ہو سکا۔

9/11 کے بعد جب دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا آغاز کیا گیا اور امریکہ افغانستان میں آیاتو بھارت نے خطے میں اس کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے اقدامات کیے۔ جس کے باعث تحریک آزادی کشمیر کمزور ہوئی لیکن وہ مکمل طور پر ختم نہ کی جا سکی۔ اس کے مظاہر وقتاً فوقتاً ہمیں دیکھنے کو ملتے رہے۔

آج بھی کشمیریوں کے حوصلے اسی طرح بلند ہیں اور بھارت سے حد درجہ بیزاراور آزادی کے اسی قدر متوالے ہیں جس قدر ان کے آبائو اجداد تھے۔ اس کی واضح مثالیں کشمیر میں بھارتی افواج پر ہونے والے حملے اور بھارت کے یوم جمہوریہ کو ایک بار پھر یوم سیاہ کے طور پر منانے جیسے اقدامات ہیں۔ اسی طرح 5 فروری کو دنیا بھر میں کشمیریوں اور اہل اسلام نے مظاہروں، جلسے جلوسوں کے ذریعے کشمیر سے یکجہتی کا ثبوت دیا۔ کشمیریوں نے ایک بار پھر پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم ہر صورت بھارت سے آزادی حاصل کر کے رہیں گے اور پاکستان سے الحاق ہی کشمیریوں کی منزل ہے۔


متعلقہ خبریں


حکومتی کوششیں ناکام، پی ٹی آئی کے قافلے پنجاب میں داخل، اٹک میں جھڑپیں وجود - پیر 25 نومبر 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی قیادت میں قافلے پنجاب کی حدود میں داخل ہوگئے جس کے بعد تحریک انصاف نے حکمت عملی تبدیل کرلی ہے ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میںپنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے قافلے...

حکومتی کوششیں ناکام، پی ٹی آئی کے قافلے پنجاب میں داخل، اٹک میں جھڑپیں

پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد مارچ میں شریک وجود - پیر 25 نومبر 2024

تحریک انصاف ک فیصلہ کن کال کے اعلان پر خیبر پختون خواہ ،بلوچستان اورسندھ کی طرح پنجاب میں بھی کافی ہلچل دکھائی دی۔ بلوچستان اور سندھ سے احتجاج میں شامل ہونے والے قافلوںکی خبروں میں پولیس نے لاہور میں عمرہ کرکے واپس آنے والی خواتین پر دھاوا بول دیا۔ لاہور کی نمائندگی حماد اظہر ، ...

پنجاب بھر سے تحریک انصاف کے کارکن اسلام آباد مارچ میں شریک

جتنے راستے بند کر لیں ہم کھولیں گے، علی امین گنڈاپور وجود - پیر 25 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت جتنے بھی راستے بند کرے ہم کھولیں گے۔وزیراعلیٰ نے پشاور ٹول پلازہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی رہائی کی تحریک کا آغاز ہو گیا ہے ، عوام کا سمندر دیکھ لیں۔علی امین نے کہا کہ ...

جتنے راستے بند کر لیں ہم کھولیں گے، علی امین گنڈاپور

پی ٹی آئی کا احتجاج، حکومت کریک ڈاؤن کیلئے تیار، انٹرنیٹ اور موبائل بند وجود - پیر 25 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے ہونے والے احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس، رینجرز اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے جبکہ پنجاب اور کے پی سے جڑواں شہروں کو آنے والے راستے بند کر دیے گئے ہیں اور مختلف شہروں میں خندقیں کھود کر شہر سے باہر نکلنے کے راستے بند...

پی ٹی آئی کا احتجاج، حکومت کریک ڈاؤن کیلئے تیار، انٹرنیٹ اور موبائل بند

ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا گیا ، 26ویں آئینی ترمیم منظور نہیں، اسد قیصر وجود - پیر 25 نومبر 2024

سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا گیا ہے ۔ پی ٹی آئی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ ہمیں 26ویں آئینی ترمیم منظور نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہو چکی، ہم ملک میں امن چاہتے ہیں۔ اسد قیصر نے کہا کہ افغانستان ک...

ملک کو انارکی کی طرف دھکیلا گیا ، 26ویں آئینی ترمیم منظور نہیں، اسد قیصر

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر