... loading ...
قیام پاکستان کی معطر اور مقدس ساعتوں کواگرچہ ہمارے علاقے میں بعض لوگ ’’ لوٹیوں والا سال ‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں لیکن پاکستان کے قیام کے ساتھ نعمتوں کی صورت ہمارے اس علاقے کو ایسی نابغہ روزگار شخصیات کا وجود بھی میسر آیا جن کی خوشبو نے ایک عالم کو مہکایا، جن کے سوز وگداز نے ابدیت اور دوامی پائی ۔ سید محمد عالم مرحوم نے اس سرزمین پر اپنی محبت کے لافانی نقوش چھوڑے ہیں ۔وہ ہندوستان کے جدید تعلیم یافتہ اردو دان طبقہ کے نمائندہ تھے ۔بڑے لوگوں کا طرز زندگی بھی موثر اور دلنشین ہوتا ہے ۔سید محمد عالم سے اُن کے ندیم تک سب میانوالی کے محسنین میں شامل ہیں ۔
ظفر خان نیازی جنہیں آج مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ،اُن سے میری پہلی ملاقات عالمزہائی ا سکول میں اُن کے اعزاز میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں ہوئی تھی جس کے میزبان سید ندیم عالم تھے ۔
میانوالی سے محبت سید ندیم عالم اور ان کے خاندان کی سرشت کا حصہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس ریٹائرڈ نیول کمانڈر نے اپنے گاڑی کی بیک ا سکرین پر جلی حروف میں لکھوایا ہوا ہے’’Love Mianwali ‘‘بلکہ ان سے ملنے والا ہر شخص اِس کی گواہی دیتا ہے ۔یہ محبت بھی ظفر خان نیازی سے اِن کے گہرے تعلق کی ایک وجہ ہے۔کیونکہ ظفر خان نیازی کا کہنا تھا کہ
’’ میانوالی کا تہذیبی رکھ رکھاؤ اپنی پسماندگی کے باجود میرے لیے آئیڈیل ہے اپنی تخلیقات میں جب اعتماد کی بھر پور فضا پیدا کرنی ہو یا پھر ایک بہتر معاشرے کا تصور دینا ہو۔اُس وقت میری چشم تصور میں میانوالی ہوتی ہے ‘‘ ۔
ظفر خان نیازی اپنی پیشہ ورانہ خدمات کے ساتھ ساتھ ایک معتبر شاعر اور مقبول نثر نگار کے طور پر ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔وہ پاکستان بننے سے ایک دن کم ایک سال پہلے 15 ۔ اگست1946 ء کو پیدا ہوئے ۔ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کرنے کے بعد کوئٹہ چلے گئے ۔ 1984 ء میں وہاں سے واپسی کے بعد راولپنڈی اسلام آباد ، ڈیرہ اسماعیل خان اور آزاد کشمیر میں خدمات سر انجام دینے کے بعد 2006 ء میں ریڈیو پاکستان سے گریڈ20 میں ریٹائر ہوئے اس کے بعد انہوں ماہنامہ میگزین ’’ بانگ ‘‘ میں بھی خدمات سر انجام دیں ۔
ظفر خان نیازی کی علم اور ادب سے وابستگی کی کئی جہتیں تھیں ۔ وہ شاعر ،نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نگار بھی تھے ان کے کئی کھیل پاکستان ٹیلی ویژ ن سے نشر ہوئے ۔ تیرہ تیرہ اقساط پر مشتمل دو پلے ’’ جندڑی نال جہان ‘‘ اور ’’ مستقبل ‘‘نے خاطر خواہ شہرت پائی ۔ پی ٹی وی کوئٹہ سے ان کی کئی منی سیریل آن ایئر ہوئیں ۔درجنوںیاد گار افسانے ان کے کریڈٹ پر ہیں ۔ گذشتہ کئی سال سے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ متحرک تھے ۔ ریڈیو پاکستان سے ایک طویل وابستگی کی وجہ سے اہم شخصیات کے انٹرویو کیے لیکن جو سرشاری انہیں غازی علم الدین شہید کی فیملی سے انٹرویو اور ملاقاتیں کرکے ہوئی تھی اُ سے وہ اپنی خوش بختی قرار دیتے تھے ۔ غازی علم الدین شہید کے حوالے سے اُن کی تحریرں میں عقیدت کا رنگ نمایاں تھا اور یہ عاشقان پاک طینت کے چاہنے والوں میں بے حد پسند کی گئیں ۔
’’ خواب کنارے ‘‘ ۔ ’’ آبشار ‘‘ ۔ ’’ برف پوش چمنی ‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں ۔ ’’ پرائی نظمیں ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں عالمی ادب کی معروف نظموں کا ترجمہ کیا گیا ہے ۔ چوکور پہئے ان کی نثری کتاب ہے جو ’’ اختصاریوں ‘‘’’ افروازم (Aphorism ) پر مشتمل ہے ۔
ان کی شاعری ایک ایسا منظر نامہ ہے جس کی جمالیاتی اور لفظی عکس بندی فطرت سے ان کی وابستگی کا اظہاریہ نظر آتا ہے ۔ ڈاکٹر تبسم توصیف کا کہنا ہے کہ
’’حُسنِ انسانی کا نقطہ عروج نسوانی حُسن ہے چونکہ ظفر کو حُسن کی ہر صورت سے پیار ہے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ حُسنِ نسوانی اس کو اپنی طرف مائل نہ کرے مگر یہ لے اِس کے ہاں مقابلتاً بہت ہی مدہم ہے ‘‘
اُس کے روح پرور اشعار میں الم خیز راحت اُس کے رگ و پے میں قطرہ قطرہ اُترے سوزِ بے پایاں کی غماز ی کرتی ہے۔ ظفر خان نیازی ایک درویش صفت انسان تھے ۔ یہی وصف اُس کے شاعرانہ اظہاریے پر اکثر غالب رہتا ہے جو اُس کے اشعار میں معجز بیانی کی کیفیت کونمایاں کرتا ہے ۔
میں لا علمی میں حرف آ گہی کہتا رہا ہوں
دِ یا بن کر جلا ہوں روشنی کہتا رہا ہوں
مرے ساتھی ہیں بچے، تتلیاں، جُگنو پرندے
میں اپنی زندگی کو زندگی کہتا رہا ہوں
اسی طرح ان کی آخری غزل کا شعر ملاحظہ ہو
میں دیکھ آیا ہوں رستے کے سب نشیب و فراز
میں تھک کے اب کہیں ہموار ہونا چاہتا ہوں
ظفر خان نیازی میانوالی کے ادب کا ایک ایساد بستان ہے جس نے اپنی وجدانی کیفیات و تحربات اور تخلیقی شعور کے ساتھ کورے کاغذ پر ایسے حروف لکھے ہیں جن کی سر گوشیاں حرف شناس قافلوں کے قدم روک لیتی ہیں ۔ یقیناً ایسا قلمکار ہی
اپنی تخلیقات کی بدولت زندہ رہتا ہے ۔ واصف علی واصف نے اپنے شعری مجموعے کا نام ’’ شب چراغ ‘‘ تجویز کیا تواس وقت میرے علم میں اضافہ ہواتھا کہ ’’ شب چراغ ‘‘ ایک قدرتی بوٹی کانام ہے۔یہ بوٹی رات کے اندھیرے میں روشن ہوتی ہے ، اس کی یہ روشنی اپنے اطرف کو کچھ اس انداز سے روشن کرتی ہے کہ خوشگواری کا تاثر اپنا فسوں بکھیرنے لگتا ہے ۔ بلا شُبہ ظفر خان نیازی اپنے ارد گرد کے ماحول اور دنیا میں ایک ’’ شب چراغ ‘‘ کی مانند رہے ۔
اپنے اپنے مزار میں واصف
اپنی اپنی صفات کی خوشبو
ظفر خان نیازی نے ادب کے لیے بہت نمایاں خدمات سر انجام دیں ۔ اُن کی وفات پر علمی و ادبی حلقوں کی خاموشی حساس دلوں کے لیے دُکھ اور کرب کا باعث ہے ۔ میانوالی میں تو ان کے عزیز رشتہ دار اور بہت قریبی دوست موجود ہیں مگر سید ندیم عالم دوستی کا حق ادا کرنے میں سبقت لے گئے ۔ جب وہ ناصر زیدی کا یہ شعر شرکائے تقریب کی نذر کر رہے تھے تو سُننے والے بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو گئے
وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھی بہت
وہی عزیز اُسی سے محبتیں تھی بہت دکھی دل اور ٹھنڈی سانسوں کے ساتھ اُن کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعاؤں کے ساتھ اُنہی کےِ ان دو شعروں پر اپنے کالم کا اختتام کرتا ہوں کہ ،۔
مٹی کی ڈھیری کو آنسو کرتے ہیں گلزار
آگ اسی پانی سے لیکن راکھ کا انبار
مٹی مل کر مٹی میں ہو جائے پُر اسرار
کون وہاں کی خبریں لائے مٹی پردہ دار
***