وجود

... loading ...

وجود

اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مائل بہ جہاد کیوں؟

بدھ 24 جنوری 2018 اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مائل بہ جہاد کیوں؟

میڈیا کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ایک ریسرچ اسکالر کی سوشل میڈیا پر ہاتھ میں اے کے 47 رائفل لیے تصویر وائرل ہونے سے کھلبلی مچ گئی ہے۔طالب علم کا نام منان وانی بتایا جا رہا ہے۔ اس کاحزب المجاہدین میں شامل ہونے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ اگرچہ اے ایم یو انتظامیہ نے معاملہ کی تصدیق نہیں کی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تحقیقات کی جا رہی ہے کہ طالب علم یونیورسٹی کا ہے یا نہیں۔ذرائع کے مطابق منان وانی اے ایم یو میں اپلائیڈ جولوج میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا اور اس نے کچھ دنوں پہلے یونیورسٹی کوچھوڑ دیا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ منان وانی کشمیر کے کپواڑہ کا رہنے والا ہے۔ اس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا تھا۔ طالب علم کے سلسلہ میں اب تک کوئی اطلاعات نہیں ملی ہیں۔ ادھر ریاستی پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے کہا ہے کہ تحقیقات کے بعد ہی اس معاملہ میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔دریں اثناء علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے جیالوجی شعبہ کے پی ایچ ڈی طالب علم منّان بشیر وانی کا اخراج کردیا ہے اور یونیورسٹی کے محمد حبیب ہال میں واقع اس کے کمرے کو مہر بند کردیا ہے۔ یہ کارروائی طالب علم کے مبینہ طور پر قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اطلاعات کے باعث کی گئی ہے جس سے پرامن تعلیمی ماحول خطرہ میں پڑسکتا ہے اور بدامنی پیدا ہوسکتی ہے۔اے ایم یو کے پراکٹر پروفیسر ایم محسن خاں نے کہا کہ چونکہ وانی نے اے ایم یو اسٹوڈنٹس کنڈکٹ اینڈ ڈسپلن رولس 1985ء کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے معاملہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کے سامنے پیش کیا گیا۔ انھوں نے بتایا معاملہ کی سنگینی کے پیش نظر وائس چانسلر نے یونیورسٹی سے وانی کا فوری طور سے آئندہ جانچ ہونے تک اخراج کردیا ہے۔

گذشتہ کئی روز سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسکالر محمدمنان کے حزب المجاہدین میں شمولیت کو لیکر بحث و مباحثہ جاری ہے اور نئی دلی کی ٹیلی ویژن چینلز میں کام کر رہے ’’چیخنے چلانے والے اینکروں‘‘پر گویا مرگی کے دورے جاری ہیں کہ یہ تک نہیں معلوم ہے کہ کون سی بات کولے کر منان کی حمایت ہو رہی ہے اور کونسی کہنے سے اس کے نظریے کی تردیدہو رہی ہے ۔یقین کیجیے یہ بھی’’ لکھے پڑھے جہلا‘‘کی وہ جماعت ہے جنہیں ہمیں چاروناچار کبھی کبھار سننا پڑتا ہے ۔انہیں ’’جھوٹی تشویش‘‘یہ ہے کہ اگر اسی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ’’جہادی تنظیموں ‘‘میں شامل ہوتے رہے تو پھر کشمیر کا مستقبل کیا ہوگا؟اور سکیورٹی ایجنسیز کو انہیں کچلنے میں بڑی دشواری پیش آئے گی ۔ کشمیر کی دہائیوں پرانی عسکریت کے برعکس ہم اگر 1989ء میں شروع کی گئی عسکریت کو ہی لے لیں اس میں شامل پچاس ہزار کے قریب نوجوانوں کی اکثریت لکھے پڑھے لوگوں کی تھی ،اور جہاں تک قیادت کا تعلق ہے ایک آدھ کے سوا باقی سب لکھے پڑھے لوگ ہی تھے ،چاہئے وہ کشمیر کی سب سے بڑی عسکری تنظیم حزب المجاہدین ہو یا الجھادہو،جے ،کے ،ایل ،ایف ہویا لشکر طیبہ اور دوسری چھوٹی بڑی تنظیمیں عسکری قیادت میں اشفاق مجید،اعجاز احمد ڈار،ماسٹر محمد احسن ڈار ،سید صلاح الدین ، شمس الحق ،علی محمد ڈار ،محمد مقبول الائی ، محمد اشرف ڈار،کمانڈر مسعود تانترے،ریاض الرسول،انجینئر محمود الزمان،کمانڈر امتیازاحمد،انجینئر فردوس کرمانی ،کمانڈر سیف اللہ ،ناصر الاسلام ،پروفیسر معین الاسلام اور پائلٹ ندیم خطیب کتنے نام گنائے جائیں جنہوں نے’’ ایک مقصد‘‘کے لیے زندگیاں قربان کردیں اور یہ بھی حق ہے کہ 1990ء میں جن حضرات نے بندوق اٹھائی تھی ممکن ہے کہ ان میں بہت سارے لوگ کم لکھے پڑھے یا ان پڑھ بھی شامل ہوئے ہوں تو بھی یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ اولاََ یہ بحث ہی غیر ضروری ہے اس لیے کہ کسی تحریک میں لکھے پڑھے لوگوں کی شمولیت یا عدم شمولیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے ثانیاََ یہ کوئی ’’میعار حق‘‘نہیں ہے البتہ 1990ء میں جو کم لکھے پڑھے عسکری تحریک میں شامل ہو ئے تھے وہ علاقائی سطح پر بااثر ہو نے کے ساتھ ساتھ بہت اعلیٰ دماغ لوگ تھے، حالانکہ اس بحث سے دلچسپی رکھنے والے لوگ اگر ایک سال پیچھے 1989ء کی ریاستی اسمبلی وزرأ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں تو انھیں نظر آئے گااور ہماری نئی نوجوان نسل کو سخت حیرت ہو گی کہ اس اسمبلی میں اس وقت کئی ان پڑھ وزراء اور ممبران اسمبلی پورے جلال کے ساتھ براجمان تھے ۔

گذشتہ کئی برسوں سے جو نوجوان سیکورٹی فورسز کے ساتھ معرکہ آرائیوں میں جاں بحق ہوئے ہیں ان میں جدید تعلیم یافتہ لوگ ہی شامل نہیں تھے بلکہ کئی نوجوان دینی درسگاہوں کے فضلأ بھی تھے۔ ہلال احمد نامی نوجوان دارالعلوم دیو بند کی فراغت کے ساتھ ساتھ ایک مفتی بھی تھا۔اسی طرح محمد ایوب فلاحی نامی ایک عالم دین جامعۃ الفلاح کا فارغ بھی تھا۔متعصب تجزیہ نگاروں کی سمجھ میں گذشتہ تیس برس سے یہ بات ہی نہیں آرہی ہے کہ کشمیر میں جاری تحریک کسی فرد، لیڈر یا تنظیم کا معاملہ نہیں بلکہ ایک قوم کی خواہشات اور آرزؤں کا مسئلہ ہے ۔تو ایک قوم کے لکھے پڑھے نوجوان اسے الگ تھلگ کیسے رہ سکتے ہیں ؟مجھے فوج نے 1996ء میں گرفتار کر کے چھے مہینوں تک مختلف انٹراگیشن سینٹر وں میں قید رکھا جہاں ملٹر ی انٹیلی جنس اور آئی ،بی کے لو گ بڑے عجیب و غریب بلکہ کہنا چاہئے بے سر وپا سوالات پوچھتے تھے جن میں ایک یہ بھی ہوتا تھا کہ لکھے پڑھے اور کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوان بندوق کا راستہ کیوں اختیار کرتے ہیں ؟دراصل ان لوگوں کے ذہن میں ممبئی فلم انڈسٹری کی بنائی ہوئی فلموں کا اثر گہرا ہوتا ہے جس میں عسکریت پسندوں کو

جاہل ،گنوار،ان پڑھ ،ہوس پرست ،شرابی ،زن پرست ،بے رحم ،زانی اوردولت کے بھوکوں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے ۔گہرا تجزیہ کرنے کے بجائے یہ لوگ خود اپنے آپکو بیوقوف اور اپنی قوم کو گمراہ کرنے میں زیادہ دلیر ہوتے ہیں حالانکہ اب تو القائدہ کے وجود میں آنے اور اس میں ارب پتی شہزادوں اور مغربی دنیا کے لکھے پڑھے نوجوانوں کی شمولیت کے بعداس غبارے سے ہی ہوا نکل گئی ہے،اور اس طرح دنیا کو گمراہ کرنے والی ’’بالی وڈ اور ہالی وڈ‘‘کے پاس کہانیاں ہی ختم ہو چکی ہیں ۔ وہ لوگ اس ناحیے سے کوئی فلم بنانے کے لیے تیارہی نہیں ہیں اس لیے کہ میڈیا رپورٹس اور خود مغربی صحافیوں کی بیان کردہ کہانیوں کے نتیجے میں ان کی عمر بھر کی کہانیاں ڈراموں اور افسانوں سے زیادہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوچکی ہیں ۔
(جاری ہیں)


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر