وجود

... loading ...

وجود

بڑھک باز کو ہماری ضرورت پڑ ہی گئی!!!

هفته 27 جنوری 2018 بڑھک باز کو ہماری ضرورت پڑ ہی گئی!!!

اسلام دشمن قوتوں ہندو بنیوں یہود و نصاریٰ اور بڑھک باز بڑے سامراج کا اتحاد بھی کسی کام نہ آسکا اور رد عمل کے طور پر امریکا کی پاکستان کو اونٹ کے منہ میں زیرہ والی امداد بھی بند کردی گئی حالانہ وہ کولیشن سپورٹ رقم تھی اور37ارب نہیں بلکہ صرف19ارب بھیجے گئے ہم نے جو اس نام نہاد امریکی جنگ میں سپورٹر بن کر 70 ارب روپے کی معیشت کا نقصان کیا ہے وہ کس کھاتے میں جائے گا؟ اور جو ہزاروں افراد ہماری پاک افواج،رینجرز ،وپولیس اور پھر سویلین آبادیوں کے شہید ہوئے ان کا احساس تک امریکنوں کو اس لیے نہ ہے کہ اب ان کا صدر ٹرمپ قلیتاًیہودیوں کے ٹریپ میں ہے وہ صدارتی انتخابات کے دوران ہی اسلام دشمن تقریروں مسلمانوں کا قتل عام کروانے ،مساجد کو آگ لگوانے کا”چیمپئن ” بن چکا تھا۔

اب جیتتے ہی یہ اعلان کہ فلاں فلاں مسلمان ممالک کا امریکا میں داخلہ بند رہے گا اور یہ کہ تمام مسلمانوں کو امریکا سے نکال کر ہی دم لیں گے اور ابھی سے وہاں کے برسوں کے رہائشی مسلمانوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے حال ہی میں فلسطین کی سرزمین میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور پھر جنرل کونسل میں شرمناک شکست پانے کے بعد بھی میں نہ مانوں کی ہٹ دھرمی جاری ہے اور جن جن ممالک نے امریکا کے خلاف ووٹ دیا ان کی بھی امداد بند کرڈالنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں مگر مسلمانوں کے57ممالک کی اس کے خلاف قرار دادوں کے باوجود مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کا ظرف دیکھیں کہ ابھی تک نیٹو فورسز کو خوراک پہنچانے والے کنٹینروں کو اپنی سرزمین سے گزرنے پر پابندی عائد نہیں کی تاکہ اسلام کے زریں اصولوں کے عین مطابق افغانستان میں کئی ممالک کی مشترکہ افواج کے جوان بھوکوں نہ مرنے لگیں ۔اور ٹرمپ کے بیوقوفانہ ٹویٹس کو در خور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے 57اسلامی ممالک نے اپنے تجارتی تعلقات بھی ابھی تک امریکا سے منقطع نہیں کیے اور نہ ہی اپنے ممالک سے سفارتخانوں کو بند کرنے کااعلان کیا ہے۔

اگر ایسا ہوگیا تو امریکا کی ڈوبتی ہوئی معیشت مکمل بیٹھ جائے گی ۔ٹرمپ کا فلسطینی پاک سرزمین پر اپنا سفارتخانہ شفٹ کرنا مسلمانوں کے سینوں میں خنجر گھونپنے کے مترادف تھا ان تمام اوچھی حرکات کرنے کے بعد بھی ٹرمپ نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور افغانستان میں بھی اس کی اتحادی افواج چومکھی لڑائی لڑ رہی ہیں اور اپنی افواج کو وہاں سے نکال لے جانے کے سابق صدر اوبامہ کے فیصلے سے بھی منحرف ہو کر مزید فوجیں اسلامی افغانستان میں اتارنے کا نا معقول فیصلہ کر ڈالا ہے خواہش یوں لگتی ہے کہ وہ افغانستان سے قیمتی معدنیات چراکر لے جاسکیں حال ہی میں پاکستان نے تو پھر بھی طالبان سے امریکنو ں کے مذاکرات کے لیے پاک سرزمین دے ڈالی ہے اور پاکستان کے اندر دس روز تک بڑے سامراج نے طالبان سے مذاکرات جاری رکھے اور بڑھک باز امریکی صدر کو پھر ہماری ضرورت پڑ ہی گئی!پاکستان کو تو ہمسایہ پر امن افغانستان ہی وارا کھاتا ہے نہ کہ یہ کہ وہاں سی آئی اے اور بھارتی را کے اڈے قائم ہوں ہم جو 35لاکھ سے زائد افغانیوں کو سالہا سال سے پناہ دیے ہوئے ہیں اور ان کی رہائش خوراک کا مکمل انتظام کیا ہے۔

کوئی مسلمان خصوصاً مثبت سوچ رکھنے والے افغانی پشتون یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی کاروائی کریں گے ایسی قبیح شرارتوں کے پیچھے بھارتی را اور امریکن سی آئی اے ہی نظر آتی ہے، حالانکہ امریکنوں کو واضح طور پر پتہ ہے کہ اس کی فوجیں پاکستان کی امداد کے بغیر وہاں سے نکل بھی نہیں سکتیں ٹرمپ کو فوری چاہیے کہ پاکستان سے معافی کا طلبگار ہو اور ٹرمپ اپنا تھوکا خود ہی چاٹ لے وگرنہ آسمانوں کی طرف تھوکا ہوا اس کے اپنے منہ پر ہی آن گرے گا پاکستان جو کہ امریکی جنگ میں فرنٹ مین کا کردار ادا کرتا رہا ہے اسے پاکستان کے خلاف بات کرتے ہوئے بھی شرم آنی چاہیے رہی افغانی عوام کی بات تو انہیں آج تک کوئی شکست نہیں دے سکا۔

افغانستان کی50 فیصد سے زائد سرزمین پر طالبان کا قبضہ اس کا واضح ثبوت ہے امریکن سی آئی اے کی پراکسی ملیشیأ ،خوست پروٹیکشن فورس (KPF) افغان سیکورٹی گارڈز (ASG)،قندھار سٹرائیک فورس( (KSF،کی طرز کی بلیک واٹر جیسی غنڈہ تنظیموں کے خلاف پشتون عوام ان کی غلیظ حرکات خواتین اور نو عمر بچوں کے اغواء کی وجہ سے سخت نفرت کر رہے ہیں اور ایسی غنڈہ گردیوں کی وجہ سے پشتون رضا کارانہ طور پر طالبان سے ہی جا ملتے ہیں اور اس طرح ان کی ہمدردیاں یک لخت تبدیل ہو رہی ہیں اور مذکورہ تنظیمیں ہی بھارتی راء سے مل کر پاکستان کے اندر وارداتوں میں مصروف رہتی ہیں دوسری طرف افغان کی اندرونی صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکی افواج کے نوجوانوں کو اپنے زیر زمین تہہ خانو ں میں رہنے کی وجہ سے ہفتوں تک سورج کی روشنی بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ اور خود کشیاں کر رہے ہیں اور حال ہی میں امریکیوں کی دم چھلا افغانی حکمرانوں کے محلات کے قریب موجود کابل کے اندر انٹر کانٹینٹل ہوٹل پر حملہ اور درجنوں افراد کی ہلاکت جیسا واقعہ ہے جس کی پاکستان نے بھی سخت مذمت کی ہے ہماری بیش بہا قربانیوں کے بعد ہم سے ڈو مور کا مطالبہ ناجائز ہے در اصل ٹرمپ پاکستان کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے۔

مگر جس طرح روس چین ،پاکستان و دیگر ایشیائی ممالک متحد ہوتے نظر آرہے ہیں تو بالآخر امریکا کو اپنا بوریا بستر سمیٹ کر افغانستان سے نکلنا ہوگا یا پھر ٹرمپ کی بیوقوفیاں اس علاقہ کو ایٹمی جنگ میں جھونک ڈالیں گی امریکن عوام کا بھی ٹرمپ پر پریشر بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان جیسے وار آن ٹیرر کے مخلص ساتھی کو نہ گنوائے اور اپنے تعلقات مزید مستحکم کرے وگرنہ ذلت و رضالت بحر حال امریکنوں اور ہنو د و یہود کی قسمت میں لکھی جاچکی ہے اور اس کا نوشتۂ دیوار صاف پڑھا جاسکتا ہے اور جب تک امریکی افواج کابل میں موجود ہیں وہ پاکستان کے بغیر سراسر گھاٹے میں رہے گا۔دریں حالات ہم پاکستانیوں کو نہ تو نیٹو فورسز اور نہ ہی طالبان کا پاس ہے کہ ہم تو ہمسایہ ملک میں مسلمانوں کا قتل عام رکوا کر پھر اپنے ملک میں مکمل امن دیکھنا چاہتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر