... loading ...
اسرائیلی وزیراعظم کا امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے جس وقت پاکستان کے خلاف بیان داغا گیا تو صاف محسوس ہوچکا تھا کہ امریکا کو اب افغانستان میں باقاعدہ شکست کا سامنا ہے طالبان کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد امریکا اور اس کے حواری خاص طور پر بھارت کے حواس مختل ہوچکے ہیں۔اسی تناظر میں پاکستان کے خلاف دباؤ کے لیے یہ اوٹ پٹانگ بیانات دیے گئے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں پائی جانے والی یہ کیفیت نئی نہیں ہے بہت پہلے بھی اس قسم کی خبروں نے بھی سر اٹھایا تھا کہ افغانستان میں جنگی حکمت عملی کے حوالے سے امریکی محکمہ دفاع میں بھی کئی قسم کے اختلافات اُبھرنا شروع ہوچکے تھے جس کی ابتدا اوباما دور میں ہی ہوئی۔
امریکا کے بعد بھارت کے آرمی چیف نے پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کے حوالے سے بیان دیا ہے جس پر پاکستان کی جانب سے بھارت کو خاصا ’’تسلی بخش‘‘ دیا گیا ہے۔ اس سارے معاملے کی ٹائمنگ بھی غور طلب ہے، پہلے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پاکستان کے خلاف بیان دیتا ہے لیکن جس وقت پاکستان کی جانب سے امریکا کو مناسب جواب دیاجاتا ہے تو فورا امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ہوش ٹھکانے آتے ہیں اور انہیں پاکستان کی جانب سے عدم تعاون کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ اس صورتحال میں بھارت میں خاصا ماتم ہوتا ہے اور رد عمل کے طور پر بھارتی آرمی چیف کا بیان آتا ہے وہ بھی اس وقت جب کچھ وقت بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو دہلی کا دورہ کرنا تھا۔لیکن پاکستان نے اس ہرزہ سرائی کا بھی منہ توڑ جواب دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پروٹوکول توڑ کر اسرائیلی وزیر اعظم کا استقبال کیا۔ نتین یاہو کے استقبال کے دوران مودی کی شکل پر جو خوشی کے آثار دکھتے تھے، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مستقبل قریب میں بھارت کو اپنی انسانیت کش پالیسی کے لیے اسرائیل سے کیا توقعات وابستہ ہیں، ایک طرف مظلوم فلسطینی مسلمانوں کا قاتل تو دوسری جانب بھارتی اور کشمیری مسلمان کا قاتل گلے مل رہے تھے۔ اس سارے کھیل میں افغانستان ایک ایسا اکھاڑا بنتا نظر آرہا ہے کہ جو افغان سرزمین پر اپنا اثررسوخ برقرار رکھے گا وہ خطے کی گیم کا بڑا کھلاڑی بن کر اُبھرے گا۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو صاف محسوس ہو گا کہ امریکا اور اس کا صہیونی اور صلیبی اتحاد افغانستان کے معاملے میں کس انجام سے دوچار ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوچکا تھا جب دنیا سرد جنگ کے بعد اب امریکا اور روس کے درمیان’’ عسکری اڈوں‘‘ کی جنگ کی لپیٹ میں آتی دکھائی دے رہی تھی۔ ایک بات کو اچھی طرح ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ امریکا اور روس کے درمیان ایک نہیں بلکہ کئی قسم کی معرکہ آرائیاں عروج پر ہیں۔ اس میں ایک جنگ ’’منشیات‘‘ کی ہے ۔ یہ وہی جنگ ہے جو تاریخ میں برطانیا نے چین کے خلاف ’’جنگ افیون‘‘ کے نام سے لڑی تھی امریکا نے یہ محاذ روس کے خلاف کھولا تھا۔ لیکن اس مرتبہ ہم یہاں صرف ’’عسکری اڈوں‘‘ سے متعلق اس جنگ کی بات کریں گے جس نے دہائیوں سے جاری ’’گریٹ گیم‘‘ کو نیا رخ دیا ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں اس گریٹ گیم کا ڈھرن تختہ اس وقت ہوا جب پاکستان اور چین نے ’’سی پیک‘‘ کے نام سے پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہ داری کے قیام اور گوادر کی بندرگاہ کو فعال کرنے کا کام شروع کیا ۔
کی جیو اسٹریٹجک پوزیشن کو سمجھنے کے لیے ہمیں نئی صدی کے شروع سے حالات کا جائزہ لینا ہوگا۔ نئی صدی کی ابتدا سے ہی روس نے ولادیمیر پوٹن کی قیادت میں دوسری بار علاقے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی سعی شروع کردی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم وسطی اور مغربی ایشیا میں ’’مختلف رنگوں‘‘ کے انقلابات دیکھ رہے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ نوے کی دہائی کے شروع میں یعنی سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جس وقت امریکا نے وسطی ایشیا میں اپنے قدم جمانے شروع کیے تو اسے اس بات کا خیال نہیں تھا کہ روس اتنی جلدی اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے گا۔بڑے بش کے دور میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جیمس بیکر نے انتہائی کوششوں کے بعد وسطی ایشیا میں امریکا کے صہیونی مفادات کا جال بچھایا تھا ۔ چھ ماہ تک لگاتار جیمس بیکر نے واشنگٹن اور وسطی ایشیا کی مختلف ریاستوں کا رستاناپا تھا پھر کہیں جاکر امریکا اور مغربی یورپ کے معاشی سیسہ گروں نے یہاں پر اپنے صہیونی اقتصادی پنجے گاڑے تھے۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد امریکا نے افغانستان کے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی اور اسے ایک اقتصادی اسٹریٹیجک راستے کے طور پر اختیار کرنے کا پروگرام وضع کیا۔نوے کی دہائی کے وسط میں ہی افغانستان میں طالبان انتظامیہ نے افغانستان کے طول وعرض میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنا شروع کیا تھا ۔ امریکی سمجھتے تھے کہ وسطی ایشیائی ممالک کی انتظامیہ کی طرح طالبان بھی مالی لالچ میں آکر امریکا اور اس کے مغربی مفادات کے لیے بھرپور تعاون کریں گے لیکن آگے چل کر معاملات اس کے برعکس ثابت ہوئے ۔ دوسری جانب سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بالٹک اور قفقاز کے علاقے میں امریکا اور روس کی چپقلش کی ابتدا ہوچکی تھی۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب تیل کی عالمی قیمتوں میں پہلی مرتبہ بڑا اضافہ دیکھنے میں آیااس صورتحال نے دونوں ملکوں کے درمیان خطے میں اثرونفوذ کے لیے نئی رسہ کشی کا آغاز کردیاجس کی وجہ سے وسطی ایشیا کی آزاد شدہ ریاستوں میں پے درپے انقلابات آنا شروع ہو گئے۔ اس صورتحال نے وسطی ایشیا میں سابق امریکی وزیر خارجہ جیمس بیکر کی بچھائی ہوئی صہیونی بساط کو روس کے حق میں اُلٹنا شروع کردیا جس نے علاقے میں امریکی عسکری اڈوں کو زیادہ متاثر کیا۔ اس سلسلے میں قرغیزستان اور یوکرائن میں امریکا
اور روس کے درمیان سب سے پہلے رسہ کشی دیکھنے میں آئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ امریکا بلقان میں روس کے اتحادی یعنی آرتھوڈکس عیسائیت کے مرکز سربیاکے معاملات میں بھی مداخلت کررہا تھا تو دوسری جانب امریکا مشرقی یورپ میں وارسا پیکٹ کے سابق ارکان ممالک بھی مثلا پولینڈ، ہنگری، رومانیا، بلغاریا، اسٹوینا اور لتھوینیا کو یورپی یونین میں ضم کرنے کی کوششیں کررہا تھا۔
نوے کی دہائی میں امریکی کوششوں سے بہت سے ایسے عسکری اڈے امریکا اور نیٹو کے استعمال میں آچکے تھے جو ماضی میں سویت یونین کے عسکری مستقر کہلاتے تھے۔ امریکا جن ممالک کے حصار کے ذریعے روسی ریچھ کا گلا گھونٹنا چاہتا تھا ان میں پولینڈ، مشرقی جرمنی، یوکرائن، جارجیا، ترکی، ازبکستان، قرغیزستان اور افغانستان شامل ہیں ۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ نصف صدی کے پہلے نصف اول کے دوران امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے روس کے خلاف کامیاب عسکری اور اقتصادی حکمت عملی اختیار کی تھی لیکن اس کامیابی نے جلد ہی امریکا اور مغربی یورپ کے صہیونی پالیسی سازوں سے ایک ایسی غلطی کروا دی جس نے آگے چل کر نہ صرف روس کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا بلکہ امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کا اقتصادی اور عسکری جنازہ نکل گیا۔ یہ غلطی افغانستان اور اس کے بعد عراق پر امریکی حملہ تھا۔جس کاایک بڑا مقصد افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانابھی تھا تاکہ مستقبل میں مشرق وسطیٰ میں ہونے والی ’’بڑی تبدیلی‘‘ کے وقت یہاں سے کسی قسم کی مزاحمت نہ ہوسکے اور بعد میں عراق جیسی فوجی قوت کو ختم کرکے پہلے تمام مشرق وسطیٰ کو مسلک کی بنیاد پر لڑایا جائے تاکہ اس کے بعد اسرائیل کی عالمی دجالی حاکمیت کا راستہ ہموار ہوسکے۔
افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ یہاں سے بھی روس کے گرد گھیرا تنگ کرکے قدرتی وسائل پر تصرف حاصل کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پائپ لائنوں کو اپنے قبضے میں کیا جائے جو سابق سوویت یونین کے زمانے میں قدرتی گیس کو سابق سوویت یونین کی ریاستوں سے مغرب اور جنوب تک پہنچاتی تھیں ۔افغانستان میں معاملات کو کنٹرول کیے بغیر ہی امریکا نے عراق پر جارحیت کرڈالی۔ امریکیوں کا خیال تھاکہ ایران ایک طرف عراق میں صدام حکومت اور دوسری جانب افغانستان میں طالبان انتظامیہ کی قوت سے راضی نہیں۔ اس لیے اس صورتحال سے بھی فائدہ اٹھایا جائے یوں عراق میں قدم جمانے کے بعد اور یہاں ایک امریکی کٹھ پتلی انتظامیہ بٹھانے کے بعد مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی عسکری اڈہ بھی عراق میں ہی تشکیل دیا جائے۔ لیکن عراق میں امریکا اور برطانیا کی توقع کے خلاف عراقی مجاہدین نے زبردست مزاحمت شروع کردی جس نے عراق کو امریکا کے لیے ایک دلدل میں تبدیل کردیا۔ اس دلدل سے نکلنے کے لیے اسے بادل نخواستہ عراق میں انتخابات کرانے پڑے جس کے نتیجے میں وہاں ایسی حکومت تشکیل پائی جو امریکا سے زیادہ ایران کی جانب جھکاؤ رکھتی تھی۔۔۔!! یوں امریکا کے لیے عراق ایک ایسی اندھیری سرنگ کی مانند ہوگیا جس کے دوسرے سرے پر اسے کچھ نظر نہیں آرہاتھا ۔عراق کی ہی جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں ۔ یعنی عراقی جنگ کی ابتدا پر تیل کی قیمت تقریبا 45ڈالر بیرل تھی لیکن چند سال بعد ہی اس کی قیمت سو ڈالر سے کہیں زیادہ فی بیرل تک جا پہنچی ۔اس دوران تیل کے اس بحران کی وجہ سے دنیا کی اقتصادی منڈی میں گیس کو پہلی مرتبہ تیل کے برابر اہمیت دی جانے لگی لیکن گیس کے تمام بڑے منابع وسطی ایشیا اور قفقاز کے علاقے میں واقع تھے جہاں پر روس ایک مرتبہ پھر تیزی کے ساتھ نفوذ پکڑ رہا تھاجبکہ دوسری جانب سے امریکا کی مہربانیوں سے ان علاقوں میں کہیں ’’اورنج انقلاب‘‘، کہیں ’’ٹیولپ انقلاب‘‘ اور کہیں ’’وائٹ انقلاب‘‘ آرہے تھے۔ (جاری ہے)