وجود

... loading ...

وجود

ن لیگ کی اعلیٰ قیادت چودھری نثار سے جان چھڑوانے کے لیے تیار

جمعرات 18 جنوری 2018 ن لیگ کی اعلیٰ قیادت چودھری نثار سے جان چھڑوانے کے لیے تیار

ن لیگ کے دوسابق وزراپرویز رشیداور چودھری نثارمیں الفاظ کی جنگ اپنی انتہاء کوپہنچ چکی ہے ۔سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے سابق وزیر داخلہ چودھری کو منافق قراردیدیااورانھیں پارٹی سے نکالنے کابھی مطالبہ کرڈالاتو دوسری جانب چودھری نثار جوابی وار کرتے ہوئے ڈان لیکس کی رپورٹ شائع کرنے کا مطالبہ ہی کردیا۔ابھی بات یہاں تک ہی پہنچی تھی کہ اگلے ہی دن پرویزرشیدکاایک اوربیان سامنے آگیاجس میں انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہ چودھری نثار کی پارٹی کے بغیرکوئی سیاسی حیثیت نہیں انھوں نے شیر نشان کے بغیر ایک الیکشن لڑا تھا اور بری طرح ہارے تھے۔ چودھری نثار علی خان نے پرویز رشید کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیوز لیکس کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے تو بیان دینے والے شخص کے کرتوت سب کے سامنے آجائینگے۔ یہ انتہائی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کی فوج کے بارے میں مودی جیسی سوچ رکھنے والا شخص پاکستان کی خالق جماعت کا سیاسی وارث بن بیٹھا ہے۔

دونوں رہنمائوں کے درمیان لفظی جنگ کاسلسلہ اس وقت شروع ہواجب سینٹر پرویز رشید نے ایک ا نٹرویو میں کہا تھا کہ نیوز لیکس معاملے پر چودھری نثار ایک گروہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ میں پارٹی کو اسی صورت وقت دوں گا کہ چودھری نثار کو نکال دیں۔دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ ن لیگ کی اعلی قیادت کے اجلاس میں چودھری نثار کے حوالے سے حتمی فیصلہ لینے پر اتفاق طے پاگیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل نے دعوی کیا ہے کہ نوازشریف سمیت ن لیگ کی اعلی قیادت چودھری نثار سے جان چھڑوانے کے لیے تیار ہوگئی ہے۔ نجی چینل نے یہ بھی دعوی کیا کہ نواز شریف، پرویز رشید اور مریم نواز کے درمیان چودھری نثار کے حوالے سے اہم ملاقات ہوئی ہے۔ملاقات میں چودھری نثار کیخلاف کوئی حتمی فیصلہ کر لینے پر اتفاق طے پایا ہے۔ اس حوالے سے آئندہ چند روز میں صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔ ایسی صورت میں لگتاہے سیاسی حالات سے مکمل طورپرباخبرسابق وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار بھی پارٹی قیادت کے کسی انتہائی اقدام سے قبل ہی خود ہی ن لیگ کو خیر آباد کہہ جائیں گے۔ واضح رہے کہ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد چودھری نثار اور ن لیگ کی اعلی قیادت کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ چودھری نثار متعدد مرتبہ عوام سطح پر نواز شریف، مریم نواز اور پرویز رشید کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ جبکہ پرویز رشید نے بھی جوابی وار کرتے ہوئے چودھری نثار کو چیلنج دیا ہے کہ وہ پارٹی کو خیر آباد کہہ دیں۔

اس حوالے سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری کو خوش کرنے کے لیے ان کا نا پسندیدہ سابق وزیرداخلہ چودھری نثار سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔قومی اخبار میں فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق پرویز رشید نے کھل کر چودھری نثار کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا ہے۔ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) سے سابق صدر آصف علی سے تعاون کے لیے رابطہ کیا تھا۔جس پر آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ن سے رابطہ کیا ہے کہ آپ کے سابق وزیرداخلہ چودھری نثار نے ہمیں شدید نقصان پہنچایا ہے۔اور ہمارے بار بار کہنے کے باوجود بھی چودھری نثار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس پر نواز شریف نے آصف علی زرداری کو خوش کرنے اور ان سے رشتہ بحال کرنے کے لیے چودھری نثار کی پرانی دوستی کی قربانی دے دی ہے اور چودھری نثار کے لیے راہیں ہموار کی جا رہی ہیں کہ وہ خود پارٹی چھوڑ جائیں۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے معروف صحافی عارف نظامی نے بھی کہا ہے کہ چودھری نثار علی خان اور پرویز رشید کے مابین ایک چپقلش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز رشید نے چودھری نثار علی خان سے متعلق کہا ہے کہ ان کے فوج کے مخصوص طبقے سے تعلقات تھے ،اور انہوں نے اس طبقے کو خوش کرنے کے لیے مجھے نکلوایا۔

چودھری نثار علی خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ میں اکیلا، میں اکیلا والی بات کرتے ہیں۔ آج کل بھی وہ پنجاب ہائوس میں محدود رہتے ہیں اور کسی سے ملتے جْلتے بھی نہیں ہیں۔ لیکن ایک بات ہے کہ وہ سالہا سال سے منتخب ہوتے آ رہے ہیں جبکہ پرویز رشید ایک سینیٹر ہیں۔ عارف نظامی نے کہا کہ چودھری نثار علی خان کی پی آر بڑی کمزور ہے۔ ساتھی اینکر نے کہا کہ چودھری نثار علی آنے والے وزیر اعظم کے حامی اور دوست ہیں جبکہ پرویز رشید سابق وزیراعظم کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، یہ وجہ بھی ان کے مابین تلخی کا سبب ہو سکتی ہے۔

میاں نواز شریف کی نااہلیت اور وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کے بعد گو کچھ لوگوں کی خواہشات کے مطابق مسلم لیگ ن کا شیرازہ بکھرا نہیں ہے مگر پارٹی کمزور ضرور ہوئی ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف اچھے منتظم ہونے کے باعث مسلم لیگ ن مضبوط ہے۔ مرکز میں کئی رہنمائوں کو پارٹی پالیسی سے اختلاف کے باعث شو کاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ان حالات میں پارٹی اندرونی اختلافات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ دونوں رہنمائوں کے مابین اختلافات اور ایک دوسرے کے لیے توہین آمیز زبان کا استعمال پارٹی کے لیے کوئی نیک نامی نہیں ہے۔ چودھری نثار علی خان نے وزیراعظم سے نیوز لیکس رپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے قبل ازیں پرویز رشید بھی رپورٹ جاری کرنے کی حمایت کر چکے ہیں۔ اگر دونوں لیڈر متفق ہیں تو یہ رپورٹ جاری کر دینی چاہئے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان لیڈروں کے اختلافات اور بیانات کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے پارٹی مزید کمزور ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کودوسابق وزراء کے درمیان جاری لفظی جنگ کوروکنے کے لیے جلد فیصلہ لینا ہوگابصورت دیگرپرویزرشید کی موشگافیاں اورچودھری نثارعلی خان کے جوابی وارپہلے سے مشکلات میں ڈوبی پارٹی کے لیے نیامسئلہ کھڑاکرے گی ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر