... loading ...
میڈیا کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ایک ریسرچ اسکالر کی سوشل میڈیا پر ہاتھ میں اے کے 47 رائفل لیے تصویر وائرل ہونے سے کھلبلی مچ گئی ہے۔طالب علم کا نام منان وانی بتایا جا رہا ہے۔ اس کاحزب المجاہدین میں شامل ہونے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ اگرچہ اے ایم یو انتظامیہ نے معاملہ کی تصدیق نہیں کی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تحقیقات کی جا رہی ہے کہ طالب علم یونیورسٹی کا ہے یا نہیں۔ذرائع کے مطابق منان وانی اے ایم یو میں اپلائیڈ جولوج میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا اور اس نے کچھ دنوں پہلے یونیورسٹی کوچھوڑ دیا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ منان وانی کشمیر کے کپواڑہ کا رہنے والا ہے۔ اس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا تھا۔ طالب علم کے سلسلہ میں اب تک کوئی اطلاعات نہیں ملی ہیں۔ ادھر ریاستی پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے کہا ہے کہ تحقیقات کے بعد ہی اس معاملہ میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔دریں اثناء علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے جیالوجی شعبہ کے پی ایچ ڈی طالب علم منّان بشیر وانی کا اخراج کردیا ہے اور یونیورسٹی کے محمد حبیب ہال میں واقع اس کے کمرے کو مہر بند کردیا ہے۔ یہ کارروائی طالب علم کے مبینہ طور پر قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اطلاعات کے باعث کی گئی ہے جس سے پرامن تعلیمی ماحول خطرہ میں پڑسکتا ہے اور بدامنی پیدا ہوسکتی ہے۔اے ایم یو کے پراکٹر پروفیسر ایم محسن خاں نے کہا کہ چونکہ وانی نے اے ایم یو اسٹوڈنٹس کنڈکٹ اینڈ ڈسپلن رولس 1985ء کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے معاملہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کے سامنے پیش کیا گیا۔ انھوں نے بتایا معاملہ کی سنگینی کے پیش نظر وائس چانسلر نے یونیورسٹی سے وانی کا فوری طور سے آئندہ جانچ ہونے تک اخراج کردیا ہے۔
گذشتہ کئی روز سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسکالر محمدمنان کے حزب المجاہدین میں شمولیت کو لیکر بحث و مباحثہ جاری ہے اور نئی دلی کی ٹیلی ویژن چینلز میں کام کر رہے ’’چیخنے چلانے والے اینکروں‘‘پر گویا مرگی کے دورے جاری ہیں کہ یہ تک نہیں معلوم ہے کہ کون سی بات کولے کر منان کی حمایت ہو رہی ہے اور کونسی کہنے سے اس کے نظریے کی تردیدہو رہی ہے ۔یقین کیجیے یہ بھی’’ لکھے پڑھے جہلا‘‘کی وہ جماعت ہے جنہیں ہمیں چاروناچار کبھی کبھار سننا پڑتا ہے ۔انہیں ’’جھوٹی تشویش‘‘یہ ہے کہ اگر اسی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ’’جہادی تنظیموں ‘‘میں شامل ہوتے رہے تو پھر کشمیر کا مستقبل کیا ہوگا؟اور سکیورٹی ایجنسیز کو انہیں کچلنے میں بڑی دشواری پیش آئے گی ۔ کشمیر کی دہائیوں پرانی عسکریت کے برعکس ہم اگر 1989ء میں شروع کی گئی عسکریت کو ہی لے لیں اس میں شامل پچاس ہزار کے قریب نوجوانوں کی اکثریت لکھے پڑھے لوگوں کی تھی ،اور جہاں تک قیادت کا تعلق ہے ایک آدھ کے سوا باقی سب لکھے پڑھے لوگ ہی تھے ،چاہئے وہ کشمیر کی سب سے بڑی عسکری تنظیم حزب المجاہدین ہو یا الجھادہو،جے ،کے ،ایل ،ایف ہویا لشکر طیبہ اور دوسری چھوٹی بڑی تنظیمیں عسکری قیادت میں اشفاق مجید،اعجاز احمد ڈار،ماسٹر محمد احسن ڈار ،سید صلاح الدین ، شمس الحق ،علی محمد ڈار ،محمد مقبول الائی ، محمد اشرف ڈار،کمانڈر مسعود تانترے،ریاض الرسول،انجینئر محمود الزمان،کمانڈر امتیازاحمد،انجینئر فردوس کرمانی ،کمانڈر سیف اللہ ،ناصر الاسلام ،پروفیسر معین الاسلام اور پائلٹ ندیم خطیب کتنے نام گنائے جائیں جنہوں نے’’ ایک مقصد‘‘کے لیے زندگیاں قربان کردیں اور یہ بھی حق ہے کہ 1990ء میں جن حضرات نے بندوق اٹھائی تھی ممکن ہے کہ ان میں بہت سارے لوگ کم لکھے پڑھے یا ان پڑھ بھی شامل ہوئے ہوں تو بھی یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ اولاََ یہ بحث ہی غیر ضروری ہے اس لیے کہ کسی تحریک میں لکھے پڑھے لوگوں کی شمولیت یا عدم شمولیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے ثانیاََ یہ کوئی ’’میعار حق‘‘نہیں ہے البتہ 1990ء میں جو کم لکھے پڑھے عسکری تحریک میں شامل ہو ئے تھے وہ علاقائی سطح پر بااثر ہو نے کے ساتھ ساتھ بہت اعلیٰ دماغ لوگ تھے، حالانکہ اس بحث سے دلچسپی رکھنے والے لوگ اگر ایک سال پیچھے 1989ء کی ریاستی اسمبلی وزرأ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں تو انھیں نظر آئے گااور ہماری نئی نوجوان نسل کو سخت حیرت ہو گی کہ اس اسمبلی میں اس وقت کئی ان پڑھ وزراء اور ممبران اسمبلی پورے جلال کے ساتھ براجمان تھے ۔
گذشتہ کئی برسوں سے جو نوجوان سیکورٹی فورسز کے ساتھ معرکہ آرائیوں میں جاں بحق ہوئے ہیں ان میں جدید تعلیم یافتہ لوگ ہی شامل نہیں تھے بلکہ کئی نوجوان دینی درسگاہوں کے فضلأ بھی تھے۔ ہلال احمد نامی نوجوان دارالعلوم دیو بند کی فراغت کے ساتھ ساتھ ایک مفتی بھی تھا۔اسی طرح محمد ایوب فلاحی نامی ایک عالم دین جامعۃ الفلاح کا فارغ بھی تھا۔متعصب تجزیہ نگاروں کی سمجھ میں گذشتہ تیس برس سے یہ بات ہی نہیں آرہی ہے کہ کشمیر میں جاری تحریک کسی فرد، لیڈر یا تنظیم کا معاملہ نہیں بلکہ ایک قوم کی خواہشات اور آرزؤں کا مسئلہ ہے ۔تو ایک قوم کے لکھے پڑھے نوجوان اسے الگ تھلگ کیسے رہ سکتے ہیں ؟مجھے فوج نے 1996ء میں گرفتار کر کے چھے مہینوں تک مختلف انٹراگیشن سینٹر وں میں قید رکھا جہاں ملٹر ی انٹیلی جنس اور آئی ،بی کے لو گ بڑے عجیب و غریب بلکہ کہنا چاہئے بے سر وپا سوالات پوچھتے تھے جن میں ایک یہ بھی ہوتا تھا کہ لکھے پڑھے اور کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوان بندوق کا راستہ کیوں اختیار کرتے ہیں ؟دراصل ان لوگوں کے ذہن میں ممبئی فلم انڈسٹری کی بنائی ہوئی فلموں کا اثر گہرا ہوتا ہے جس میں عسکریت پسندوں کو
جاہل ،گنوار،ان پڑھ ،ہوس پرست ،شرابی ،زن پرست ،بے رحم ،زانی اوردولت کے بھوکوں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے ۔گہرا تجزیہ کرنے کے بجائے یہ لوگ خود اپنے آپکو بیوقوف اور اپنی قوم کو گمراہ کرنے میں زیادہ دلیر ہوتے ہیں حالانکہ اب تو القائدہ کے وجود میں آنے اور اس میں ارب پتی شہزادوں اور مغربی دنیا کے لکھے پڑھے نوجوانوں کی شمولیت کے بعداس غبارے سے ہی ہوا نکل گئی ہے،اور اس طرح دنیا کو گمراہ کرنے والی ’’بالی وڈ اور ہالی وڈ‘‘کے پاس کہانیاں ہی ختم ہو چکی ہیں ۔ وہ لوگ اس ناحیے سے کوئی فلم بنانے کے لیے تیارہی نہیں ہیں اس لیے کہ میڈیا رپورٹس اور خود مغربی صحافیوں کی بیان کردہ کہانیوں کے نتیجے میں ان کی عمر بھر کی کہانیاں ڈراموں اور افسانوں سے زیادہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوچکی ہیں ۔
(جاری ہیں)