وجود

... loading ...

وجود

گلبدین حکمت یار کا افغانستان

جمعرات 18 جنوری 2018 گلبدین حکمت یار کا افغانستان

امریکن کلئیرنس کے بعد حکمت یار خود ساختہ جلا وطنی یا زیر زمین خفیہ رہائش گاہ سے افغانستان پہنچ چکے ہیں اور موجودہ افغان حکومت کے ہی پاس خصوصی مہمان بنے سرکاری محلات میں براجمان ہیں کہ اب امریکا کی نظروں میں وہ”خطرناک ” نہیں رہے افغانستانی عوام میں ان کی پہلے سے ہی گہری جڑیں موجود ہیں کہ وہ روسیوں کے جانے کے بعد پہلے وزیر اعظم تھے اور ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ بھی ہیںپاکستانیوں سے ان کے تعلقات کوئی ڈھکے چھپے نہیںوہ ہمیشہ سے ہی پاکستان کی سا لمیت کے حامی رہے ہیں اور کیوں نہ ہوں ؟روس کے وہاں سے چلے جانے کے بعد پاکستان نے ہی انکی کمر پر ہاتھ رکھ کر تھپکی دی تھی اور پاکستان کی زبردست تائیدانہیں حاصل رہی پاکستان نے اس طرح پہلی افغان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کیا تھا ۔

پھر ” طالبان “کی تحریک چلی اور طالبان کی حکومت قائم ہوگئی اس دور میں انصاف کا بول بالا ہوا کہ اسلامی شرعی قوانین کا نفاذ بھی ممکن ہوابتدریج افغانستان اسلامی افغانستان میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا تھا 9/11کے واقعہ کے بعدامریکا نے القاعدہ کا پیچھا شروع کیا اور پاکستانی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی وساطت سے پاکستانی اڈے استعمال کرکے افغانستان پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیے بمباریاں کی گئیں زہریلی گیسیں پھینکی گئیں ڈرون طیارے استعمال ہوئے اور وہاں آج تک آگ اور خون کا یہ کھیل جاری ہے کئی بیرونی ممالک کی مشترکہ افواج نیٹو فورسز کے نام سے وہاں برسر پیکار ہیں مگر کھربوں ڈالر خرچ کرکے بھی ابھی تک امریکا افغانستان پر مکمل قابو نہیں پاسکا کہ ابھی نصف سے زائد علاقو ں پر طالبان قابض ہیںاور کابل کے گردو نواح پر ہی نہیں بلکہ سرکاری ایوانوں محلات پر بھی حملہ آور ہوتے رہتے ہیںنیٹو افواج کے بھی ہزاروں فوجی ہلاک ہوچکے ہیں ان کا راشن پانی اور اسلحہ کی ترسیل کا واحد راستہ پاکستان ہے۔

گلبدین حکمت یار نے موجودہ امریکن دھمکیوں اور پاکستانی امداد روکنے کے اعلان کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی امداد روکے جانے کی وجہ عدم تعاون نہیں۔بلکہ خطے میں بننے والاامریکا مخالف اتحاد ہے انہوں نے افغان چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا سمجھتا ہے کہ خطے میں اس کے خلاف نیا اتحاد بن رہا ہے جو واشنگٹن کے لیے غصے کا باعث ہے امریکا خطے میں مخالف اتحاد کے خوف سے پاکستان کے خلاف سخت مؤقف اپنا رہا ہے ویسے بھی واضح ہوچکا ہے کہ سبھی یہود و نصاریٰ سامراجی ٹولوں اور ہندو بنیوں نے متحد ہو کر پاکستان کے خلاف صہونیت کے علمبردار اسرائیل کے تابع فرمان بن کر محاذ کھول رکھے ہیں ٹرمپ کا فلسطین میں اپنا حکومتی ہیڈ کوارٹر منتقل کرنے کا اعلان اپنی بڑھتی ہوئی نا مقبولیت کا توڑ کرنے کی ناکام کوشش ہے جسے سلامتی کونسل اور پھر جنرل اسمبلی میں شرمناک شکست سے دو چار ہونا پڑا۔افغانستان سے نکلنے کی بجائے اب مزید قیام کے لیے پلاننگ جاری ہے تاکہ یہاں کی قیمتی معدنیات لوٹی جاسکیں۔

دوسری طرف نیٹو افواج افغانی تہہ خانوں میں رہ رہ کر اکتا چکی ہیںفوجی تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہیں جہاں انہیں ہفتوں سورج کی روشنی بھی نصیب نہیں ہوتی موجودہ افغان حکمران بھی ہر طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں امریکا کے افغانستان میں مزید قیام کرنے کی ہی وجہ سے شاید اسے اب پاکستان کی ضرورت نہ رہی ہے اگر پاکستان بھی اس کی طرح جذباتی ہوکر اپنا امدادی ہاتھ ختم کردے تو افغانستان میں جنگ کے شعلے تیز ہوجائیں گے اور امریکی افواج کو دن میں تارے نظر آنے لگیں گے۔بھارت کی طرف سے” را” کو اربوں ڈالر امداد کی وجہ سے افغانستان دہشت گردی کا گڑھ بنا ہوا ہے جہا ں سے تخریب کار پاکستان کے اندر آکر بھی وارداتیں کر رہے ہیںبالخصوص بلوچستان میں تو ان کی تخریب کاری انتہائوں کو چھو رہی ہے بحر حال پر امن افغانستان پاکستان کے بھی مفاد میں ہے کچھ بھی ہوجائے افغانستان میں امریکا کی صورت عراق اور مصر کی طرح “سو جوتے اور سو پیاز “کھانے کی طرح ہے “بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے”کے مصداق بالآخر امریکا کو یہاں سے جانا ہے مگر وہ مرحلہ پاکستان کی امداد کے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔

آخری صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ گلبدین جس پر امریکنوں ،افغان حکمرانوں اور پاکستانیوں کو بھی اعتماد ہے اور وہ امن عامہ بحال کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں یہ سبھی ان کے پیچھے کھڑے ہوں تو وہ طالبان سے مذاکرات کرسکتے ہیں اس طرح امریکی بھارت کو ” علاقائی تھانیدار ” بنانے کی بجائے گلبدین کو “چیف کنڑولر” بنا دیںجو امن کی بحالی کے بعد انتخابات کروائیں تاکہ اقتدار صحیح منتخب افراد کے حوالے ہوجائے امریکن تھنک ٹینک ایسی صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں مگر ٹرمپ ” میں نہ مانوں”اور یو ٹرن لینے کو ذاتی بے عزتی سمجھتے ہوئے ہندو مکار بنیوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں اور اپنی مکمل ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتے ہیں حالانکہ نیٹو افواج میں شامل دیگر سبھی ممالک نے کئی بار مزید جنگ جاری رکھنے سے انکار کیا ہے ہندو مکاروں نے تو پاکستان بننے سے قبل سکھوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں علیحدہ خودمختارمملکت بنانے کا ماحول فراہم کریں گے مگر گولڈن ٹیمپل پر ہی گولہ باری کر ڈالی جس پر سکھ محافظوں نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو گولیوں سے بھون ڈالا۔

ہندوبنیے” بغل میں چھری اور منہ میں رام رام “کرنے کے مکمل ایکسپرٹ ہیں وہ ” جی حضوریوں ” کی رٹ لگاتے اور دونوں ہاتھ جوڑ کر ” نمستے نمستے”کہتے ہوئے مخالف کو مکمل اعتماد میں لینے کے فن سے بخوبی آگا ہ ہیںامریکنوں کا وہ سارا اسلحہ بھی قبضے میں لے لیویں گے اور وقت آنے پر اس کے فوجیوں کو بھی ڈھلانوں،پہاڑوں سے لڑھکا دیں گے اور امریکا کی غلط پالیسی سے مدفون قیمتی دھاتوں کو نکالنے کی بجائے یہی زمینیں ان کا مدفن بن کر افغانستان ان کا قبرستان ثابت ہوگاواضح ہو کہ کسی چوہدری کی چوہدراہٹ اس کے پنڈ چک میں تو چل سکتی ہے مگر دیار غیر میں تو اسے منہ کی ہی کھانی پڑے گی !اور جان کے لالے پڑ سکتے ہیں ! دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی 75ہزار افواج و سویلین افراد کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاسکتیں! خدا دیکھ رہا ہے!!!


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر