... loading ...
استعفوں کا تیر تکا بنتے دیکھ کر اب شیخ رشید نے پینترہ بدل لیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں عمران خان نے استعفے سے منع کر دیا ہے، غالباً ان کا خیال تھا کہ لاہور کے جلسے میں ان کے استعفے کی بڑھک سے سب کچھ ہل جائیگا لیکن معاملہ زمین جنید نہ جنید گل محمد والا رہا تحریک انصاف میں استعفوں کے معاملے پر اختلاف کھل کر سامنے آ گیا تو وہ بھی اب شش و پنج میں ہے کہ استعفے دے یا نہ دے اگرچہ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ استعفے ان کے پاس جمع ہو گئے ہیں اور وہ جب چاہیں گے پختونخوا اسمبلی توڑ دیں گے لیکن ہمارے خیال میں یہ دونوں کام نہیں ہوں گے کیونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی عمرن خان نے نہیں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے توڑنی ہے جن کا ارادہ بالکل نہیں ہے اور اگر آپ کو یہ اطلاع دی جائے کہ رات کے اندھیرے میں انہوں نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ایک ملاقات کر لی ہے اور اس معاملے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے انہیں عندیہ دیا ہے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑنا چاہتے اور اگر ان پر دباؤ بڑھے تو مولانا کو ان کی مدد کے لیے آنا چاہئے۔
مولانا فضل الرحمن بھی چاہتے ہیں کہ صوبے کی اسمبلی اپنی مدت پوری کرے، اس لیے اسمبلی توڑنے کے حامیوں کو خاطر جمع رکھنی چاہئے کیونکہ عمران خان کے اعلان کے باوجود یہ کام نہیں ہونے جا رہا، اسی طرح 15ارکان قومی اسمبلی بھی ایسے ہیں جو استعفے نہیں دینا چاہئے گویا تحریک انصاف کے نصف ارکا ن تو یک سو ہیں کہ وہ استعفے نہیں دیں گے، جو معروف رہنما استعفوں کے حامی نہیں ہیں ان میں شاہ محمود قریشی ، شیریں مزاری، شفقت محمود اور ان کے ہم خیال شامل ہیں، ویسے بھی خیبرپختونخوا اسمبلی توڑنے کا نقصان تحریک انصاف ہی کو ہو گا کیونکہ الیکشن کمیشن اگلے ہفتے سینیٹ کے 52 ارکان کے انتخاب کے شیڈول کا اعلان کرنے والا ہے۔ ہر صوبے سے گیارہ ایسے ارکان کی مدت کے خاتمے کے بعد چھ سال کے لیے نئے ارکان کا انتخاب ہونا ہے۔ اگر خیبرپختونخوا کی اسمبلی موجود نہیں ہو گی تو پھر باقی صوبوں سے سینیٹ کے انتخابات تو پروگرام کے مطابق ہوں گے البتہ جس صوبے کی اسمبلی نہیں ہو گی اس کا الیکشن نہیں ہو سکے گا۔ موجودہ اسمبلی میں اپنی نمائندگی کے حساب سے تحریک انصاف پانچ ارکان آسانی سے منتخب کرا سکتی ہے اور اگر اسمبلی ٹوٹ گئی اور صوبے سے سینیٹ کے انتخابات نہ ہو سکے تو پھر نئے انتخابات کے بعد ہی اس صوبے سے سینیٹ کا انتخاب ہو سکے گا۔ اس وقت نہ جانے کیا صورت ہو، ویسے تو عمران خان ابھی سے اپنے آپ کو پورے ملک کا حکمران سمجھ رہے ہیں لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ صوبہ بھی تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل جائے۔ کیونکہ سیاسی روایت یہ ہے کہ اس صوبے کے ووٹروں نے کسی حکمران جماعت کو کبھی دوبارہ خدمت کا موقع نہیں دیا۔ پھر صوبے میں جو نئی گروپ بندیاں ہو رہی ہیں وہ بھی تحریک انصاف کی راہ کا روڑا بن سکتی ہیں۔
ایم ایم اے کئی سال کے بعد دوبارہ متحد ہو گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اس کے سربراہ منتخب ہو چکے ہیں جو تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین میں سرفہرست ہیں وہ تو 2013ء کے انتخاب کے بعد بھی کوئی نہ کوئی کام دکھانا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف نے ان کی حوصلہ افزائی نہ کی، اس لیے اب یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ تحریک انصاف دوبارہ اتنی نشستیں بھی لے پائے گی جتنی صوبے میں اس وقت اس کے پاس ہیں ،ایسے ہیں خیبرپختونخوا اسمبلی توڑنا کسی طرح قرین مصلحت نہیں ہے اس لیے پرویز خٹک تو اسمبلی نہیں توڑنا چاہیں گے لیکن عمران خان اگر کسی روحانی اشارے پر اسمبلی توڑنے کے لیے تیار ہو گئے تو پھر ساری سیاسی مصلحتیں ان کے سامنے پر کاہ کی حیثیت رکھیں گی اور وہ وہی کریں گے جس کا اشارہ انہیں ہو گا تاہم اس وقت پارٹی کے اندر پوزیشن یہی ہے کہ استعفوں اور اسمبلی توڑنے کے مخالفین اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
لاہور کے جلسے میں شیخ رشید نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفے کا اعلان کر دیا تھا اب وہ کہتے ہیں کہ وہ کوئی بچے ہیں وہ ایسی تاریخ کو استعفا دیں گے کہ ضمنی الیکشن نہ ہو سکیں۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ وہ استعفا دیں گے تو عمران خان اور ان کے ساتھی بھی ان کی پیروی کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اس لیے وہ ’’عمران خان کے مشورے‘‘ پر اب اپنے اعلان کی لاج نہیں رکھ رہے۔ شیخ رشید احمد نے انتخابی اصلاحات کے قانون کی منظوری کے خلاف سپریم کورٹ میں حکم امتناع کے لیے جو درخواست دی تھی وہ مسترد ہو گئی منگل کو درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے قرار دیا کہ نواز شریف پارلیمنٹ سے کی جانے والی آئینی ترمیم کے نتیجے میں پارٹی سربراہ بنے ہیں۔ اس کے خلاف حکم امتناع نہیں دیا جا سکتا۔