وجود

... loading ...

وجود

وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی مولانا فضل الرحمٰن سے رات اندھیرے ملاقات

جمعه 26 جنوری 2018 وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی مولانا فضل الرحمٰن سے رات اندھیرے ملاقات

استعفوں کا تیر تکا بنتے دیکھ کر اب شیخ رشید نے پینترہ بدل لیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں عمران خان نے استعفے سے منع کر دیا ہے، غالباً ان کا خیال تھا کہ لاہور کے جلسے میں ان کے استعفے کی بڑھک سے سب کچھ ہل جائیگا لیکن معاملہ زمین جنید نہ جنید گل محمد والا رہا تحریک انصاف میں استعفوں کے معاملے پر اختلاف کھل کر سامنے آ گیا تو وہ بھی اب شش و پنج میں ہے کہ استعفے دے یا نہ دے اگرچہ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ استعفے ان کے پاس جمع ہو گئے ہیں اور وہ جب چاہیں گے پختونخوا اسمبلی توڑ دیں گے لیکن ہمارے خیال میں یہ دونوں کام نہیں ہوں گے کیونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی عمرن خان نے نہیں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے توڑنی ہے جن کا ارادہ بالکل نہیں ہے اور اگر آپ کو یہ اطلاع دی جائے کہ رات کے اندھیرے میں انہوں نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ایک ملاقات کر لی ہے اور اس معاملے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے انہیں عندیہ دیا ہے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑنا چاہتے اور اگر ان پر دباؤ بڑھے تو مولانا کو ان کی مدد کے لیے آنا چاہئے۔

مولانا فضل الرحمن بھی چاہتے ہیں کہ صوبے کی اسمبلی اپنی مدت پوری کرے، اس لیے اسمبلی توڑنے کے حامیوں کو خاطر جمع رکھنی چاہئے کیونکہ عمران خان کے اعلان کے باوجود یہ کام نہیں ہونے جا رہا، اسی طرح 15ارکان قومی اسمبلی بھی ایسے ہیں جو استعفے نہیں دینا چاہئے گویا تحریک انصاف کے نصف ارکا ن تو یک سو ہیں کہ وہ استعفے نہیں دیں گے، جو معروف رہنما استعفوں کے حامی نہیں ہیں ان میں شاہ محمود قریشی ، شیریں مزاری، شفقت محمود اور ان کے ہم خیال شامل ہیں، ویسے بھی خیبرپختونخوا اسمبلی توڑنے کا نقصان تحریک انصاف ہی کو ہو گا کیونکہ الیکشن کمیشن اگلے ہفتے سینیٹ کے 52 ارکان کے انتخاب کے شیڈول کا اعلان کرنے والا ہے۔ ہر صوبے سے گیارہ ایسے ارکان کی مدت کے خاتمے کے بعد چھ سال کے لیے نئے ارکان کا انتخاب ہونا ہے۔ اگر خیبرپختونخوا کی اسمبلی موجود نہیں ہو گی تو پھر باقی صوبوں سے سینیٹ کے انتخابات تو پروگرام کے مطابق ہوں گے البتہ جس صوبے کی اسمبلی نہیں ہو گی اس کا الیکشن نہیں ہو سکے گا۔ موجودہ اسمبلی میں اپنی نمائندگی کے حساب سے تحریک انصاف پانچ ارکان آسانی سے منتخب کرا سکتی ہے اور اگر اسمبلی ٹوٹ گئی اور صوبے سے سینیٹ کے انتخابات نہ ہو سکے تو پھر نئے انتخابات کے بعد ہی اس صوبے سے سینیٹ کا انتخاب ہو سکے گا۔ اس وقت نہ جانے کیا صورت ہو، ویسے تو عمران خان ابھی سے اپنے آپ کو پورے ملک کا حکمران سمجھ رہے ہیں لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ صوبہ بھی تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل جائے۔ کیونکہ سیاسی روایت یہ ہے کہ اس صوبے کے ووٹروں نے کسی حکمران جماعت کو کبھی دوبارہ خدمت کا موقع نہیں دیا۔ پھر صوبے میں جو نئی گروپ بندیاں ہو رہی ہیں وہ بھی تحریک انصاف کی راہ کا روڑا بن سکتی ہیں۔

ایم ایم اے کئی سال کے بعد دوبارہ متحد ہو گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اس کے سربراہ منتخب ہو چکے ہیں جو تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین میں سرفہرست ہیں وہ تو 2013ء کے انتخاب کے بعد بھی کوئی نہ کوئی کام دکھانا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف نے ان کی حوصلہ افزائی نہ کی، اس لیے اب یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ تحریک انصاف دوبارہ اتنی نشستیں بھی لے پائے گی جتنی صوبے میں اس وقت اس کے پاس ہیں ،ایسے ہیں خیبرپختونخوا اسمبلی توڑنا کسی طرح قرین مصلحت نہیں ہے اس لیے پرویز خٹک تو اسمبلی نہیں توڑنا چاہیں گے لیکن عمران خان اگر کسی روحانی اشارے پر اسمبلی توڑنے کے لیے تیار ہو گئے تو پھر ساری سیاسی مصلحتیں ان کے سامنے پر کاہ کی حیثیت رکھیں گی اور وہ وہی کریں گے جس کا اشارہ انہیں ہو گا تاہم اس وقت پارٹی کے اندر پوزیشن یہی ہے کہ استعفوں اور اسمبلی توڑنے کے مخالفین اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

لاہور کے جلسے میں شیخ رشید نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفے کا اعلان کر دیا تھا اب وہ کہتے ہیں کہ وہ کوئی بچے ہیں وہ ایسی تاریخ کو استعفا دیں گے کہ ضمنی الیکشن نہ ہو سکیں۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ وہ استعفا دیں گے تو عمران خان اور ان کے ساتھی بھی ان کی پیروی کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اس لیے وہ ’’عمران خان کے مشورے‘‘ پر اب اپنے اعلان کی لاج نہیں رکھ رہے۔ شیخ رشید احمد نے انتخابی اصلاحات کے قانون کی منظوری کے خلاف سپریم کورٹ میں حکم امتناع کے لیے جو درخواست دی تھی وہ مسترد ہو گئی منگل کو درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے قرار دیا کہ نواز شریف پارلیمنٹ سے کی جانے والی آئینی ترمیم کے نتیجے میں پارٹی سربراہ بنے ہیں۔ اس کے خلاف حکم امتناع نہیں دیا جا سکتا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر