وجود

... loading ...

وجود

زینب کا اصل قاتل کون؟

منگل 16 جنوری 2018 زینب کا اصل قاتل کون؟

ختم المرسلین آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ اور جیدخلفائے راشدین کے ادوار حکمرانی کے دوران معاشرہ شرافت ،پاکیزگی اور اعلیٰ ترین اقدارکا حامل بن چکا تھا جس میں نوزائیدہ معصوم بچیوں کو سابقہ جاہلیت کے دور کی روایات کے مطابق ان کو قتل کرکے زندہ درگورکرڈالنے کی بجائے ان کی عزت و وقار کا مکمل تحفظ موجود تھا آج بھی بیشتر اسلامی ممالک میں ا س دورکی روشن کردہ شمعیں نظر آتی ہیں سعودی عرب میں اول تو ایسے واقعات ہوتے ہی نہیں کہ شرعی قوانین کی موجودگی میں کوئی فرد ایسی قبیح حرکت قتل و غارت گری معصوم نوخیز بچیوں سے زنا بالجبر کا مرتکب ہو ہی نہیں سکتااگر اکا دکا واقعات ہوجائیں تو فوراً سر قلم کرنے اور لٹکانے جیسی سزائیں ملزم کو عبرت کا نشان بناڈالتی ہیں۔ ایران اور بنگلہ دیش میں معصوم بچیوں کے ساتھ ایسے مظالم پر تین ماہ میں فیصلہ کرکے مجرموں کو سر عام پھانسی دے ڈالی گئی تھی اور اب ایسے واقعات ناپید ہو چکے ہیں۔

ہمارے ہاں تو ضلع قصور میں گذشتہ سالوں سینکڑوں کم عمر بچیوں و بچوں کی ننگی ویڈیو فلمیں بنائی گئیں اور پھر انہیں بلیک میل کرکے مقتدر و طاقتور با اثر افراد کے ڈیروں ،ان کی قبحہ کمین گاہوں پر ان کی “حاضری ” اور پھر ان کے ساتھ معاشرہ کے کمینہ خصلت افراد کے اپنے منہ کالاکرنے کے واقعات کا پتہ چل جانے کے بعد بھی کسی ملزم کو قرار واقعی سزا نہ دینا دنیا و مافیا سے بے خبر بدمست حکمرانوں اور ہمارے ہاں رائج انگریز قوانین کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ایسے واقعات پاکستان بھر کی دیگر جگہوں سے بھی رپورٹ ہو رہے ہیں مگر ملزمان بااثر ہونے کی وجہ سے صاف بچ نکلتے ہیں کہ پولیس تو نوٹوں کے بنانے کی مشین ہونے کی بناء پر صرف اسی کی طرف دار ہوتی ہے جو انہیں “ڈھیروں مال “ادا کرے ۔ایس ایچ او تک پولیس والے جب تک “اوپروالوں کو مقرر کردہ نذرانہ “پیش نہ کریں وہ تھانوں کے انچارج لگ ہی نہیں سکتے اور پھر “ماہانہ بھتہ” باقاعدگی سے اوپر تک پہنچاتے ہیں۔

اس لیے پولیس محکمہ کی اصلاح کیے بغیر برائیوں کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جاسکتا ان کی تنخواہیں پانچ گنا بڑھا دیں ایسا کرنے کے بعد ان سے تھانوں کی قریبی مساجد میں عوام و دیگر سویلین افسران کی موجودگی میںحلف لیا جائے کہ وہ اب کوئی کام بھی سفارش اور رشوت لے کر نہیں بلکہ میرٹ پر کریں گے تبھی جاکر تھانے مظلوموں کی داد رسی کے ٹھکانے بن سکتے ہیں وگرنہ ویسے تو تھانہ کے قریب سے گزرنے والے ہر شخص کے دل و دماغ میں ان کا انتہائی غلیظ ،ظالمانہ اور رشوت خور پیٹوئوں کا کردار ہی گھومتا رہتا ہے!موجودہ حالات میں زینب کے اصل قاتل تو وہ سارے لوگ ہیںجنہوں نے ووٹ دیکر منتخب افراد کو بھاری مینڈیٹ دے رکھا ہے ایسے افراد چونکہ علاقہ کے چوہدری ،خان ،ملک ،ظالم وڈیرے ،بدکردار جاگیرداروڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکاروں کے علاوہ دوسرے کوئی ہو ہی نہیں سکتے۔کیونکہ انہوں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں ضلعی وتحصیل چیر مینوں کی سیٹیں کروڑوں روپیہ خرچ کرکے حاصل کی ہوتی ہیںپھر اگلے انتخابات کے لیے بھی وافر مال لوگوں کی گردنوں پر مستقل سوار رہنے کے لیے بنانا ہوتا ہے۔

اس لیے ان کے دل ودماغ میں تو ہر وقت اپنا خرچہ کیا گیا پورا کرنے کی دھن سوار رہتی ہے وہ تھانوں عدالتوں و سویلین افسروں سے حرام مال میں سے حصہ بقدر جثہ ماہانہ وصول فرماتے رہتے ہیںاور ان جگہوں سے مال متال صرف اور صرف مجرم ہی دے سکتے ہیں نہ کہ وہ جن کی چوری چکاری یا ڈکیتی ہوئی ہو یا جن کی معصوم بچیوں کو حوسناکیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا ہو۔پولیس اور متعلقہ بیورو کریٹوں کی” اصل آسامی ” مجرمین اور معاشرے کے ناسور بھتہ خور ڈاکو ڈکیت ،قاتل اور اغوا برائے تاوان والے ہی ہوتے ہیں جب کہ قانون ہمارا وہ بوسیدہ اور غلیظ پانی کا زہریلا جوہڑ ہے جس میں سے صاف پانی حاصل کرنا ممکن ہی نہیں۔ اندراج مقدمہ ملزم کی گرفتاری ،ریمانڈ کا حصول تفاتیش چالان مقدمہ گواہیاں وکلاء کی بحثیں استغاثے وکلا ء کی پیشیوں پر اگلی تاریخیں لینا لوئر کورٹ کے فیصلے کے بعد ہائیکورٹ کے سنگل و ڈبل بنچ میں اپیلوں کی سماعت سپریم کورٹ اور پھر پھانسی پانے والوں کی صدر پاکستان کے پاس اپیلیں وغیرہ ایسے گنجلک اور گھوم چکریاں ہیں جن کا کوئی توڑ نہیں ہو سکتا۔

فیصلے سالوں تک بھی نہ ہوں تو ملزم کیسے سزا پائیں گے سرمایہ دار ملزمان لازماً بھاری فیسوں والے وکلاء کی خدمات حاصل کرکے سزا سے بچ رہتے ہیں غیر اسلامی انگریزوں کے دور کے “یاد گار بدنما قانون “کو دریا برد کرنا ہوگا تاکہ ملزم جلد سزا پائیں اور زینب جیسی معصوم بیٹی پر ظلم کا پہاڑ توڑنے والے خونخوار درندوں نمامجرم جلد جہنم واصل ہوسکیںوگرنہ روز محشر زینب کوانصاف ملکر رہے گا اور مقتدر افراد کا حشر برپا ہو گا۔ حضرت علی شیر خدا نے فرمایا تھا کہ جن کے قاتل نہ ملیں ان کے قاتل حکمران ہی ہوتے ہیں ہم عوام بھی خود ہی زینب کے ساتھ ظلم و بر بریت کرنے اور قتل کرنے کے بعد اسے گندگی کے ڈھیر پر پھینک ڈالنے کے مجرم ہیں کہ ہم نے لادینی مغربی جمہوریت کے گن گاتے ہوئے ایسے معاشرے کے غلیظ ترین افراد کو ووٹ دیکر مقتدر کر رکھا ہے جن کی شہ کے بغیر ان کی ” راجھدانیوں” میںایسے واقعات ہو ہی نہیں سکتے کہ وہ ایسے تمام غلیظ غنڈہ عناصر ڈکیتوں قاتلوں بھتہ خوروںاور معاشرہ کے ناسوروں کے سر پرست ہو تے ہیں۔

اگرا یسا نہ ہو تا تو قصور کے غریب عوام وہاں کے ایم این اے ،ایم پی اے کے گھروں میں گھس کر ہر چیز کو خاکستر نہ کر ڈالتے ہمیں خدائے عز وجل کو گواہ بنا کر وعدہ کرنا ہوگا کہ ہم آئندہ کسی بھی بد کردار وڈیرے ظالم جاگیردار ڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکار ار معاشرہ کے کریہہ و غلیظ افراد کو قطعاً ووٹ نہ دیں گے وگرنہ بھوکوں مرتے مہنگائی کے جن کے ستائے ہوئے خود کشیاں کرتے بیروزگاری کے ظلم و بر بریت سے تنگ پسے ہوئے طبقات کے گلیوں کوچوں سے اللہ اکبر اللہ اکبر اور یا نبی ﷺ یانبیﷺ کے نعرہ زن لوگ تحریک کی صورت میں نکل کر بوسیدہ نظام کی جڑیں اکھاڑ کر پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنا کر رہیں گے جہاں انصاف کا بول بالا ہو گا غربت مہنگائی ظلم و بر بریت بیروزگاری کے عفریت دم توڑ دیں گے غریب کو مفت خوراک لباس رہائش تعلیم علاج مہیا ہوگا مزدوروں کو ماہانہ پچاس ہزار روپے تنخواہ اور سبھی کو تمام کھانے پینے کی اشیاء و ہمہ قسم تیل 1/3قیمت پر بذریعہ سبسڈی حاصل ہو گا۔

ایٹمی پاکستان کو تمام اسلامی ممالک کے محافظ ہونے کے ناطے ان کی سربراہی حاصل ہو گی۔تمام پولیس و انتظامی فسران اور ان کی سرپرستی کرنے والے حکمرانوں کو ایک دفعہ نشان عبرت بنا ڈالیں تو معصوم زینب جیسے واقعات قطعاً نہ ہوں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر