... loading ...
انسانیت کادرد جو روح کی گہرائیوں تک محسوس کر سکتا تھا۔جس کا ہدف دولت جاہ حشمت اور دُنیا کے ساتھ دل لگانا نہ تھا۔ جو عام انسان کی آواز بن کر پورے معاشرے کے ضمیر کو جھنجوڑنے کے منصب پر فائز تھا۔ وہ شخص جو پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہونے کے باجود قسطوں پر لیے گئے سات مرلے کے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اطمینان کی زندگی گزار کر اِس دُنیا سے رخصت ہوکر اصل زندگی کی طرف لوٹ گیا۔ جناب منیر احمد قریشی المعروف منو بھائی نے ساری زندگی ایک تڑپ میں گزاری۔یہ تڑپ رب پاک نے اُنھیں بدرجہ اُتم عطا فرمائی تھی۔
منو بھائی ایسی منزلوں کے مسافر تھے جس کی منزل صرف اور صرف رب کی مخلوق سے پیار تھا۔ وہ پسے ہوے طبقے کی ایک توانا آواز بن کر ساری زندگی تگ و تاز میں رہے۔جس کو مسکن مل گیا اور جو ابھی منزل کا متلاشی ہے دونوں کی قسمت کا ستارہ ایک جیسا نہیں ہے۔ جسے منزل مل گئی اُس کی تمنائیں ، خواہشیں اُس کی زندگی زوال پزیر ہو گئیں اور جو ابھی راہ گزر میں ہے اُس کی طلب جوان ہے۔ وہ ہر راہ کو اپنے پاؤں کے تلے روندتا چلا جارہا ہے اُسکی چاہت کی تڑپ میں بلا کا درد ہے۔ جس نے سمجھ لیا کہ وہ کامیاب ہے ،وہی ناکامی سے دوچار ہوا اور جو زندگی کو ہر آن ایک نیا چیلنج سمجھ کر قبول کرتا رہا جس کے شب و روز راہ حق کے متلاشی رہے جو زندگی کی رمق موت کے اشاروں سے محسوس کرتا رہا اُس نے کچھ نہ پا کر بھی سب کچھ پالیا اُس کی طلب نے اُسے روکا نہیں، رواں دواں رکھا جو چاہت جو طلب روک دے وہ جذبوں کو سرد کر دیتی ہے اور جو لمحات عشق کی لٰو میں اضافہ کرتے چلے جائیں وہی تو حاصل ہیں ۔ کچھ نہ پا کر بھی سب کچھ پالینا اور بہت کچھ پاکر بھی سب کچھ کھو دینا۔ اِس دُنیا میں اربوں انسان آئے اور چل دیے لیکن رب پاک نے کچھ لوگ ایسے بھی اِس دُنیا میں بھیجے ہیں جن کے جانے سے کافی بڑا خلا ء محسوس ہوتا ہے۔ منو بھائی ایک ایسی ہی ہستی کا نام ہے۔ اِن کا نام ذہن میں آتے ہی سچائی کا استعارہ دماغ میں کوند پڑتا ہے۔ اِن کے انسان دوستی اور سچائی کے ساتھ اِن کے تعلق نے اِن کوموجودہ مادیت پسند معاشرے میں بھی ایک ممتاز حیثیت دے ڈالی ہے چونکہ وہ عام انسان کی بات کرتے تھے اور معاشرے کے دکھوں، غربت،
ناانصافی کے خلاف ایک توانا آواز تھے اِس لیے وہ معاشرے کے لیے بہت بڑا سہارا تھے۔
جب معاشرے میں ہر طرف دولت کی چاہت ہو جب ہر جا حر ص و لالچ نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں ایسے میں سچائی خلوص محبت اور غریب آدمی کی بات کرنا کسی جہاد سے کم نہیں۔آمریت کسی شکل میں بھی ہو خواہ وہ فوجی آمریت ہو یا سول آمریت یا اِس کا انداز بادشاہت والا ہو ایسے دور میں حق بات لکھنا جب کوڑے برسائے جارہے ہو جب من چاہی باتوں کو قانون کا درجہ دے دیا جائے، حق کا ساتھ دینا بہت دل گردے کا کام ہے ،یہ کام احسن انداز میں محترم منو بھائی نے انجام دیا۔آسائشات کا حصول لالچ بن کر مصلحت پسندی کا سبق سکھانا شروع کر دیتا ہے اور پھر حق گوئی مصلحت میں دبتی چلی جاتی ہے۔ جھوٹی آن بان شان کے لیے انسان اپنا ضمیر گروی رکھ دیتاہے، ہر دور کے حکمران موسمی دانشوروں اور نام نہاد مفکرین کی قیمت لگاتے ہیں اور پھر وہ قلم فروش اِن حکمران کے لیے دن رات جگالی کرتے ہیں۔لیکن منو بھائی نے قلم کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیا۔نصف صدی تک صحافت کے اِس چمکتے ستارے نے کبھی مصلحت پسندی کی گنگا میں اشنان نہیں کیا۔ ترقی پسندیت کو عوام سے محبت کا استعارہ عملی طور پر بنا کر دکھایا۔ تھیلسیمیا کے بچوں کے لیے سندس فاونڈیشن کے حوالے سے لا زوال کردار ادا کیا۔ قلم فروش اِس تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب حکمران طبقے کی اُن پر نظر پڑے اور وہ اِن کی خدمات بجا لانے کے لیے قلم کی حرمت کا سودا کریں لیکن منو بھائی حقیقی درویش تھے۔ کالم نگاری کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ ڈرامے لکھے۔ سونا چاندی، آشیانہ جھوک سیال جیسے مشہور ڈرامے اِن کے قلم سے نکلے۔منو بھائی کی پنجابی شاعری نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہوا ہے۔
منو بھائی کی شاعری اپنی مثال آپ ہے آپ فرماتے ہیں
او وی خوب دیہاڑے سن
بھک لگدی سی منگ لیندے ساں
مل جاندا سی کھا لیندے ساں
نہیں سی ملدا تے رو پیندے ساں
روندے روندے سوں رہندے ساں
ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں
بھک لگدی اے منگ نیں سکدے
ملدا اے تے کھا نیں سکدے
نیں ملدا تے رو نیں سکدے
نہ رویے تے سوں نہیں سکدے
منو بھائی نے 2014ء میں اپنا ذاتی کتب خانہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو عطیہ کردیا تھا۔ یہ کتب خانہ 145,464 کتب پر مشتمل تھا۔تعلیم کے بعد 1950ء کی دہائی میں راولپنڈی کے اخبار تعمیر میں پچاس روپے ماہوار پر نوکری کی۔ اور اسی اخبار سے اوٹ پٹانگ کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیا۔ امروز اخبار میں نظم بھیجی تو اس وقت کے مدیر احمد ندیم قاسمی نے قلمی نام منو بھائی عطا کیا۔ جو ان کے اصل نام کی جگہ معروف ہے، اسی نام سے کالم اور ڈراما نگاری کی۔’’تعمیر‘‘ سے قاسمی صاحب انہیں ’’امروز‘‘ میں لے آئے۔ یہاں انہوں نے دوسری صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ’’گریبان‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنے شروع کیے۔ حکومت سے صحافیوں کے معاوضے کے جھگڑے پر ان کا تبادلہ سزا کے طور پر ملتان ’’امروز‘‘ میں کر دیا گیا، جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو انہیں مساوات میں لے آئے۔ 7 جولائی 1970ء کو مساوات میں ان کا پہلا کالم چھپا۔ مساوات سے روزنامہ جنگ لاہور میں آ گئے۔ کچھ عرصہ دوسرے اخبارات میں بھی کام کیا۔اللہ پاک جناب منیر احمد قریشی المعروف منو بھائی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین