... loading ...
عالمی سامراج اور طاغوت کا نشانہ دراصل وہ عربی و عجمی مجاہدین تھے جنہوں نے سویت یونین کے بکھراؤ کے بعد اسرائیل کے دانت ’’الجہاد،حماس اور حزب اللہ ‘‘کے ناموں اور پرچموںتلے کھٹے کر دئے تھے ۔عالمی طاغوت نے بوسنیا میں بھی ان کی جراتمندی کا مشاہداہ کیا تھا ۔پھر انھوں نے جب دیکھا کہ مخصوص علماء چاہیے وہ شیعہ ہوں یا سنی ،سلفی ہوں یا اخوانی ،دیوبندی ہوں یا جماعت اسلامی سے متاثر ایک مخصوص طبقہ’’ اسلام کے نام پر کٹ مرنے ‘‘ کے لیے جگہ جگہ کشمیر سے لیکر فلپائن تک مورچے کھول بیٹھا ہے تو انھوں نے عراق میں امریکا کے نکلتے ہی بیمار ذہنیت رکھنے والے تنگ نظر جماعتوں کے ہاتھوں ’’شیعہ سنی مظالم ‘‘کی ناقابل برداشت اور قابل ملامت سانحات کو جنم دیکر اصحاب نبی ﷺ ، ازواج مطہراتؓ،اہل بیت ؓ،اختلاف خلافت ،فضیلتِ صحابہؓاور اہل بیت عظامؓ کے متعلق بارہ تیرہ سوسال پرانی کہانی کو کچھ اس انداز میںپھرسے بعض زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے براہ راست ٹیلی ویژن چینلز سے شروع کروایاکہ گویا کوئی نئی تحقیق اور کہانی ہو جو ابھی تک کسی کو معلوم نہیں تھی۔
مسئلہ یہ نہیںہے کہ اس کا آغاز کس نے کیا ہے ممکن ہے یہ’’ شیعہ ذاکرین ‘‘کی بعض صحابہؓ کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کا نتیجہ ہو یا جدیدسنی ناصبیوں کی کارستانی ہو جن کا اوڑھنا بچھونا ہی اہل بیت ؓ کی تنقیص کرنا ہے ۔میرے نزدیک پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ عالم اسلام کا وہ سرمایہ ہی ’’دہشت گردی کے نام پر ‘‘فنا کیا جا رہا ہے جس نے سویت یونین کو روس میں تبدیل کردیا اور جنہوں انتہائی قلیل وسائل کی شکل میں غزہ کے محصور شہر میں رہ کر دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچانے والے اسرائیل کی نکیل کس لی اور جنہوں نے عالم کفر کی تمام اتحادی افواج اور ان کے ساتھ ہم رکاب عالم اسلام کو امریکی کی سرپرستی میںافغانستان کے پہاڑوں میں ذلیل و خوار کردیا ۔حیرت یہ کہ عالم اسلام کی سرکاری فوجوں پر جن غیر مسلم افواج کانام سنتے ہی لرزہ طاری ہوتا ہے اور جن کے جرنیل کانپنے لگتے ہیں،ناقص فوجی صلاحیت اورنا کے برابر وسائل کے باوجود ان ’’شیر دل ‘‘سپوتوں نے روس ،امریکا اوراسرائیل کو نا صرف پریشان رکھا بلکہ حقیقت میں ان کی ناک کاٹ ڈالی ۔المیہ یہ کہ انہی قیمتی افراد کو عالم اسلام کی باون حکومتوں میں سے کوئی ایک بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئی ہے بلکہ الٹاانہیں بیچنے کے لیے دلالی کر کے نیویارک اور لندن کے بازاروں میں’’مالِ فیی‘‘کی طرح فروخت کیا جا رہا ہے ۔عالم طاغوت نے اسی قبیل کے نوجوانوں کو پہلے عراق میں صدام کی حکومت گراتے ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کردیا پھر شام سے لیکر فلسطین ،لیبیا ،یمن،افغانستان اور پاکستان تک ہی نہیں بلکہ عملاََسارے عالم اسلام میں اس طور پرایک دوسرے کے سامنے لایا کہ اب نا صرف ان کی ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کا اس قدر خون بہا چکے ہیں کہ اب پہلی والی صورت پیدا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہے ۔
انہی افراد نے نا صرف شام ،عراق ،یمن اور پاکستان میں آپسی رسہ کشی کی وجہ سے ان ملکوں کی معیشت کو تباہ و بربادکر دیا ہے ۔جب یہی قوت درست سمت پر تھی تو سویت یونین سکڑ گیا ،فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل عاجز آگیا اور امریکا ذلیل ہوا مگر جب ان کا قبلہ تبدیل کردیا گیا تو انھوں سارے عرب ممالک کو تاراج کر کے ہی دم لیا ۔میرا خدشہ یہی تھا کہ اس آپسی سر پھٹول میں نا ہی شیعہ جیتیں گے نا ہی سنی بلکہ دونوں تباہ و برباد ہو جائیں ۔بعض نادان دوست اب بھی اس ’’ذلتناک شکست کو فتح ‘‘قرار دیکر آپ اپنا دل بہلا رہے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ یہ معاملہ ماتم کرنے کا ہے اس لیے کہ بلا لحاظ مسلک و مشرب اور رنگ و نسل یہ’’بہادر قوم ‘‘دشمن کی اس سازش کو سمجھنے میں ناکام رہی یہاں تک ان کے اندر دشمنکے ایجنٹوں نے درونِ خانہ قیامت برپا کردی۔اب امریکا ،روس،اسرائیل یا کسی نیٹو کو اپنی فوجیں بھیج کر جوکھم اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اب داعش اسرائیل اور امریکا کاکام خود انجام دینے کا اعلان کر چکی ہے ۔یہی حال دوسری جہادی تنظیموں کا ہے جو ایک دوسرے کو مارنے یا انتقام لینے کی تاک میں بیٹھی ہیں۔
اس طویل وضاحت کے بعد آپ کو یہ بات سمجھنے میں کوئی اُلجھن باقی نہیں رہی ہوگی کہ آخر داعش نے اسرائیل یا امریکا کو نشانہ بنانے کے بجائے اب حماس کے خلاف اعلانِ جنگ کیوں کیا ہے ؟حد یہ کہ یہ سارا کھیل اسلام اور جہاد کے نام پر جاری ہے ۔قارئین کو یاد ہوگا کہ “عبداللطیف موسٰی” نے 14 اگست 2009ء کو غزہ پٹی کے جنوب میں واقع شہر رفح کی “مسجد ابن تیمیہ” میں ایک تقریرکی جس میں اس نے کہا کہ’’ہم اسلامی نظام کی اس عمارت کو اپنی لاشوں پر تعمیر کریں گے اور اس میں حدود الہٰی جاری کرکے شریعت اسلامی کے احکام نافذ کریں گے، تاکہ ایک بار پھر اس زندگی اور اسلام کا مزہ چکھ لیں‘‘ ۔اس نے اپنی تنظیم کا نام جند انصار اللہ رکھا ۔ اس تحریک نے اسرائیل کے ساتھ غزہ پٹی کی 22 روزہ جنگ کے دوران اعلان کیا کہ جس طرح صہیونی کافر ہیں، اسی طرح حرکت مقاومت اسلامی (حماس) بھی کافر ہے اور اس لحاظ سے ان دو کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے! حماس نے عزالدین قسام بریگیڈ کی ایک نامور شخصیت محمد جبریل الشمالی کی ثالثی کے ذریعہ مذکورہ مسلح گروہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ محمد جبریل مذاکرہ کرنے کی غرض سے مسجد میں داخل ہوا تو انہیں گولی مار کر شہیدکر دیاگیا۔دونوں طرف کئی لوگوں کے قتل ہونے کے بعد یہ معاملہ ختم ہوا۔حماس کے سیاسی دفتر کے بین الاقوامی تعلقات کے ذمہ دار “اسامہ حمدان” نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ: “وحدت اسلامی کی ضرورت کے بارے میں حماس کا موقف مکمل طور پر اظہر من الشمس ہے، ہم امت واحدہ ہیں اور اس امت کو اپنے دشمنوں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہئے، جو فرقہ پرستی کی آگ کو بھڑکاتا ہے، وہ حقیقت میں اپنے ہی گھر کو نذر آتش کرتا ہے، اسلامی امت کے خرمن میں آگ لگاتا ہے، ہم اس کے قائل ہیں کہ ہماری اصلی جنگ اسرائیل کے ساتھ ہے، جن کی امریکا حمایت کرتا ہے اور ہمارا حقیقی جہاد اسی غاصب حکومت سے ہے۔
ابو بکر البغدادی نے اس وقت ساری امت کو حیرت میں ڈالا تھا جب29جون 2014ء کو شام و عراق کے وسیع و عریض علاقے پر حیر ت انگیز طور پر چند دنوں میںقبضہ کر کے اپنی خلافت کے قیام کا اعلان کیا مگر اس شخص کے منہ سے اس وقت ایک بھی لفظ نہیں نکلاجب 8جولائی سے26اگست2014ء تک اسرائیل نے غزہ پر میزائیلوں اور بموں کی بارش برساکر 2310فلسطینیوں کو شہیداور10626کو زخمی کردیاتھا ۔داعش کے تمام پرانے بیانات کی کڑیاں ملانے اورغور و فکرکرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اصل میں ان کے نزدیک اپنے علاوہ کوئی سچا پکا مسلمان ہی نہیں ہے بلکہ ان کے سوا باقی سب گمراہ ہیں ۔اسے بھی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ انھوں افغانستان میں امریکی افواج کے ساتھ نبردآزما طالبان کے خلاف بھی محاذ کھول کر امریکا کے بجائے ان کے لوگوں کو مارنا شروع کردیا ۔یہ سوال ہر قاری کے ذہن میں پیدا ہونا چاہیے کہ آخر امت مسلمہ کے دشمن نمبر ایک اسرائیل اور امریکا کے خلاف لڑنے کے برعکس ان سے برسرپیکار مجاہدین سے لڑجھگڑنے والا امت کو کہاں لے جانا چاہتا ہے ؟ایسے میں غیر مسلموں یا غیر مسلکی مسلمانوں کے لیے ان کے ہاں کون سی جگہ ہوگی؟اور وہ ایسی خلافت اور فکر کو کیوں اور کیسے قبول کریں گے؟داعش کے بے رحیمانہ قتل عام اور امت مسلمہ کے مسلم مسالک و مکاتب فکر کے خلاف لکھنے اور بولنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ یہ زہریلی ذہنیت ان کی اپنی تخلیق نہیں ہے بلکہ انھوں نے بعض علماء اور دانشوروں کی کتابوں سے یہ سوچ حاصل کی ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے کئی سال پہلے عرض کیا تھا امت مسلمہ کو اپنے لٹریچر میں غیر سرکاری متبحرعلماء کے ذریعے تطہیر کرانی چاہیے نہیں تو داعش جیسے گروہ پیدا ہوتے رہیں گے اور امت کو اسلام کے نام پر نقصان پہنچا کر مٹتے رہیں گے ۔
(ختم شد)