... loading ...
بہت شور سُنتے تھے پہلو میں دل کا۔ حقیقت میں طاہر القادری صاحب اکیلے اگر یہ جلسہ کرتے تو زیادہ کامیاب ہوتے ۔لیکن پی پی پی اور پاک سر زمین پارٹی اور دیگر تمام جماعتوں کی نمائندگی سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی کے ہونے کے باجود بھی شرکاء کی تعداد بہت کم تھی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قادری صاحب نے وہ متاثر کُن کارکردگی نہیں دکھائی جو کہ سُننے میں آرہی تھی۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں استعفیٰ دیتا ہوں، عمران خان آپ بھی اعلان کریں۔ شیخ رشید نے کہا کہ لٹیروں کے قانون کے شکنجے میں آنے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ حکومت کیخلاف آج کا جلسہ احتجاج کا آغاز ہے۔ شیخ رشید کی تقریر کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ میں شیخ رشید کی باتوں سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، استعفوں کی تجویز پر مشاورت کروں گا۔ ہو سکتا ہے ہم بھی اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر شیخ رشید سے آ ملیں۔
انہوں نے کہا کہ میں تو اس وقت مستعفی ہونے پر قائم تھا جب انہوں نے ہمارے استعفے قبول نہ کیے۔ ایسی پارلیمنٹ میں جانے کا کیا فائدہ! انہوں نے جلسے کے بعد طاہرالقادری سے ملاقات کرنے کا بھی کہا۔ طاہرالقادری نے شیخ رشید کو جلسے کا مین آف دی میچ قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے آج لاہور کا میلہ لوٹ لیا ہے۔شیخ رشید احمدنے کہا کہ نیب نے شہبازشریف کو بائیس جنوری کو طلب کیا ہے، پنجاب میں ایک زینب کا کیس نہیں، سینکڑوں ایسے کیس ہوتے ہیں لیکن لوگ عزت کی خاطر نہیں بولتے، میں نے ساری قوم کو بتایا کہ امریکا کے کہنے پر نواز شریف نے ختم نبوتﷺ کے قانون کو چھیڑ رہا ہے، مولوی ملک میں لیٹا ہوا تھا میں گنہگار کھڑا ہوا اور اس سازش کو روکا، شیخ رشید نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں اسمبلی، وزیر اعظم، وزیراعلیٰ پنجاب پر جمہوریت پر لعنت بھیجتا ہوں میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ تقاریر سے یہ بے شرم لوگ نہیں جائیں گے، میں عمران خان سے کہتا ہوں کہ نکلو باہر آؤ رائے ونڈ چلیں، یہ کہہ کر شیخ رشید نے اپنا استعفیٰ ہوا میں لہرا دیا، عمران کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کا آئیڈیا اچھا ہے پارٹی سے مشاورت کروں گا۔
مال روڈ پر حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کا سیاسی شو بغیر کسی ٹھوس نتیجہ ختم ہوگیا۔ اپوزیشن لیڈروں نے شریف برادران کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا لیکن حکومت پر کوئی دباؤ نظر نہیں آتا، احتجاجی ریلی دو سیشن میں تقسیم ہوگئی۔ ایک سیشن کی صدارت آصف علی زرداری جبکہ دوسرے کی عمران خان نے کی زرداری اور عمران ایک وقت میں ایک پوائنٹ پر اکھٹے نہ بیٹھ سکے۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی، سردار آصف، جہانگیر ترین، علیم خاں، اعجاز چوہدری، فردوس عاشق اعوان، میاں محمود اور چوہدری سرور عمران خان کے ساتھ مرکزی ا سٹیج پر تھے۔ شیخ رشید اور لیاقت بلوچ نے اپنی اپنی پارٹیوں نے نمائندگی کی۔ مذکورہ سیاسی شو مایوس کن تھا۔عوامی تحریک کی میزبانی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر متحدہ اپوزیشن کے فیصل چوک میں احتجاجی جلسہ میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے ایک ہی ا سٹیج سے حکومت کو ہدف تنقید بناکر مستقبل کی صف بندی کا واضح اشارہ دیدیا ہے، ڈاکٹر طاہر القادری نے عمران خان اور آصف زرداری کو ایک ہی دن ایک ہی جلسہ کا حصہ بنا کر مسائل سے دوچار حکمران جماعت کو مزید اضطراب کا شکار کر دیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے سربراہ بے شک ایک وقت میں توا سٹیج پر اکٹھے نہ ہوئے مگر پہلے سیشن میں سابق صدر اور دوسرے سیشن میں عمران خان نے اپوزیشن کے اس کامیاب اکٹھ پر ڈاکٹر طاہر القادری کو خراج تحسین پیش کیا، جو اس بات کی طرف اشارہ دے رہا ہے کہ مستقبل میں مسلم لیگ ن کی قیادت کے خلاف دونوں جماعتیں شاید ایک ہی ا سٹیج پر اور ایک وقت میں اکٹھی بھی ہو سکتی ہیں۔
جلسہ کے دوران دونوں جماعتوں کے قائدین ا سٹیج پر ایک دوسرے سے شیر و شکر رہے اور مرکزی رہنما ایک دوسرے سے ناصرف انتہائی گرم جوشی سے ملے بلکہ اپنی نشستوں سے اٹھ کر ایک دوسرے کے قریب جاکر اور ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیال بھی کرتے رہے۔ پنڈال میں موجود دونوں جماعتوں کے کارکنوں میں بھی ماضی قریب کی مخاصمت اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوئی کوشش نظر نہیں آئی اور تحریک انصاف کے چیئرمین اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کے حکومت مخالف اظہار پر دونوں جانب سے کارکنوں نے انہیں تحسین بھی دی۔ عوامی تحریک کے رہنما اس ساری صورتحال پر بے حد خوش اور مطمئن نظر آئے ان سے پوچھا گیا کہ تو ان کا کہنا تھا کہ دو ناراض بھائیوں کو منانا نیکی کا کام ہے۔ لیکن قادری صاحب کی طرف سے پی پی پی اور پی ٹی آئی کو منانے والا فارمولا پی ٹی آئی کے کارکن ہضم نہیں کر پائیں گے۔ عمران خان نے اُس جلسے میں شرکت کی جس میں زرداری تھا۔اِس طرح پی ٹی آئی کی جانب سے پی پی پی کو از سر نو زندہ کرنے کی ایک ان ڈائرکٹ کو شش کی گئی ہے۔ جس سے عوام کا موڈ پی ٹی آئی کے حوالے سے بدل بھی سکتا ہے۔باقی نواز شریف کی جانب سے مجیب الرحمان کی حمایت کیے جانے پر اُن کو بہت زیادہ سیاسی نقصان ہورہاہے لوگ حیران ہیں کہ نواز شریف کو کیا ہوگیا ہے۔
***