وجود

... loading ...

وجود

عباسی کا عدلیہ پر وار۔کمزوری کا طعنہ

بدھ 24 جنوری 2018 عباسی کا عدلیہ پر وار۔کمزوری کا طعنہ

اگر حکومت خود ہی عدلیہ کی بے عزتی پر اُت�آے تو پھر قانون کی حاکمیت کہا ں جاتی ہے۔لاہور میں قادری نیازی زرداری کا اپوزیشن شو ناکام کیا ہوا۔ حمید الدین سیالوی صاحب بھی حکومت کو پریشان نہیں کر سکے۔ ن لیگ اب فرنٹ فُٹ پر آکر کھیل رہی ہے۔ حالانکہ ننھی زینب کا قتل اور پھر میڈیا کی بھر پور آواز لیکن ن لیگ کی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی پنجاب پولیس کو مہلت بھی دی لیکن کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ سُننے میں یہی آرہا ہے کہ حکومتی شخصیت اِس میں شامل ہے۔ بہرحال چند دن پہلے وکلاء سے خطاب میں چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی اور ساتھ ہی وکلاء کا خود کو کمانڈر قرار دیا لیکن چیف جسٹس صاحب شاید اپنے خطاب کی رو میں زیادہ ہی بہہ گئے کہ لاہور بار کے صدر کو جلی کٹی بھی سُنا ڈالیں۔ ایشاء کی سب سے بڑی بار کے منتخب صدر کو جس انداز میں لاہور ہائی کورٹ بار کے سیمینار میں ڈانٹا۔ یہ بات چیف جسٹس کے عہدے کے منافی ہے اور پھر خود کو وکلاء کا کمانڈر بھی کہہ رہے ہیں۔

عدالتوں کی جوحالت ہے یقینی طور رپر انصاف نام کی کوئی چیز عدالتوں میں نہیں ہے۔سول کیس تیس چالیس سال چلتا ہے۔ عدالتوں میں بیشتر جج صاحبان کام درست طور پر نہیں کر رہے۔ بس تاریخ پہ تاریخ دے دیتے ہیں۔ اوپر سے ملک کی حکمران جماعت کے ساتھ عدلیہ کی جو ٹسل چل رہی ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے اگر ہسپتالوں، پینے کے پانی و صحت کے حوالے سے ازخود نوٹس لیے ہیں اس کی وجہ صاف ہے کہ حکومت کا م نہیں کر پارہی۔ لیکن حکمران کہاں برداشت کرتے ہیں کہ اُن سے کوئی پوچھ گچھ کرے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے ملکی تاریخ کا خطرناک وزیراعظم ہوں جو کچھ بھی کہہ اور کر سکتا ہے، ماضی کی طرح کرپٹ ترین شخص کو نگران وزیراعظم نہیں لگایا جائے گا، سابقہ نگران وزیراعظم کے دور میں اتنی رشوت تھی کہ ان کے دو سیکرٹریز بھی استعفیٰ دے کر چلے گئے، پارلیمنٹ کو کوئی خطرہ نہیں۔ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں صرف چار ماہ باقی رہ گئے، نواز شریف کی قیادت ہی میں انتخابات 2018ء لڑیں گے۔ شہباز شریف یا میری تصویر لگانے سے کوئی ووٹ نہیں دے گا، نوازشریف کی تصویر ہی چلے گی تمام سیاسی جما عتو ں کے مستقبل کا فیصلہ پاکستان کے عوام کریں گے۔ ختم نبوت پر حلف کو اقرار میں تبدیل ہونے کے بارے میں راجہ ظفر الحق کی رپورٹ مکمل جائزہ لینے کے بعد ہی جاری کی جائے گی۔ این آر او کا سہارا چور لیتے ہیں، ہم نے کوئی ڈاکہ نہیں مارا۔

مسلم لیگ (ن) نے حکومتی نظام بڑے صاف اور شفاف انداز میں چلایا ہے اس لیے ہمیں کسی این آر او کی کوئی ضرورت نہیں۔ گالیاں دینے والوں کے ساتھ کیا سیاسی مکالمہ کیا جائے؟ ان سے بات آئندہ الیکشن کے موقع پر ہی ہوگی۔ ہر ادارہ اپنی حدود کار میں رہ کر کام کرے تو بہتر ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج نے جو کردار ادا کیا ہے وہ پوری دنیا کی فوج اکٹھی ہو کر بھی افغانستان میں ادا نہیں کرسکی۔ نواز شریف ہمیں کہہ دیں تو ہم قومی اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں یا پھر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے، اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ سازشوں پر یقین نہیں رکھتا، میرے خلاف کوئی سازش نہیں ہو رہی۔ سینیٹ الیکشن بھی ہو جائیں گے۔ آمرانہ دور میں ملک کو جنگ میں دھکیلنے والے دبئی اور لندن بیٹھے ہیں سیاستدانوں کو نیب اور عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ سی پیک کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دینے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی لانے سے پہلے انہوں نے فوج اور جہازوں سے پہلے اسے فتح کیا جبکہ چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے حالات مختلف ہیں۔ چین کی دوستی کی قدر کرتے ہیں۔ سی پیک کی سرمایہ کاری ملک کے فائدے میں ہے۔ فاٹا اصلاحات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ فیض آباد دھرنا‘ حکومتی فیصلہ اور طے پانے والے معاہدے سے ختم ہوا۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ امریکاسے پاکستان کو کسی قسم کا عسکری خطرہ رہا ہے نہ ابھی ہے۔ مشرف سے جس نے این آر او کیا آج وہ مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں بیٹھے ہیں، ججز نامزدگیوں کے لیے عوامی سماعت ہونی چاہیے، اگر ہم کمزور ججز لگائیں گے تو اس کے نتائج تو بھگتنے پڑیں گے، چھٹا بجٹ بھی یہی حکومت بنا کر جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ ججز تقرریوں پر بھی عوامی بحث ہونی چاہیے، ججز کی ٹیکس ادائیگیوں کا بھی قوم کو علم ہونا چاہیے۔ ملک میں ان تقرریوں کے موجودہ طریقہ کار پر تحفظات ہیں، سب کو اپنے اپنے گھروں کی فکر کرنی چاہیے، اپنا اپنا گھر ٹھیک رکھنا چاہیے اور آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ تقرریوں سے پہلے ججز کے چہروں سے عوام کو آگاہ ہونا چاہیے۔ پوری دنیا میں یہی طریقہ کار ہے کیونکہ ججز زندگی و موت، اربوں روپے اور ملکی معاملات کے فیصلے کرتے ہیں۔ اگر ہم کمزور ججز لگائیں گے تو اس کے نتائج تو بھگتنے پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں لعنتیے کو سمجھ آ جائیگی۔ حکومتی کارکردگی کے اصل منصف عوام ہیں۔ جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہوتا ہے، سیاستدان سب کو جواب دہ ہوتا ہے۔ آج پرویز مشرف کے دبئی، لندن پتہ نہیں کہاں کہاں فلیٹس ہیں، سیاستدان کبھی نا اہل کبھی جلا وطن بھی ہوتے ہیں۔ انہیں سسلین مافیا اور پتہ نہیں کیا کیا کہا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آمروں سے تو کوئی پوچھنے والا نہیں، تاہم سیاستدانوں کو عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو کبھی ہائی جیکر اور کبھی سسلین مافیا کہا جاتا ہے، ہر ادارہ جگہ بنانے کی کوشش کررہا ہے، عوام اسے قبول کرتے ہیں جو فطرت کے مطابق ہو۔ پارلیمنٹ کو کوئی خطرہ نہیں۔ وزیر اعظم جناب عباسی نے خوب نمک حلالی کی ہے اور عدلیہ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اِن حالات میں قوم کو سمجھ جانا چاہیے کہ حکمرانی کے لیے ایسے لوگوں کو چُنیں جو اداروں کا احترام کریں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر