... loading ...
اقبال ایک خوش باش سیدھا سادہ نوجوان تھا اس کا خیال تھا اسے کچھ نہیں ہوگا پولیس نے اسے محض کسی غلط فہمی کی بنیاد پر گرفتار کرلیا ہے، جلد حقیقت کی تصدیق ہوتے ہی اسے رہائی مل جائے گی، کئی روز کال کوٹھری میں قید رہنے کے بعد ایک روز اس کی امید برآئی، اسے بتایا گیا کہ اس کی درخواست ضمانت منظور ہوگئی ہے مگر فی الحال صرف ایک رات کے لیے ،اس کی شادی جو تھی ،تاریخ پہلے سے طے تھی کہ بیچارہ گرفتار کرلیا گیا ۔ اقبال پولیس اہلکاروں کے ہمراہ خوشی خوشی گھر چلا آیا، ناچ گانا ہوا، خوشی کے شادیانے بجائے گئے اور نکاح پڑھادیا گیا، نئی نویلی دلہن رخصت ہوکر چلی آئی، اقبال حجلہ عروسی میں گیا تو بیوی کو فکر مند پایا، اس نے تسلی دی کہ بھاگوان فکر نہ کر میں جلد آزاد ہوجائوں گا، یہ پولیس والے بیچارے بھلے لوگ ہیں ورنہ کسی کو شادی کے لیے بھی ضمانت ملتی ہے کیا؟ بیوی مطمئن ہوگئی شب زفاف گزری تو علی الصبح ہی پولیس والوں نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اسے وین میں بٹھاکر لے چلے، وین قریب واقع پل پر جاکر رکی، اقبال اُترا تو اسے شائبہ تک نہ تھا کہ چند لمحوں بعد اس کی نوبیاہتا بیوی اس کی موت کا ماتم کررہی ہوگی، بدعنوان پولیس افسر نے اسے رہائی کی نوید سنائی اور جانے کا اشارہ کیا، خوشی سے بوکھلایا ہوا اقبال مڑا اور ہتھکڑیاں کھلوائے بغیر ہی جھومتا ہوا چل پڑا، پولیس افسر نے سرکاری پستول سیدھا کیا اور دو گولیاں اس کی پشت میں داغ دیں، اقبال جہان فانی سے کوچ کرگیا، بس ایک سوال تھا جو مرتے مرتے اس کے ذہن میں آیا ہوگا ’’کیوں… آخر کیوں‘‘؟
اقبال مجرم نہ تھا، اس کا جرم بس اتنا تھا کہ اس کا نام ایک دہشت گرد سے ملتا جلتا تھا۔ دہشت گرد اقبال قادری نے دورانِ حراست اس بدعنوان پولیس افسر کو پیشکش کی تھی کہ اگر اسے رہا کردیا جائے تو وہ پچاس لاکھ روپے دے سکتا ہے سو اسے آزادی کا پروانہ مل گیا مگر سرکاری فائل کا پیٹ بھی تو بھرنا تھا لہذا اقبال قادری کی جگہ اقبال قاسم نے لے لی ۔ ایف آئی آر میں لکھا گیا ’’دہشت گرد اقبال پولیس کی حراست سے فرار ہورہا تھا پولیس نے حفظ ماتقدم میں گولی چلائی اور اقبال زخمی ہوا، ہسپتال لے جاتے ہوئے اُس نے دم توڑ دیا۔‘‘ (ختم شد)
قارئین یہ کوئی حقیقی واقعہ نہیں ایک فلمی کہانی ہے، بھارتی فلم ’’جولی ایل ایل بی ٹو‘‘ کی کہانی۔ جب سے نقیب اﷲ کے قتل کا واقعہ سامنے آیا ہے اس فلم کے مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔
پولیس کے مطابق 13 جنوری کو پولیس کو اطلاع ملی کہ ایک مکان میں کچھ دہشت گرد روپوش ہیں ،پولیس پارٹی مکان پر پہنچی تو دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کردی ،جوابی فائرنگ کے نتیجے میں شرپسند ہلاک ہوگئے، پولیس مکان کے اندر گھسی تو معلوم ہوا کہ یہ کل چار افراد تھے، ایس ایس پی ملیر رائو انوار نے صحافیوں کو تفصیلات سے آگاہ کیا انہوں نے بتایا کہ شاہ لطیف ٹائون کے خاصخیلی گوٹھ میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر پولیس نے علاقے کے قرب وجوار میں تمام داخلی وخارجی راستوں کو سیل کردیا تھا ،پولیس نے پیش قدمی کی تو دہشت گردوں نے دستی بم سے حملہ کیا اور اندھا دھند فائرنگ کی، فائرنگ کے تبادلے کا سلسلہ ایک گھنٹے جاری رہا، دہشت گردوں کی ہلاکت کے بعد ان کی لاشیں تحویل میں لے لی گئی ہیں ،اب انہیں قانونی کارروائی کے لیے ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے، رائو انوار نے بتایا کہ ایک دہشت گرد کی شناخت مولوی اسحاق کے نام سے ہوئی ہے جو کالعدم لشکر جھنگوی کا اہم کمانڈر تھا ،دوسرا نذر نامی دہشت گرد تھا، ایک اور دہشت گرد کا نام نقیب اﷲ محسود معلوم ہوا، یہ چاروں افراد کراچی ائیرپورٹ پر دہشت گردی، پی این ایس مہران پر حملے کے علاوہ ایم اے جناح روڈ پر امام بارگاہ پر حملے میں بھی ملوث تھے، انہوں نے رینجرز اور فوج کے بھی کئی جوانوں کو گھات لگاکر قتل کیا، ایک دہشت گرد نقیب اﷲ محسود اپنے ہی بہنوئی اعجاز محسود کو بھی مخبری کے شبہے میں قتل کرچکا تھا ،وہ کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو منظم کررہا تھا۔
میں نے جب یہ گفتگو سنی تھی تو سوچا کہ شاید یہ لوگ مرتے مرتے اپنے جرائم کی مکمل تفصیلات لکھ کر مرتے ہوں گے یا پھر رائو انوار نے کسی ’’انتریامی سنیاسی‘‘ کی خدمات حاصل ضرور کر رکھی ہوں گی ورنہ مقابلے کے ایک گھنٹے کے اندر ہی نامعلوم مقتولین کے اتنے کوائف انہیں کیسے معلوم ہوجاتے ہیں۔ واﷲ اعلم۔
لاشیں سرد خانے منتقل کردی گئیں ایک مقتول نقیب اﷲ کے اہل خانہ کراچی میں ہی مقیم تھے، انہیں کسی نے بتایا کہ معلوم کرو شاید ان مقتولین میں تمہارا نقیب اﷲ بھی ہے، اہل خانہ پوچھتے پوچھتے غیر یقینی کیفیت میں سرد خانے پہنچے اور وہاں پڑی ’’دہشت گرد‘‘ کی لاش کو اپنے لختِ جگر کے طورپر شناخت کرلیا۔ گھر میں کہرام مچ گیا مقتول کے تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے وہ ایک زندہ دل، فیشن کا دل دادہ اور خوش باش نوجوان تھا۔ اس کے حلقۂ احباب میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ کسی دہشت گردی میں ملوث ہوسکتا ہے۔ وہ 2008ء میں کراچی آیا تھا، کافی عرصے محنت مزدوری کرتا رہا، حال ہی میں اس نے اپنے دبئی میں مقیم بھائی سے کچھ رقم بطور قرض منگوائی تھی، اس کا ارادہ تھا کہ وہ جدید فیشن ایبل کرتوں کی دُکان کھولے گا ،وہ سوشل میڈیا پر ماڈلنگ کرتا تھا اور اس کو 20 ہزار سے زیادہ لوگ فالو کرتے تھے، اس کا خیال تھا کہ یہ وسیع حلقہ احباب اس کی دُکانداری چلانے میں معاون ثابت ہوگا مگر ایسا نہ ہوسکا۔
نقیب اﷲ کے دوستوں کو اس کا اس طرح قتل ہوجانا ہضم نہ ہوا ،سوشل میڈیا پر اس مقابلے کا چرچا ہوا تو تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی نے اسمبلی میں اس معاملے پر آواز اٹھائی، اگلے روز انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم سماجی رہنما جبران ناصر اور فکس اٹ کے رہنما عالمگیر نے نقیب اﷲ کے قتل کے خلاف کراچی پریس کلب پر مظاہرہ کیا ۔پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی نے بھی اس مظاہرے سے خطاب کیا، بات بڑھ گئی تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے معاملے کا نوٹس لے لیا اور صوبائی حکومت کو اس پولیس مقابلے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کروانے کی ہدایت کی، آئی جی سندھ نے ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی بنادی جو معاملے کی چھان بین کررہی ہے۔
اس کمیٹی کی ابتدائی تحقیق کے مطابق یہ ایک جعلی پولیس مقابلہ تھا نہ کوئی دہشت گرد اُس مکان میں جمع تھے، نہ انہوں نے وہاں سے پولیس پر فائرنگ کی اور نہ ہی ایک گھنٹے فائرنگ کا تبادلہ ہوا ،اہلِ خانہ کے مطابق نقیب اﷲ کو پولیس نے 3 جنوری کو اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر دوستوں کے ہمراہ ایک ہوٹل پر بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا، اہلخانہ اس کی رہائی کے لیے بھاگے دوڑے مگر بے سود، اہلخانہ نے تصدیق کی کہ اس کے پاس 5 لاکھ روپے تھے جو اس کے بھائی نے اسے کاروبار کے لیے بطور قرض دیے تھے، اس رقم کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ رائو انوار پہلے پہل تو بضد رہے کہ مقابلہ اصلی اور نقیب اﷲ دہشت گرد تھا تاہم بعدازاں انہوں نے یہ کہہ کر اپنی گردن بچانے کی کوشش کی کہ مقابلہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹائون کی پولیس پارٹی سے ہوا تھا ،وہ بعد میں جائے وقوع پر پہنچے تھے حالانکہ ان کے بیان کی ویڈیو ریکارڈ پر ہے جس میں انہوں نے جاری مقابلے کے دوران وہاں پہنچنے کا خود دعویٰ کیا تھا۔ تازہ اطلاعات کے مطابق رائو انوار تحقیقاتی کمیٹی کا بائیکاٹ کرچکے، ان کی گرفتاری کا فیصلہ کیا جاچکا، ایک اطلاع کے مطابق رائو انوار اب مختلف ذرائع سے نقیب اﷲ کے اہل خانہ سے رابطے کررہے ہیں اور انہوں نے معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے دیت کے طورپر پانچ کروڑ روپے کی پیشکش بھی کردی ہے۔ معلوم نہیں نقیب اﷲ کے قتل کے معاملے کا انجام کیا ہو مگر جنہوں نے بھی اس معاملے پر آواز اٹھائی وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
بلاول زرداری نے اتوار کے روز اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے عجیب بات کی، فرمایا پورے ملک میں پولیس مقابلوں پر پابندی عائد کی جانی چاہیے، اپنی پارٹی کے کسی سیانے رہنما سے مشورہ کرلیتے تو اچھا ہوتا وہ انہیں سمجھاتا کہ پولیس مقابلے باقاعدہ اجازت نامہ لے کر نہیں کیے جاتے، ان کا کوئی لائسنس نہیں ہوتا اگر آپ جعلی مقابلوں کو روکنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہر ایک مقابلے میں مارے جانے والے ہر شخص کی جان کے معاملے میں حساس ہونا ہوگا ،کوئی پولیس مقابلہ بھی نظر انداز کردیے جانے کے قابل نہیں ہوتا، اس معاملے میں حساسیت کے لیے اﷲ کا حکم فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
’’جس نے کسی انسان کو (خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے) قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا۔‘‘
بلاول کو چاہیے کہ وہ پولیس میں ’’قصائیوں کی بھرتیوں اور ترقیوں، تبادلوں پر بھی توجہ کریں، یاد رکھیے جس گھر میں کوئی بڑا چھوٹوں سے باز پرس اور سرزنش نہ کرتا ہو اس گھر کے بچوں کو بگڑنے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ ان کی توجہ کے لیے عرض ہے کہ یہ پہلا پولیس مقابلہ نہیں تھا جس کی صحت پر انگلیاں اٹھیں، پچھلے سال ایسے کئی پولیس مقابلے ہوئے جن میں مقتولین کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں، کوئی رائو انوار سے پوچھے کہ کیا لاش کو ہتھکڑی پہنائی گئی ہے یا ان دہشت گردوں نے خود ہی ہتھکڑیاں پہن کر حملہ کیا تھا؟ سال 2016 میں سید عابد نامی ایک شخص نے رائو انوار کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی کہ اس کے بیٹے عامر کو رائو انوار نے 9 اکتوبر 2015 کو گرفتار کیا اور چند روز بعد اس کی لاش ملی ،دعویٰ کیا گیا کہ وہ پولیس سے مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا ہے۔ مقتول اسٹیل ملز میں ملازمت کرتا تھا، عدالت نے رائو انوار کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا لیکن اب تک اس غریب باپ کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔ اس سے قبل دو نوجوانوں فرید اور ذاکر نے بھی عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ ملیر پولیس نے ان پر گولیاں چلائیں، یہ دونوں نوجوان زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے تھے، خوش قسمتی سے یہ دونوں زندہ بچ گئے تھے۔ قبل ازیں مئی 2015 میں سندھ ہائی کورٹ کے جج نعمت اﷲ پھلپوٹو نے ایک سماجی کارکن رانا فیض الحسن کی درخواست پر رائو انوار کے گزشتہ چھ ماہ کے تمام مقابلوں کی تفصیلات طلب کی تھیں۔ درخواست گزار نے اس وقت اپنی آئینی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ رائو انوار صرف پچھلے 6 ماہ کے دوران 60 افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کرچکے ہیں ،نجانے اس درخواست کا کیا ہوا؟ایک اندازے کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران رائو انوار مبینہ طورپر 80 پولیس مقابلوں میں 250 سے زائد افراد کو قتل کرچکے ہیں۔ ایک خوفناک اطلاع یہ بھی ہے کہ اس وقت بھی تقریباً 200 سے زائد نوجوان ان کی خفیہ غیر قانونی حراست میں ہیں ارباب اقتدار کو چاہیے کہ فوراً اس اطلاع کی تحقیقات کروائیں ۔
شاید بلاول کو علم نہ ہو کہ رائو انوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے نہایت قریب ہیں ۔اس کے علاوہ وہ ایک طاقتور ریاستی ادارے کے بھی ’’بااعتماد‘‘ افسر سمجھے جاتے ہیں۔ آصف علی زرداری اور اس ادارے کا نام وہ خود ببانگ دھل استعمال کرتے ہیں، اسی لیے ان کے افسران بھی ان سے کنی کتراتے ہیں۔ وہ ایک رئیل اسٹیٹ ٹائیکون کے اعتماد یافتہ بھی ہیں جن کے غیر قانونی تعمیراتی منصوبے کے لیے غریب لوگوں کی زمینیں ہتھیانے میں وہ موثر ثابت ہوئے ،ان کی خواہش پر کئی تھانے ضلعی حدود کے برخلاف ان کی عملداری میں دیے گئے، اسی لیے اکثر افراد کا خیال وہی ہے جو رئوف کلاسرا کا ایسے معاملات پر ہوا کرتا ہے ’’ہونا تے کُج وی نئیں‘‘
کہا جاتا ہے کہ فلمیں معاشرے میں پھیلے حقیقی کرداروں کی عکاس ہوتی ہیں ،جولی ایل ایل بی ٹو کے آغاز میں فلم کے ہیرو اکشے کمار کی آواز میں ایک اعلامیہ سنایا جاتا ہے جس میں وہ وضاحت کررہے ہوتے ہیں کہ فلم کی کہانی، کرداروں کے نام ومقام وغیرہ فرضی ہیں، ان کی کسی سے مماثلت محض اتفاقی ہوگی، دل میں عجیب سی خواہش پیدا ہوتی ہے، کاش یہ کہانی حقیقت میں ڈھل جائے، کاش نقیب اﷲ کی بیوہ کو بھی کوئی جگ دیش ور مشرا جیسا وکیل میسر ہوجائے، کاش ہماری عدالتوں میں بھی کوئی جسٹس سندریال ترپاٹھی بیٹھا ہو جو رات بھر مقدمے کی سماعت کرنے سے نہ چوکے ،میں دعا کرتا ہوں، آپ بھی کیجیے۔